انتظار حسین (مرحوم کی ایک تحریر)
میں سوچتا ہوں کہ ہم غالب سے کتنے مختلف زمانے میں جی رہے ہیں۔ اس شخص کا پیشہ آباسپہ گری تھا۔ شاعری کو اس نے ذریعہ عزت نہیں سمجھا۔ غالب کی عزت غالب کی شاعری تھی۔ شاعری اس کے لیے کسی دوسری عزت کا ذریعہ نہ بن سکی۔ اب شاعری ہمارے لیے ذریعہ عزت ہے، مگر خود شاعری عزت کی چیز نہیں رہی ۔ میں سوچتا ہوں کہ خازن تو لوگ غالب کے زمانے میں بھی بنتے ہوں گے اور اس پر خوش ہوتے ہوں گے۔
عہدوں ، مراتب اور ہاتھی، بگھی کی سواری کی فکریں اور وں کو بھی تھیں،خود غالب کو بھی ستاتی تھیں۔ اسی قسم کی فکریں سرسید اور اکبر کے زمانے میں بھی آدمی کی جان کے ساتھ لگی ہوئی ہوں گی۔ لیکن کبھی عقائد کے اثر ورسوخ نے اور کبھی قومی تحریکوں نے ہمارے معاشرے میں ایسی پنچائتی فکریں پیدا کر دیں کہ نجی فکریں محض نجی بن کر رہ گئیں۔ وہ معاشرہ پر حاوی نہیں ہو پائیں۔
پچھلے سو برس سے ہمیں بڑی فکر یہ چلی آرہی ہے کہ ہم نے صدیوں کے فکر و عمل سے جو سچائیاں دریافت کی ہیں اور جو، اب ہماری زندگی ہیں، ان سچائیوں کا تحفظ ہونا چاہیے۔ اس قسم کے فکر کے یہ معنی ہیں کہ لوگ اپنی نجی ضرورتوں کے ساتھ بلکہ ان سے بڑھ کر کسی اجتماعی ضرورت پربھی یقین رکھتے ہیں۔
اس یقین کی بدولت وہ اپنی ذات سے بلند ہو کر کسی اجتماعی مقصد سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس صلاحیت کو ایمان کہا جاتا ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ کا یہ کہنا کہ، جو قوم ایمان سے محروم ہے وہ اچھی نثر پیدا نہیں کرسکتی، مگر اس میں نثر کی کیا تخصیص ہے۔
ایک بے ایمان قوم اچھی نثر نہیں پیدا کر سکتی تو اچھی شاعری کیا پیدا کرے گی۔ ویسے اس بیان کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسے معاشرہ میں اچھے نثر نگار یا شاعر سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتے، ہوتے تو ہیں، مگر وہ ایک موثر ادبی رجحان نہیں بن سکتے اور ادب ایک معاشرتی طاقت نہیں بن پاتا۔
ہم لکھنے والے ایک بے ایمان معاشرہ میں سانس لے رہے ہیں۔ ذاتی منفعت اس معاشرہ کا اصل الاصول بن گئی ہے اور اہل قلم حضرات انعاموں کی تمنا میں کتابیں لکھتے ہیں۔ جن کے قلم کو زنگ لگ چکا ہے وہ ادب ، زبان اور کلچر کی ترقی کے لیے یا ادبیوں کی بہبود کے لیے ادارے قائم کرتے ہیں اور ادارے والے تو روز افزوں ترقی کرتے ہیں، مگر ادب، زبان اور کلچر دن بدن تنزل کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔
ادب، زبان اور کلچر کی ترقی کی کوشش میں زیر آسمان ترقی کی نئی راہیں نکلتی ہیں اور ستاروں سے آگے کے جہان دریافت کیے جاتے ہیں۔ ایسے عالم میں جو ادیب افسانہ اور شعر لکھتا رہ گیا ہے وہ وقت سے بہت پیچھے ہے۔ اس کے لیے لکھنا بنفسہ عشق کا امتحان بن جاتا ہے۔
سچ بولنا ایک سیدھا سادا معاشرتی فعل ہے لیکن جہاں سب جھوٹ بول رہے ہوں وہاں سچ بولنا سب سے بڑی اخلاقی قدر بن جاتا ہے۔ جب ایک معاشرہ تخلیق کے فریضہ کو فریضہ سمجھنا ترک کردے اور اسے ترقی کا ذریعہ سمجھے تو وہ شخص اس فریضہ کو ادا کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لیتا ہے۔
ادب معاشرتی عمل میں پیوست تخلیقی جوہر کی تلاش ہے۔ صدیوں کے قول و عمل، دکھ درد اور خارجی و داخلی مہمات کے وسیلہ سے جو سچائیاں دریافت کی جاتی ہیں اور بعد میں اقدار کہلاتی ہیں، ان کی کارفرمائی سے معاشرتی عمل تخلیقی عمل بن جاتا ہے۔
جب تک ایک معاشرہ ان اقدار پر ایمان رکھتا ہے اور ان کی بدولت تخلیقی طور پر فعال رہتا ہے ۔ یعنی ادب بنفسہ اس کے لیے ایک قدر کا، ایک عظیم سچائی کا مرتبہ رکھتا ہے۔ شاید اسی لیے میر و غالب اپنے اپنے زمانے میں ہماری قدروں کے امین بھی تھے اور خود اپنی اپنی جگہ بھی ایک قدر کا مرتبہ رکھتے تھے۔ ان کی عظمت میں کچھ ان کے تخلیقی جوہر کا حصہ ہے اور کچھ اس معاشرہ کے تخلیقی جوہر کا جس میں وہ پیدا ہوئے تھے۔
بڑا ادیب فرد کے تخلیقی جو ہر اور معاشرہ کے تخلیقی جوہر کے وصال کا حاصل ہوتا ہے۔ بڑا ادیب ہمارے عہد میں پیدا نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ یہ عہد اپنا تخلیقی جو ہر کھو بیٹھا ہے اور ان اقدار پر اس کا ایمان برقرار نہیں ہے جو اس کی تاریخ کا حاصل ہیں۔ اسے اپنے تخلیقی جوہر کی تلاش میں بھی کوئی معنی نظر نہیں آتے۔ یہ لوگ کرکٹ کی کمنٹری سنتے ہیں، ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھتے ہیں اور کچھ نہیں سمجھتے۔
آج کا لکھنے والا غالب اور میر نہیں بن سکتا۔ شاعرانہ عظمت اور مقبولیت اس کا مقدر نہیں ہے، اس لیے کہ وہ ایک بہرے، گونگے، اندھے معاشرے میں پیدا ہوا ہے ،مگر وہ غالب اور میر سے زیادہ اہم فریضہ انجام دے رہا ہے، اس لیے کہ وقت نے اسے ایسی قدر کا امین بنا دیا ہے جو اس کی تاریخ کی سب سے اہم قدر ہے۔ لکھنا آج غالب کے زمانے سے بھی بڑی سچائی ہے۔ اس لیے کہ آج کا جھوٹ غالب کے زمانے کے جھوٹ سے زیادہ سنگین ہے۔
اُس جھوٹ کو غیر قوم کی حاکمیت نے پیدا کیا تھا۔ یہ جھوٹ ہم نے آپس میں جھوٹ بول کر اپنی کوکھ سے جنا ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ آج کچھ نہیں لکھا جا رہا ہے، اچھا ادب تقسیم سے پہلے تخلیق ہو گیا اور اچھے شاعر 1857ء سے پہلے گزر گئے وہ شخص جھوٹا ہے۔
وہ اس لیے جھوٹا ہے کہ یہ کہہ کر وہ آج کے ادب یعنی آج کے جھوٹ اور سچ سے آنکھ چرانا چاہتا ہے۔ نقاد اور پروفیسر اور تہذیبی اداروں کے سر براہ جھوٹ بولتے رہیں لیکن اگر کوئی ایسی جگہ ہے جہاں جیتے جاگتے ادیب بیٹھتے ہیں تو اس کا دردسر اولا آج کا ادب ہونا چاہیے۔
اگر آج کی تحریر کے کوئی معنی ہیں تو میر اور غالب کی شاعری کے بھی کوئی معنی ہیں۔ آج کچھ نہیں لکھا جارہا ہے یا بے معنی لکھا جارہا ہے تو پھر میر اور غالب کے معنی بھی کتنے دن باقی رہیں گے مگر آج لکھنا کیا معنی رکھتا ہے۔ آج کا ادب اگر وہ صحیح اور سچے معنوں میں آج کا ادب ہے تو وہ آج کے معاشرتی معیارات کا ترجمان نہیں ہوسکتا۔ وہ تو اس قدر کو واپس لانے کی کوشش ہوگی جسے ہمارا معاشرہ گم کر بیٹھا ہے۔
آج کا ادب معاشرہ کا نہیں تاریخ کا ترجمان ہے۔ گویا اس کے وسیلہ سے نہ آپ خازن بن سکتے ہیں ، نہ آپ کو موٹر کا رنصیب ہو سکتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ادیبوں کی تو بہتات ہے لیکن آج کا لکھنے والا خسارے میں ہے اور بے شک ادب کی نجات اسی خسارے میں ہے۔ یہ خسارہ ہماری ادبی روایت کی مقدس امانت ہے۔