• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیصری بیگم اور ان کی دل چسپ خودنوشت ’’کتابِ زندگی‘‘ کی بابت

یہ قیصری بیگم کی دل چسپ خود نوشت ہے جو رواں اور خوب صورت اردو میں لکھی ہوئی ہے۔ قیصری بیگم مولوی نذیر احمد دہلوی کی نواسی تھیں اور ویسی ہی بامحاورہ زبان بھی لکھی ہے۔ یہ دراصل ان کی ڈائری تھی جو شان الحق حقی کی فرمائش پر اردو لغت بورڈ کے جریدے اردو نامہ میں ۱۹۶۷ء سے ۱۹۷۷ء تک قسط وار شائع ہوتی رہی ۔پھر کتابی صورت میں بہت عرصے کے بعد کراچی سے شائع کی گئی۔ 

چند ابتدائی اقساط کی اشاعت کے بعد ہی قیصری بیگم کو بڑے بڑے ادیبوں اور نقادوں نے ان کے اسلوب ، زبان اور افکار پر خراجِ تحسین پیش کیا اور اردو نامہ کے مدیر شان الحق حقی کے نام خط لکھے کہ انھیں اس کی قسط کا بے چینی سے انتظار رہتا ہے۔ ذیل میں قیصری بیگم کی ’’کتاب زندگی‘‘ کے حوالے سے مختصراً ملاحظہ کریں۔

……٭٭……٭٭………

کچھ ادیبوں کے ساتھ قسمت بھی عجب کھیل کھیلتی ہے۔ قسمت کی دیوی ان پر کچھ عرصے کے لیے مہربان ہوتی ہے اوروہ آسمانِ ادب کے درخشاں ستاروں کے ساتھ چمکتے دمکتے ہیں۔ لیکن پھر لوگ انھیں بھول بھال جاتے ہیں اور وہ اس طرح گم نامی کے اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں جیسے انھوں نے کبھی کچھ لکھا ہی نہ تھا اور نہ وہ کبھی مشہور رہے تھے۔ قیصری بیگم بھی اردو کی ایک ایسی ہی ادیبہ تھیں۔

اگرچہ ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کی دہائیوں میں قیصری بیگم کی خود نوشت سوانحِ حیات ’کتاب ِ زندگی‘کی قسطوں کی اشاعت نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچادی تھی اور بڑے بڑے نامی گرامی اہلِ قلم اور اہلِ علم ان کی با محاورہ اور رواں اردو نثر کے گرویدہ ہوگئے تھے، لیکن انھیں جلد ہی بھلا دیا گیا اوربہت وسیع مطالعہ رکھنے والے شائقینِ ادب میں سے بھی بعض آج ان کے نام اور کام سے پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ 

یہاں تک کہ خواتین کی خود نوشتوں پر کیے گئے بعض تحقیقی کاموں میں بھی ’کتاب ِ زندگی‘ کا ذکر نہیں ملتا، نقادوں نے بھی قیصری بیگم کو بالعموم نظر انداز کیا ہے اور اہل قلم کی وفیات کی کتابوں میں بھی ان کی تاریخِ پیدائش ا ور تاریخِ وفات نہیں ملتی۔ صرف اردو لغت بورڈ (جس کا نام اس وقت ترقیِ اردو بورڈ تھا ) کے سہ ماہی رسالے ’اردو نامہ‘ میں ان کی تاریخِ وفات ملتی ہے۔

قیصری بیگم کو اچانک شہرت اس وقت ملی جب شان الحق حقی نے اردو لغت بورڈ کے رسالے میں ایک خود نوشت سوانحِ عمری ’کتاب ِ زندگی‘ قسط وار شائع کرنا شروع کی۔ یہ قیصری بیگم کے قلم سے تھی جن کی عمر اس وقت لگ بھگ اُناسی (۷۹)برس تھی۔ اس کی پہلی قسط مارچ ۱۹۶۷ء کے رسالے میں شائع ہوئی ۔ ’کتاب ِ زندگی ‘کی کل چوبیس (۲۴) قسطیں تھیں۔ 

اس کی آخری قسط جون ۱۹۷۶ء کے شمارے میں شائع ہوئی اور یہ قارئین کی خوش قسمتی تھی کیونکہ اس آخری قسط کی اشاعت کے کچھ ہی عرصے کے بعد ۱۰؍ اپریل ۱۹۷۷ء کو قیصری بیگم کا حیدرآباد (دکن) میں انتقال ہوگیا۔قیصری بیگم ۱۸۸۸ء میں پیدا ہوئی تھیں ۔ اس لحاظ سے انتقال کے وقت ان کی عمر تقریباً نواسی (۸۹)برس تھی۔

دراصل قیصری بیگم شروع ہی سے ایک ڈائری یا روزنامچہ لکھا کرتی تھیں جس میں وہ اپنی زندگی کے واقعات ، تجربات اور مشاہدات کے علاوہ اس دور کے بعض اہم واقعات اور ان کے بارے میں اپنے تاثرات بھی لکھ لیا کرتی تھیں۔لیکن اس کو چھپوانے کا ان کو کبھی خیال نہیں آیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ کوئی اچھی ادیبہ نہیں ہیں اور ان کی تحریر میں اتنی جان نہیں ہے کہ قاری اسے پڑھنا پسند کریں۔ 

اس خیال کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے خاندان میں بعض بہت مشہور لکھنے والے گزرے تھے، مثلاً مولوی نذیر احمد دہلوی (جن کو طالب علم ڈپٹی نذیر احمد کہتے ہیں) جو اُن کے نانا تھے۔ پھر نذیر احمد کے بیٹے مولوی بشیر الدین اورنذیر احمد کے پوتے شاہد احمد دہلوی ایسے اہلِ قلم تھے جن کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی اور معیاری، مستند اور بامحاورہ اردو نثر لکھنے کے لیے یہ خاندان مشہور تھا۔

قیصری بیگم کی ایکیادگار تصویر
قیصری بیگم کی ایک
یادگار تصویر

شان الحق حقی سے قیصری بیگم کی رشتے داری تھی اور جب حقی صاحب کوان کے روزنامچوں کا علم ہوا تو انھوں نے ان سے درخواست کی کہ ان کی ’اردو نامہ‘ میں اشاعت کی اجازت دے دیں کیونکہ ان میں اردو کے بہت خوب صورت ، سبک اوربھولے بِسرے الفاظ اور محاورات موجود تھے اور حقی صاحب اور ان کے رفقا بورڈ کی عظیم و ضخیم لغت کے لیے الفاظ، خاص طور پر نادر الوقوع اور قلیل الاستعمال الفاظ و محاورات و مرکبات اور ان کی سندیں جمع کررہے تھے ۔ بھلا دہلی کے ایک معزز اور علمی و ادبی طور پر معروف خاندان کی خاتون کی تحریر سے زیادہ مستند زبان اور کہاں مل سکتی تھی۔ حقی صاحب نے اسے ایک منفرد خود نوشت قرار دیا۔

چنانچہ ان یادداشتوں یا روزنامچوں کی اقساط کی اشاعت شروع ہوئی اور ادبی دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ اہلِ علم و اہلِ قلم کے علاوہ عام قارئین اور تہذیب و ثقافت کے دلدادہ افراد نے بھی ان قسطوں کو بہت سراہا کیونکہ ان میں اس دور کی تہذیبی و سماجی زندگی، رسوم ورواج، اوہام و عقائد، خاندانی زندگی، ثقافتی مظاہراور بالخصوص اس دور کی عورتوں کی زندگی کی جھلکیاں تھیں اور پھر ان پر مستزاد مصنفہ کا رواں اسلوب ، مستند زبان اور دل چسپ انداز۔

ایک پورا تاریخی و تہذیبی دور اور اس کی جھلکیاں رفتہ رفتہ وقت کے دھندلکے میں گم ہورہی تھیں اور قیصری بیگم نے ان کو اپنی تحریر میں زندہ وپائندہ کردیا تھا۔ اس کتاب میں اپنے خاندان اور رشتے داروں کے احوال کے ساتھ اس دور کی شادی کی رسمیں، پہناوے، گیت، کہاوتیں، موسموں کا حال، گھریلو تفریحات، ہنسی مذاق، شرارتیں، دل چسپ کردار بھی ہیں اور زیارات کا ذکر اور حج کا احوال بھی بہت متاثر کن ہے۔ لیکن ان کے بیان میں نہ فصاحت و بلاغت کا زور دکھانے کی کوشش ہے اور نہ کوئی دعویٰ ۔لیکن اس سادگی میں ایسی پُر کاری ہے کہ بڑے بڑے ادیبوں کو ایک عمر تک قلم گھسنے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔

جن مشاہیر نے قیصری بیگم کی خود نوشت کو سراہا اور حقی صاحب کولکھا کہ وہ ان اَقساط کے مطالعے کے لیے رسالے کے نئے شمارے کی اشاعت کے منتظر رہتے ہیں ان میں مولانا عبدالماجد دریا بادی، پروفیسر حمید احمد خان (وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی)، ڈاکٹر غلام یزدانی، مولانا ماہر القادری، ملا واحد ی اوران جیسے دیگر بڑے نام شامل ہیں۔ 

ان میں سے بعض کے تعریفی خطوط ’اردو نامہ‘ کے مختلف شماروں میں شائع بھی ہوئے۔ عام قارئین کی دل چسپی بھی دیدنی تھی۔ یہ کتاب خوب صورت اردو نثر کے نمونے کے ساتھ ساتھ اہم سماجی حالات کا مستند او رچشم دید بیان بھی ہے۔

قیصری بیگم مولوی نذیر احمد کی نواسی تھیں جن کا ناول ’مراۃ العروس‘ بہت مشہور ہوا۔ یہ ناول نذیر احمد نے اپنی بیٹی اصغری کی تربیت کے لیے لکھا تھا۔ یہی اصغری تھیں جن کے ہاں آگے چل کر قیصری بیگم نے جنم لیا۔ اپنے نانا کی طرح قیصری بیگم نے بھی رواں، سلیس اور مستند زبان لکھی۔ اپنی خود نوشت میں انھوں نے دہلی کے معاشرے اور وہاں کی خواتین کی زندگی کے علاوہ ریاست دکن کی زندگی اور وہاں کے عام ماحول کو بھی پیش کیا کیونکہ بعد میں وہ دکن منتقل ہوگئی تھیں۔

قیصری بیگم تعلیم یافتہ خاتون تھیں اور شاعری بھی کرتی تھیں ۔انھوں نے کچھ اور کتابیں بھی لکھیں لیکن وہ کبھی اسکول نہیں گئی تھیں اور انھوں نے گھر ہی پراردو،عربی، فارسی اور انگریزی کی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے کم عمری ہی میں شاعری کا آغاز کردیا اور نثر بھی لکھنے لگیں۔

ان کی تحریریں ’تہذیبِ نسواں ‘ میں شائع ہوتی تھیں (یہ رسالہ خواتین کے لیے لاہور سے جاری کیا گیا تھا اور اس کی مدیر بھی ایک خاتون تھیں جن کا نام محمدی بیگم تھا اور معروف ادیب سید امتیاز علی تاج اِنھِیں محمدی بیگم کے بیٹے تھے)۔ 

قیصری بیگم نے جو دیگر کتابیں لکھیں ان میں سے ایک میں دہلی کی خواتین کی کہاوتیں مرتب کی گئی تھیں۔ ان کی دوسری کتاب میں اس دور کی لوریاں جمع کی گئی تھیں جو اردو میں مشکل ہی سے مطبوعہ شکل میں ملتی ہیں۔انھوں نے ایک کتاب کھانا پکانے کی ترکیبو ں اور ایک اور کتاب گھریلو علاج پر بھی لکھی تھی۔ 

لیکن افسوس ان میں سے کوئی کتاب شائع نہیں ہوسکی۔ دراصل وہ خود بھی اپنی کتابیں شائع کرانے میں زیادہ دل چسپی نہیں لیتی تھیں۔ البتہ ان کی دو اور کتابیں شائع ہوئیں۔ شان الحق حقی کے مطابق ان میں سے ایک لغات القرآن تھی اور دوسری سوال و جواب پر مبنی تھی۔

ان کی خود نوشت سوانحِ حیات ’کتاب ِ زندگی ‘بھی ضائع ہوجاتی اگر حقی صاحب اس کی قسط وار اشاعت کا اہتمام نہ کرتے کیونکہ اس کے کچھ حصے دیمک نے کھالیے تھے اور خود قیصری بیگم کو اس کی اشاعت سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔

یہ خود نوشت سات یا آٹھ کاپیوں میں بہت صاف خط (یعنی ہینڈ رائٹنگ)میں لکھی گئی تھی۔ ’کتابِ زندگی‘ ۲۰۰۳ء میں کراچی سے کتابی صورت میں شائع ہوئی تھی اور اسے ان کی قریبی رشتے دار زہرا مسرور احمد نے مرتب کیا تھا۔کچھ عرصے قبل ’کتاب ِ زندگی ‘کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوا تھا۔