مہنگائی کا جن

November 28, 2021

مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ہمارا مسئلہ مہنگائی ہے، لوگ پس گئے،IMFمعاہدے کے بعد نیا ٹیکس لگائیں گے نہ بڑھائیں گے، استثنیٰ ختم کرینگے، فائدہ عوام کو ہوگا،ڈالر 8،9 روپے نیچے آئےگا،سٹے بازمار کھائیں گے،روپیہ گرنے کی افواہوں پر توجہ نہ دیں، آئی ایم ایف کو ٹیکس لگانے سے انکار کیا،آئی ایم ایف معاہدے سے متعلق غلط فہمیاں پھیلائی گئیں، جلد تیل کی قیمتوں میں کمی آنا شروع ہوگی‘‘۔اللّٰہ تعالیٰ شوکت ترین کی زبان مبارک کرے۔انہوں نے جو کچھ کہا ہے اللّٰہ کرے وہ سچ ثابت ہو کیونکہ اب گنجائش بالکل نہیں ہے۔ غریب عوام کی حالت بہت خراب ہے مگر ابھی تک عوام کو عمران خان سے توقع ہے کہ جس طرح ورلڈکپ میں ہارتے ہارتے بھی انہوں نے ورلڈ کپ جیت لیا تھا، اسی طرح وہ رفتہ رفتہ مہنگائی کے اس عفریت کو بھی شکست دینے میں کا میاب ہو جائیں گے۔ پنجاب میں بھی وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی تمام تر توجہ اسی جانب ہے کہ جلد سے جلد لوگوں کوزیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے۔ جلد سے جلد مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کیا جائے۔

عوام کے ساتھ شاعر بھی مہنگائی سے زخم خوردہ لگ رہے ہیں۔ آج کچھ شاعروں کے اشعار پیش کرتا ہوں جن سےغربت اور مہنگائی کا درد لپک لپک کر باہر نکل رہا ہے۔

غریبوں کا مقدر پستیاں ہیں

امیروں کی علیحدہ بستیاں ہیں

ابھی تک اپنے پاکستان ہیں دو

کہیں غربت کہیں خرمستیاں ہیں

ابھی ہر چور صادق اور امیں ہے

کوئی تبدیلی آئی ہی نہیں ہے

فقط مہنگی ہوئی ہے دال روٹی

جہاں جو چیز تھی باقی وہیں ہے

یہ قطعات حسن نثار کے نام منسوب کرنے کو جی چاہ رہا ہے کہ انہوں نے ہی پی ٹی آئی کو ’’دو نہیں ایک پاکستان کا‘‘ نعرہ دیا تھا۔مگر یہ کوئی نئی بات نہیں ہر دور میں شعرائے کرام ایسی شاعری کرتے رہے ہیں۔

میانوالی کے سب سے بڑے شاعر سید نصیر شاہ کا شعر دیکھئے

اب کبھی بازار جانے پر بضد ہوتا نہیں

میری غربت نے مرے بچے کو دانا کردیا

محسن نقوی نے کہا تھا

وہ اکثر دن میں بچوں کو سلا دیتی ہے اس ڈر سے

گلی میں پھر کھلونے بیچنے والا نہ آ جائے

بیدل حیدری نے کہاتھا

بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے

بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے

اقبال ساجد نے کہا تھا

مہنگی ہیں گر کتابیں تو چہرے پڑھا کرو

قدرت نے جو لکھے ہیں وہ کتبے پڑھا کرو

سبط علی صبا کہا تھا

جب چلی ٹھنڈی ہوا بچہ ٹھٹھر کر رہ گیا

ماں نے اپنے لعل کی تختی جلا دی رات کو

ساحر لدھیانوی نے کہا تھا

مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے

بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی

انور شعور نے مہنگائی سے نیکی کی بات نکالی۔

مہنگائی راہ راست پہ لے آئی کھینچ کر

بچتی نہیں رقم بری عادات کے لئے

قتیل شفائی نے بھی کسی زمانے میں عجیب انداز سے مہنگائی کا ذکر کیا تھا

حوصلہ کس میں ہے یوسف کی خریداری کا

اب تو مہنگائی کے چرچے ہیں زلیخاؤں میں

میجر شہزاد نیئر بھی مہنگائی کو محبوب کے تناظر دیکھ رہے ہیں

میں تو خود پر بھی کفایت سے اسے خرچ کروں

وہ ہے مہنگائی میں مشکل سے کمایا ہوا شخص

ایک بار دمشق میں مہنگائی پڑی تھی اور لوگ عشق کرنا بھول گئے تھے

چنیں قحط افتاد اندر دمشق

کہ یاراں فراموش کردند عشق

ایک خیال یہ آرہا ہے کہ شاعری کے دوسرے مضامین کی طرح غربت بھی ایک مضمون ہے۔ جسے کسی نہ کسی طرح تقریباً ہر شاعر نے کہا ہے۔ بات غالب سے شروع ہو سکتی ہے

گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار

لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

غالب یوں بھی گویا ہوا

تیری وفا سے کیا ہو تلافی، کہ دہر میں

تیرے سِوا بھی، ہم پہ بہت سے سِتم ہوئے

علامہ اقبال نے کہا تھا

دہقاں ہے کسی قبر کا اُگلا ہوا مُردہ

بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے

فیض نے غالب والی بات کو یوں کہا

مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ

ترقی پسند تحریک میں شامل تمام شعرائے کرام نے غربت کے موضوع پر شاعری کی۔ انہوں نے غربت سے رہائی کے جذبے کو ایک شوخ پرچم میں بدلا۔ سونے کے قفس کی کڑیوں میں مجبوروں کےپھرکنے کی عکاسی کی گئی۔ دھرتی کے مسائل سے تخلیق کے عنوان بدلنے لگے۔ پھر شاعروں نے اپنی ذات کی عکاسی کرتے ہوئے بھی اسی موضوع کا انتخاب کیا ہے، مثال کے طور پر تنویر سپرا نے کہا تھا

کتنا بعد ہے میرے فن اور پیشے کے مابین

باہر دانشور ہوں، مل میں آئل مین

پھر اقبال ساجد کا ایک شعر یاد آگیا

غربت کی تیز آگ پہ اکثر پکائی بھوک

خوش حالیوں کے شہر میں کیا کچھ نہیں کیا

میں مگر مایوس کبھی نہیں ہوا۔ یہ حالات بہت جلد بدلیں گے۔ یہ مہنگائی ان شاءاللّٰہ بہت جلد ختم ہوگی۔ ایک نئی صبح جلد طلوع ہوگی۔ جو ریاستِ مدینہ کا خواب عمران خان نے دیکھا وہ ضرور پورا ہوگا۔