راحت و مصیبت ہر حال میں راضی بہ رضا رہنا

January 14, 2022

عمران احمد سلفی

ارشادِ ربانی ہے:(ترجمہ)نہیں پڑتی کوئی مصیبت زمین میں اور نہ تمہاری اپنی جانوں پر ،مگر وہ (لکھی ہوئی ہے )ایک کتاب میں اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں۔ بلاشبہ ،یہ بات اللہ کے لیے بہت آسان ہے ۔یہ اس لیے ہے تاکہ نہ غم کھائو، کسی نقصان پر اور نہ اِترائو تم اس پر جو عطا فرمائے وہ تمہیں اور اللہ نہیں پسند کرتا ہر گھمنڈ کرنے والے اور فخر جتانے والے کوo(سورۃ الحدید،:۲۲ ۲۳)

ان آیات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کو آگاہ کیا ہے کہ وہ کسی چیز کے چلے جانے پر افسوس نہ کرے ،اپنے کسی نقصان پرغم نہ کرےاور اسی طرح اپنے خالق حقیقی کی جانب سے ملنے والی کسی نعمت و راحت پر اکڑ اور اتراہٹ کا اظہار بھی نہ کرے، کیوںکہ یہ سب انسان کے پیدا کرنے سے بھی پہلے لوح محفوظ میں لکھ دیا گیا ہے۔ اس لئے اب غم کھانا ،کف ِافسوس ملنا بھی باعث خسارہ ہے اور اکڑنا اترانا بھی باعث نقصان ہے۔ یہ آیات، حادثات اور سانحات سے متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کے لئے بہت بڑی نصیحت ، تسلی و ہمدردی کا باعث ہیں۔

درحقیقت دنیا کی دو چیزیں ایسی ہیں جو انسان کو اللہ کی یاد اور آخرت کی فکر سے غافل کر نے والی ہیں۔ ایک راحت و عیش، نعمتوں کی فراوانی جس میں کھو کر انسان رب تعالیٰ کو بھلا بیٹھتا ہے۔ دوسری چیز مصیبت وغم ہے، اس میں مبتلا ہوکر بھی بعض اوقات انسان مایوس اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے۔

ان آیات کی تفسیر میں علامہ آلوسی علیہ الرحمہ اپنی تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ اس آیت میں زمین کی مصیبت سے مراد قحط، زلزلہ، کھیت اور باغات میں نقصان ، تجارت میں گھاٹا، مال ودولت کا ضائع ہوجانا، عزیزو اقارب اور دوست احباب کی موت سب داخل ہیں اور اپنی جانوں کی مصیبت سے مراد ہر طرح کے امراض کا طاری ہونا ، زخم اور چوٹ کا لگ جانا ، معذوری کا شکا ر ہو جانا وغیرہ شامل ہیں۔

اسی طرح دنیا میں انسان کو جو بھی مصیبت یا راحت، خوشی یا غم پیش آتا ہے ،وہ سب حق تعالیٰ نے انسان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی لوحِ محفوظ میں لکھ رکھا ہے اور اُسے اِس کی اطلاع اس لیے دی گئی ہے، تاکہ وہ دنیا کے اچھے بُرے حالات پر زیادہ دھیان نہ دے، کیوں کہ نہ تو یہاں کی تکلیف ومصیبت کوئی زیادہ حسرت وافسوس کرنے کی چیز ہے اور نہ یہاں کی راحت وعیش یا مال ومتاع اتنا زیادہ خوش اور مست ہونے کی چیز ہے کہ جس میں انسان مشغول ہوکر اللہ کی یاد اور آخرت سے غافل ہوجائے۔

مستدرک حاکم میں ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا یہ فرمان مروی ہے کہ ’’ہر انسان طبعی طور پر بعض چیزوں سے خوش ہوتا ہے، بعض سے غمگین، لیکن ہونا یہ چاہیے کہ جس کسی کو مصیبت و تکلیف پیش آئے وہ اس پر صبر کرکے آخرت کا اجروثواب کمائے اور جس کسی کو راحت ونعمت، خوشی وسرور حاصل ہو، وہ اس پر شکر گزار ہو، تاکہ و ہ راحت و خوشی دوام و قرار پائے‘‘۔

دوسری آیت کے آخری جزء میں اللہ تعالیٰ نے اترانے والوں اور فخر کرنے والوں کی مذمت بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ اِترانے والے ، فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ عقل منداور عاقبت اندیش انسان کا فرض یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ہر کام میں اس بات کی فکر کرے کہ وہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے یا نہیں؟