ہم کو یورپ میں کراچی کی فضا یاد رہی

January 26, 2022

کراچی صرف اس لئے منفرد اہمیت حا مل نہیں کہ یہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور نہ ہی یہ کہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اور نہ ہی اس لئے کہ یہ سمندر کے کنارے آباد ہے۔ یہ سب اپنی جگہ، مگر اس ان سب باتوں کے علاوہ کراچی کی وجہ شہرت یہ بھی ہے کہ یہ ایک ادبی شہر کی حیثیت سے بھی جا نا پہچانا جاتا ہے،نہ صرف تقسیم ہند کے بعد بلکہ اس سے پہلے بھی ادب کے حوالے سے ایک منفرد حیثیت کا حامل تھا۔ تقسیم ہند کے بعد مختلف خطوں اور علاقوں سے پاکستان ہجرت کرکے ادباء اور شعراء نے کراچی کو اپنا مستقل مسکن بنایا جس کی وجہ سے برصغیر کا ادبی سرمایہ سمٹ کر کراچی میں جمع ہوگیا تو اس شہر کی ادبی حیثیت میں چار چاند لگ گئے ۔

جس طرح یہ لوگ اپنے شہروں اور علاقوں میں شعر و ادب کی محفلیں منعقد کیا کرتے تھے اسی طرح اپنے ذوق کی تسکین کے لئے وہ کرا چی میں بھی شعر وادب کی محفلوں کا انعقاد کرنے لگے اور یوں یہ شہر ایک اہم ادبی و ثقافتی مرکز بن گیا۔ اور یوں اس شہر نے بڑے بڑے شعرا ء کرام پیدا کئے جو اپنی شاعری کی بنیاد پر اس شہر کی پہچان بنے اور نہ صرف پورے پاکستان میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر مقبولیت حا صل کرکے اس شہر کی عزت میں اضافہ کیا ۔

کراچی کے شعرا ء نے شاعری کی ہر صنف پر طبع آزمائی کی اور بڑی کا میابی سے کی لیکن غزل میں شعرا ء کراچی کو ایک خا ص مقام حا صل ہوا۔ اس کے علاوہ گیت ، ملی نغمے ، فلمی گیت ، نظمیں ، دوہے، ہائیکو ، میں بھی مقبو لیت اور شہرت میں سب سے آگے رہا ۔ کراچی کی شاعری خواہ وہ حمد و نعت ہو ، عشقیہ ہویا انقلابی ہو ، مزاحیہ ہو ، ہر صنف میں نمایاں نظر آتی ہے ۔ اس ہفتے کراچی کے ان چند شاعروں کا تذکرہ پیش خدمت ہے جنہوں نے اپنی شاعری کی بدولت اردو ادب میں ایک اعلی مقام حا صل کیااور جن کی شاعری نہ صرف اردو شاعری سے محبت کرنے والوں کے لئے سرمایہ ہے بلکہ اردو ادب کے طالب علموں کے لئے بھی کسی سرمائے سے کم نہیں ۔

جوش ملیح آبادی

اصل نام شبیر حسین خاں ، جوش تخلص اور قلمی نام جوش ملیح آبادی تھا ۔ 5 دسمبر 1898ء کوپیدا ہوئے ۔نو سال کی عمر میں شاعری شروع کی۔ خاندانی ماحول اور پس منظر بھی شعر و سخن سے وابسطہ تھا جس سے ان کا اس طرف مائل ہونا ایک فطری عمل تھا ۔ تقسیم سے پہلے دہلی سے اپنا ایک رسالہ " کلیم " کے نام سے نکالتے تھے اور تقسیم کے بعد پاکستان آکر کراچی میں سکونت اختیار کی ۔ جوش ملیح آبادی اردو کے علاوہ عربی ، فارسی ، ہندی اور انگریزی پر بھی عبور رکھتے تھے ۔

انہیں رومانوی اور انقلابی شاعر کہا جاتا تھا اس کی وجہ آپ کی روما نوی اور انقلابی شاعری تھی جو بے حد مقبول تھی۔جوش کو زبان و بیان پر دسترس حاصل تھی ۔ جو ش نے دارا لتر جمعہ ،حیدر آباد دکن اور انجمن ترقی اردو ،کراچی میں بھی خدمات انجام دیں ۔ تصانیف میں سوانح عمری، یادوں کی برات، روح ادب ، آواز ہ حق ، شاعر کی راتیں ، جوش کے سو شعر ، نقش و نگار ، شعلہ و شبنم ، پیغمبر اسلام ، فکر ونشاط ، جنون و حکمت ، حرف و حکایت ، عرش و فرش، حسین اور انقلاب وغیرہ بہت مشہور ہیں ۔ ان کی نظم کے چند اشعار:

اب تمنا نہیں سینے سے لگانے کی تجھے

اپنے دکھتے ہوئے پہلو میں بٹھانے کی تجھے

اب تھکے دل میں وہ ہلچل نہیں ارمانوں کی

سانس رکتی تھی جسے دیکھ کر طوفانوں کی

محشر بدایونی

اصل نام فاروق احمد اور قلمی نام محشر بدایونی، 4 مئی 1922 ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔ 1947ء میں پاکستان آگئے، پہلے لاہور ایک ماہ قیام کیاپھر کراچی آگئے اور سپلائی اینڈ ڈیولپمنٹ ، ڈپارٹمنٹ میں ملازمت کر لی۔ محشر بدایونی نے ایک عرصہ تک ریڈیو پاکستان کے مجلہ " آہنگ " کے مدیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں ۔

انہیں غزل کا معروف شاعر ہونے کا اعزاز حا صل ہے ۔محشر کی غزلیں جدید طرز احساس کی حا مل ہیں ۔ آپ کا شمار اردو کے ممتاز شعرا ءمیں ہوتا ہے ۔ ان کی تصانیف میں " شہر نوا " ، " غزل دریا " ، " گردش کوزہ " ، " چراغ میرے ہمنوا " ، شاعر نامہ ، غزل دریا کو آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا ،جبکہ شاعر نامہ کو انجمن ترقی اردو کا ایوارڈ ملا ۔

ان نمونہ کلام ملاحظہ کریں:

کم الجھتی ہے چراغوں سے ہوا میرے بعد

شہر میں شہر کا موسم نہ رہا میرے بعد

ڈوبنا تھا سو میں اک موج میں بس ڈوب گیا

اور دریا تھا کہ بہتا رہا میرے بعد

رئیس امروہوی

12 ستمبر 1914 ء کو امروہہ ضلع مراد آباد (یو پی ) میں پیدا ہوئے۔ خاندانی نام سید محمد مہدی عرف اچھن ، رئیس تخلص اور قلمی نام رئیس امروہوی تھا ۔ رئیس امر وہوی کو شعر و ادب اپنے والد سید شفیق حسن سے ورثے میں ملا ،وہ خود شاعر تھے، اور ان کا تخلص ایلیا تھا ۔ ریئس امروہوی نے دس برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دیئے تھے ۔ 19 اکتوبر 1947 ء کو ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی۔ یہاں آنے کے بعد روزنامہ جنگ سے وابستہ ہوئے اور آخری وقت تک بحیثیت کالم نویس اور قطعہ نگار جنگ سے وابستہ رہے ۔

بنیادی طور پر قطعہ نگاری کا آغاز انہوں نے 1938 ء میں کر دیا تھا ۔ قطعہ نگاری میں جو مقام رئیس امروہوی کو حاصل ہوا وہ کوئی اور نہ حا صل کر سکا ۔1936 ء میں امروہہ کے دو اخبارات ’’قرطاس‘‘ اور’’ مخبر عالم ‘‘ کے ادارتی فرائض بھی سر انجام دیئے ۔ 1939 ء صحافت کو بطور پیشہ منتخب کیا ۔انہوں نے اپنی شاعری خا ص طور پر قطعات سے ادب میں ایک منفرد مقام حا صل کیا جو اور کسی کے حصے میں نہیں آیا ۔ انکی شعری تصانیف میں ’’الف‘‘ ،’’ مثنوی لالہ صحرا‘‘، ’’پس غبار‘‘، ’’قطعات جلد اول و دوم ‘‘،’’حکایت نے‘‘، ’’بحضرت یزداں‘‘ ، ’’ انا من الحسی‘‘ ، ’’ ملبوس بہا‘‘ اور آثار وغیرہ بہت مشہور ہیں ۔ نمونہ کلام :

جہاں معبود ٹھہرا یا گیا ہوں

وہیں سولی پہ لٹکایا گیا ہوں

سنا ہر بار میرا کلمہء صدق

مگر ہر بار جھٹلایا گیا ہوں

تابش دہلوی

9 نومبر 1911 ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ۔اصل نام مسعود الحسن ، تابش تخلص اور قلمی نام تابش دہلوی تھا ۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حا صل کی ۔ 1939 ء میں آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوئے ۔17 ستمبر 1947 ء کو پاکستان آکے کراچی یونیورسٹی سے 1958 ء میں بی ۔اے کی ڈگری حا صل کی ۔ شاعری کی ابتداء 13 برس کی عمر میں ہی کردی تھی ۔

تابش دہلوی نے نعت ، مرثیہ ، ہائیکو ، آزاد نظم ، گیت اور قومی نغمے بھی تخلیق کئے مگر بنیادی طور پر تابش دہلوی غزل کے شاعر تھے ۔ وہ اپنے منفرد لب ولہجہ کی وجہ سے مقبول تھے ۔ حکومت پاکستان کی جانب سے " نشان پاکستان " سے بھی نوازا گیا ۔ ان کی تصانیف میں " نیمروز " ، " چراغ صحرا " ، " غبار انجم " ، " ماہ شکستہ " ، "تقدیس " ، " تاب غزل " شامل ہیں۔

ذیل میں ان کے چند اشعار ملاحظہ کریں:

سب نے مجھ ہی کو در بدر دیکھا

بے گھری نے مرا ہی گھر دیکھا

بند آنکھوں سے دیکھ لی دنیا

ہم نے کیا کچھ نہ دیکھ کر، دیکھا

رسا چغتائی

1928 ء کو ریاست جے پور میں پیدا ہوئے ۔ اصل نام مرزا محتشم علی بیگ ، تخلص رسا اور یوں قلمی نام رسا چغتائی رکھا۔ تعلیم کے میدان میں زیادہ نہ بڑھ سکے، مگر اس کے باوجود علم و ادب میں بڑا نام کمایا ۔ 1950 ء میں ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی ۔ متعدد ادروں میں کام کیا۔ شاعری میں آپ کے استاد محترم بینش سلیمی تھے۔رسا چغتائی کی شاعری زندگی کی شاعری ہے ۔

وہ اپنے ماحول اپنی حقیقی زندگی سے جو کچھ حا صل کرتے اس حقتقت کو اپنی شاعری کے ذرئعے لوگوں تک پہنچا تے ۔چھوٹی بحر کے ایک بڑے شاعر ہونے کا اعزاز انہیں حا صل ہے۔رسا چغتائی کے چار مجموعہ کلام اب تک منظر عام پر آچکے ہیں ۔ پہلا مجموعہ " ریختہ " کے نام سے 1974 ء میں شائع ہوا ، جبکہ دوسرا 1983 ء میں " زنجیر ہمسائیگی " کے نام سے منظر عام پر آیا ۔ " چشمہ ٹھنڈے پانی کا " ان کا تیسرا مجموعہ کلام ہے ،جو 1999 ء میں شائع ہوا ، چوتھا مجموعہ کلام " تیرے آنے کا انتظار رہا " کے عنوان سے 2004 ء میں شائع ہوا ۔ چند اشعار ملاحظہ کریں:

کس طرف کوچ کر گئے سارے

کیا ہوئے روشنی کے مینارے

کس جہنم کا رزق ہو کہ رسا

پھو ل لگتے ہیں مجھ کو انگارے

جون ایلیا

14 دسمبر 1931 ء کو ا مروہہ میں پیدا ہوئے۔ خاندانی نام سید جون اصغر نقوی اور قلمی نام جون ایلیا تھا ۔ تعلق ایسے خاندان سے جہاں ہر طرف علم و ادب ورثے میں ملا ہو ۔ جون ، رئیس امروہوی اور نامور فلسفی سید محمد تقی کے بھائی تھے ۔ والد محترم ایک عالم باعمل تھے یوں ایسے ماحول میں جون ایلیا کیسے پیچھے رہ سکتے تھے ۔ انہوں نے بھی آٹھ سال کی عمر میں شاعری شروع کردی تھی ۔مختلف مدارس سے مختلف علوم میں تعلیم و اسناد حا صل کیں۔

جون ایلیا نے کراچی میں " ادارہ ذہن ِ جدید " قائم کیا اور ایک علمی ماہنامہ " انشاء " بھی جاری کیا ۔ اردو ترقی بورڈ میں آٹھ سال تک خدمات انجام دیں ۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے شعر و ادب میں جو خدمات انجام دیں انہیں اس کا وہ صلہ نہ مل سکا جس کے وہ حقدار تھے ۔ جون ایلیا بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے، مگر اس کے باوجود انہوں نے نثر میں بھی طبع آزمائی کی اور اس صنف میں بھی وہ کامیاب نظر آئے ۔ انہوں نے متعدد کتابیں تصنیف کیں شاعری میں ان کا ایک مجموعہ " شاید " اور دوسرا " یعنی " کے عنوان سے منظر عام پر آیا ۔ پاکستان کے بڑے بڑے ناقدین اور مفکرین کی نظر میں جون اس عہد کے ایک بڑے شاعر تھے ۔ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ کریں:

شوق کا رنگ بجھ گیا یاد کے زخم بھر گئے

کیا میری فصل ہو چکی کیا میرے دن گذر گئے

شام ہے کتنی بے تپاک شہر ہے کتنا سہم ناک

ہم نفسو! کہاں ہو تم ، جانے یہ سب کدھر گئے

ابن انشاء

15جون 1927ء کو ضلع جالندھر کے راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے ۔اصل نام شیر محمد خاں ، انشاء تخلص اور قلمی نام ابن انشاء تھا۔ پنجاب یونیورسٹی سے 1946ء میں بی-اے کی ڈگری حا صل کی اور 1953ء میں اردو کالج کراچی سے ایم – اے کیا ۔ تقسیم ہند کے فوراً بعد پاکستان آگئے۔ ابن انشاء کا نام ادب کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ وہ ایک بلند پایہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ نامور مزاح نگار بھی تھے ۔

اس کے علاوہ روز نامی جنگ میں لکھے ۔ ریڈیو پاکستان سے بھی منسلک رہے اور اس کے بعد دستور ساز اسمبلی میں سینئر ٹرانسلیٹرکے فرائض بھی انجام دیئے۔پاک سر زمین کے نام ایک ماہانہ رسالہ جاری کیا ۔1961ء میں بیلجییم میں شاعروں کا میلہ ہو اتو پاکستان کی طرف سے بطور اردو شاعر نمائندگی کی ۔ بچوں کے لئے بھی بہت سی خوبصورت نظمیں لکھیں ۔ان کی نظموں کا مجموعہ " بلو کا بستہ " کے نام سے 1958 ء میں شائع ہوا ۔ کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے ۔ ان کا شعری مجموعہ " اک کوچے میں " بہت مقبول ہوا ۔ 11 جنوری 1978 ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ پا پو ش نگر کے قبرستان میں تدفین ہوئی ۔ ان کا مشہور کلام :

انشا جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا

وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا

منظر ایوبی

1932 ء کو بدایوں ، یوپی ( بھا رت ) میں پیدا ہوئے ۔ اصل نام عزیز احمد ایوبی اور منظر تخلص ص اور قلمی نام منظر ایوبی تھا۔ ابتدائی تعلیم بدایوں کے دینی مکتب سے حا صل کی ۔ 1950 ء میں ہجرت کر کے پاکستان آکر کراچی کے اردو کالج سے بی ۔کام اور کراچی یونیؤرسٹی سے ایم –اے کی ڈگری حا صل کی ۔1950 ء سے 1960 ء تک سرکاری محکمہ میں ملازمت کی اس کے بعد مختلف کالجز میں درس و تدریس کرتے رہے ۔

ماہنامہ " ہم قلم " رائٹر گلڈ ، کراچی میں اعزازی طور پر نائب مدیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں ۔ شاعری کا آ غاز 1947 ء سے کیا ۔ منظر ایوبی ایک منفرد لب ولہجہ کے شاعر تھے ۔ انکی شاعری جذبے کی صدا قت کی آئینہ دار ہے ۔ جس ماحول میں آنکھ کھولی اس میں انکا شعر و سخن کی طرف راغب ہوتا فطری بات تھی ۔ انکی تصانیف میں تکلم ، مزاج ، نئی اور پرانی آوازیں ،چڑھتا چاند ابھرتا سورج شامل ہیں ۔

حوصلے تھے ابھی جواں یارو

رُک گیا قافلہ کہاں یارو

محفلوں کے چراغ گل نہ ہوئے

ہوچکی ختم داستان یارو

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔

خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی