انتہاپسندی کیخلاف باچا خان کا اصلاحی اسلوب

January 19, 2022

یوںتو پورے ملک کو گاہےگاہے انتہاپسندی نے متاثرکیالیکن پاکستان میں پختون خطہ بالخصوص اسکی لپیٹ میں آیا، اب تو انتخابی سیاست پر بھی اسکے نقش ونگار ہرگزرتے دن کےساتھ نمایاں ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف ملک کے طول وعرض میں اس ضرورت کااحساس بھی بڑھ رہاہےکہ اس صورتحال کامقابلہ کیسے کیاجائے۔اگرچہ پختونخواکے لوگ اپنے فکرو عمل میں جمہوری ہیں،یہاں اس وقت بھی معاملات جرگےسے طے ہوتے تھے جب دنیا جمہوری نظام سے بہت دورتھی۔اس جمہوری ومذہبی رواداری کے خلاف سب سے پہلے مغل شہنشاہ اکبرکے دورمیں مذہب کارڈبروئے کارلایاگیا،چونکہ مغلوں نے افغانوں سے اقتدارچھیناتھااورپھر شیرشاہ نے ہمایوں کوشکست دےکرہندکااقتدارواپس لے لیا تھا، اس لیے اکبربادشاہ نے، جوانتہائی زیرک و شاطر تھا، پختون افغانوں کو باہم برسر پیکار رکھنے کیلئے جہاں مذہب کے مقدس نام کواستعمال کیاوہاں پیسے اور عہدوں کاجال بھی پھیلایا۔اس کے بعد انگریزوں نےاس نسخے سے استفادہ کیا، آج پاکستان میں بھی یہی فارمولہ مستعمل ہے۔عوام کواس مذہبی کارڈ کی اصل حقیقت سے آشنا کرنےکیلئے مغل ادوارمیں پیرروشن بایزیدانصاری اور خوشحال خان خٹک نےعَلم بلند کیا جبکہ انگریزوں اوربعدازاں پاکستان میں باچاخان انتہاپسندی کیخلاف میدان عمل میں رہے۔آج حضرت باچاخان کی برسی پر ہم اس امر کاجائزہ لیں گے کہ باچاخان کی جدوجہدکے وہ کونسے اصول تھے جن پر چل کربالخصوص انکے نام لیواانتہاپسندی کیخلاف اپنا کرداراداکرسکتے ہیں۔یہ بات یادرکھنے کے قابل ہےکہ کسی معاشرے میں رہتے ہوئے آپ اُس معاشرےکی نفسیات سے متضادراستہ اختیار کر کے لوگوں کواصل صورتحال سےآگاہ اوران کی اصلاح نہیں کرسکتے،یہی وجہ ہے کہ جہاں پیرروشن ،خوشحال خان خٹک اور باچا خان کی تحاریک روشنی خیالی سے عبارت تھیں وہاں اصل دینی تعلیمات اسکی کلید تھیں۔ باچاخان کی تنظیم ’’خدائی خدمتگار‘‘ رورولی (بھائی چارے) او قام ولی ( قوم پرستی و قوم کی اصلاح ) کے اصولوںپر استوارتھی، یہ دونو ں اصطلاحیں معنی میں سادہ مگر وسیع مفہوم لیے ہوئے ہیں۔یہ ایک قوم کی تمام زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے مساوات کی بنیاد پر ایسے پُرامن طور پر زندگی گزارنے کے سلیقے سے عبارت ہے،جس کا منہج انسانیت کی معراج یعنی بلاامتیاز طبقے،زبان، مذہب تمام انسانوں سے پیار ہے۔باچا خان اشنغرچارسدہ کے ایک بڑے خان تھے، لیکن وہ عام فرد کی طرح زندگی گزارتے تھے تاکہ وہ اپنی طبقاتی حیثیت کی نفی کرسکیں۔ باچاخان عوامی رابطہ مہم کے سلسلے میں جس گائوں میں داخل ہوتے، سب سے پہلے وہاں کی مسجد اور حجرےمیں جاتے اور جھاڑو دیتے۔ پھر وہ کسی غریب کے گھر مہمان بنتے، وہاں کےلوگوں سے کہتے کہ وہ اپنے اپنے حصے کا عام کھاناگھروں سے لائیں،یہاں ملکر کھائیں گے۔یوں اپنے فلسفے ’’ پورہ وی کا سپورہ وی، پہ شریکہ بہ وی ‘ ‘ (روکھی ہو یا سوکھی، ملکر کھائیں گے) کا عملی مظاہرہ کرتے۔اکتوبر 1929میں جب خدائی خدمتگار تنظیم وجود میں آئی، تو اُس کا نصب العین یہ قرار پایا۔ (1)خدائی خدمتگاری سے مراد،خدا کی مخلوق کی بلاامتیازخدمت(2)ظالم کے مقابلے میں کمزور کی مدد (3)مقابلہ عدم تشدد کے ہتھیارسے۔ یہ انوکھا ہتھیار متعارف کراتے ہوئے باچاخان نے عمر بھر اس کی تربیت دی اورخود عمل کیا۔(4)ہر رکن یہ عہد کرےگا کہ اُس کی خدمت صرف خدا کی رضا کیلئے ہوگی (5)اس راہ میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کریگا۔اب ان خطوط پر کیسی شاہکار تنظیم ایستادہ ہوئی، آیئےدشمن انگریز کی گواہی لیتے ہیں۔ ’’1930 تک ہندوستان میں وہی ہوا(کانگریس، مسلم لیگ کے ہوتے ہوئے) جو ہم (انگریز)چاہتے تھے،حتیٰ کہ روس پسپا ہوا، کابل میں خاموشی چھاگئی، ایسے میں ایک شخص عبدالغفار اُٹھااور پھر ہر طرف شورش اور بے چینی پھیل گئی ‘‘ (دستاویزات این ڈبلیو ایف پی، انڈیا آفس لائبری لندن)قبل ازیں باچا خان نے جب 1921 میں انجمن اصلاح الافاغنہ کے تحت تعلیمی ادارے قائم کرنے کے مشن میں اپنے گائوں اُتمان زئی میں پہلے آزاداسکول کا آغاز کیا تواس کے اولین طالب علم خان عبدالولی خان تھے جن کا کلاس فیلوتانگہ چلانے والے(تانگے بان)قادری کاکا، کا بیٹاتھا،یہ مروجہ طبقاتی تعلیم کی بیخ کنی کا اعلان تھا۔ہندوستانی نژاد امریکی مصنف ایکنات سوارن اپنی کتابA Man To Match His Mountainsمیں لکھتے ہیں،باچاخان نے اپنے تعلیمی، اصلاحی کام کیلئے ہزاروں میل کا سفر کیا، اور تین سال میں صوبہ سرحد (پختونخوا)کے تمام 500 بندوبستی دیہات کا دورہ کیا۔ باچاخان قربانی کے وقت سب سے آگے ہوتے، مردان مارچ کے دوران لاٹھی چارج سے آپ کی دونوں پسلیاں ٹوٹ گئیں،اور اسی حالت میں جیل میں ڈال دیے گئے۔آپ کی تنظیم کے اکثر عہدیدار نچلے طبقے سے تھے۔جنرل حبیب اللہ کے والد اورجنرل علی قلی خان کے داداخان بہادر قلی خان کے حجرے میں ایک ڈھول بجانے والا وطنی چاچاہر عید پر جاتا،اور فن کے مظاہرے پر دو روپے پاتا۔پھر وہ ضلع کرک کے اس گائوں میں خدائی خدمتگار تنظیم کا صدر بنا۔عید آنے پر وہ دربار میں نہیں گیا، بلاوا آیا، تو خان بہادر نے بہت سنائیں کہ حاضری کیوں نہیں دی۔وطنی چاچا نے جواب دیا، آپ انگریز کے خان بہادر ہیں، لیکن میں اب باچا خان کی تنظیم کا صدر ہوں، لہٰذا احتیاط سے زبان چلائیں،اگلی عید پر آپ میرے ہاں آئیے گا، دو روپے نقد آپ کے پکے ہوئے۔یہ تھا وہ ذہنی انقلاب جو باچا خان نے برپا کیا اور جس سے انگریز اور اُسکے گماشتوں کو خطرہ لاحق ہوا۔باچا خان نے عوام میں رہتے ہوئے سیاست کی،اورعوام کوماحول کی غلامی سے نجات کی راہ دکھلائی۔مذکورہ حقائق یہ یاددلاتے ہیںکہ مذہبی انتہاپسندی سے نکلنے کیلئے مذہبی ابن الوقت طبقے کا تمسخراُڑانے کی بجائے اصل مذہبی تعلیمات کی روشنی میں ایسے عناصرکوبے نقاب کرناہوگا،اس کیلئے مولوی بننالازم نہیں، باچاخان کی طرح عقیدےکاسچا، روشن خیال ووسیع النظرپیامبر بننا ضروری ہے۔