دہلی کی معاشرت اور گھریلو ماحول
باہر کا کوئی لڑکا گھر میں نہ آسکتا تھا ۔ڈولیوں میں آنے جانے کا رواج تھا۔ جانا بھی کہاں ، وہی محلے کے محلے میں ۔ ایک گھر سے دوسرے گھر۔ذرا سی گلی بیچ، ڈولی آکر ڈیوڑھی میں لگ جاتی۔ کہار باہر ہوجاتے۔ دروازہ بند ہوا، بیوی سوار ہوئیں ۔ ڈولی کے پردے لال قند کے ، جن پر سفید پھول پتی کاکام بنا ہوا، جہیز میں دیے جاتے تھے۔
ان پر احتیاطاً ایک اور سفید چادر لپیٹ دی کہ پردے کو کوئی پہچان نہ لے۔ دو کہار ڈولی اٹھاتے اور راستے میں ایک کہار دوسرے کو آواز دیتا، دیکھ کر بھیا، سنبھل کر، موری ہے،نالا ہے، گڑھا ہے، دبے پاؤں چلنا، ہولے سے ، ہلکے سے۔ یہ سب باتیں محض ہنکاروں میں ادا ہوجاتی تھیں۔
جب ڈولی پہنچتی، کہار آواز دیتے ’’بوا جی ، سواری اتروالو‘‘ اور خود ڈیوڑھی کا دروازہ بند کرکے باہر چلے جاتے ۔ آواز پر اندر سے ماما ، بوبو جی آجاتی اور مہمان کو اتروا کر اندر لے جاتی۔ کرایہ کیا؟ ایک پیسہ ، دو پیسے۔ محلے سے باہر ذرا دور گئے ایک آنہ ڈیڑھ آنہ۔ میری ننھیال اور ددھیال کا خاصا فاصلہ تھا ۔ دو آنے جاتے تھے جس کے آٹھ پیسے ہوتے ہیں۔ کہار اپنی ڈولیاں لیے پھاٹک پر ہی رہتے اور اشارے پر آجاتے۔
بوا جی کے سوا بات نہ تھی۔ نرم لہجہ، نرم زبان، نہ لڑائی نہ توتومیں میں ۔اگر کسی دن کہاروں نے کرایہ زیادہ مانگا ، دوسرے محلے سے سواری آئی، تو ماما کہتی ’’اوئی بھیا، تم نئے ہو؟ سدا سے جو کرایہ دیا جاتا ہے وہی تو آیا ہے‘‘۔کہا رکہتے ’’اچھا بوا جی، جو من میں آئے سو دے دو۔تم سے تکرار کرنا تھوڑی ہے‘‘۔ جس کے ہاں مہمان جاتے وہی کرایہ بھی دیتا اور کرایہ نہ دینا بدشگونی سمجھی جاتی۔
ماما اندر جا کر کہتی’’کہار بھی موئے دیوانے ہوئے ہیں ، سدا سے دو ہی پیسے تو دیے جاتے تھے، اب تین مانگ رہے ہیں۔ نگوڑوں کی عقل جاتی رہی ہے۔ حجت کرنے لگے ہیں۔ چودھر ی صاحب سے کہوں گی ان کو ذرا سمجھا بجھا دیں۔ زنانی سواری پر تکرار نہ کیا کریں‘‘۔ میزبان بیوی کہتیں ’’اے ہے بوا تو ایک پیسہ دے دیا ہوتا ، نگوڑے خوش ہوجاتے، وہ بھی تو آس لگائے رہتے ہیں ‘‘۔
…٭٭……٭٭……٭٭…
قحط
ایک زمانے میں جالنہ میں سخت کال پڑا تھا۔ لوگ درختوں کے پتے کھانے لگے تھے ۔ درخت بے برگ و بار ہوگئے تھے۔ ایک ایک سیر چاولوں پر لوگ اپنے بچے بیچ دیتے۔ خدا کا غضب تھا۔ انسانوں کی شکل جانوروں کی سی ہوگئی تھی۔ ہڈیاں تک خشک ہوگئی تھیں۔
اباجان دورے پر تشریف لے جاتے وہاں سے لڑکے لڑکیاں لے کر ان کو محبوب صاحب داروغہ کے مکان میں رکھتے۔ جب وہ سفر کے قابل ہوجاتے تو ان کو حیدرآباد لاتے۔ ان بچوں کا یہ حال کہ ایک ایک پسلی الگ الگ گن لو۔ جگر خراب، ستوں سے برا حال، بڑے بڑے پیٹ۔۔۔۔اباجان ان سب کو نماز کی آیتیں سکھاتے۔ ان کو تمیز، سلیقہ، آداب سکھائے جاتے۔
…٭٭……٭٭……٭٭…
حجاز کا سفر
میں نے دریافت کیا کہ کعبہ شریف کا دروازہ کبھی کھلتا بھی ہے؟ معلوم ہوا کہ ہاں، کھلتا تو ہے لیکن اس کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ اس کو داخلی کہتے ہیں۔ اس کا کچھ ٹکٹ لے کر اندر داخلی کی اجازت دیتے ہیں۔
خدا کی شان، اس کی قدرت، اس کا احسان کہ میں حرم شریف میں بیٹھی تھی کہ کسی اللہ کے بندے نے مجھے آکر اطلاع دی ’داخلی ہورہی ہے‘۔میں تو شاد شاد ہوگئی۔ خدا کی قدرت سے اس وقت میرے پاس روپے بھی تھے۔میں دوڑی۔ دروازہ اس وقت کھلا ہوا تھا، اندر داخل ہونے کے واسطے سیڑھی لگی ہوئی تھی۔دروازے کے دونوں طرف دو شخص پہرے دارنہایت شاندار تشریف رکھتے تھے۔میں نے ان کوتین روپے دے دیے ۔ انھوں نے اجازت دے دی۔اللہ کی رحمت سے داخلی نصیب ہوئی۔
سارا کعبہ شریف اندر سے اس قدر اعلیٰ درجے کی خوشبوؤں سے مہک رہا تھا کہ دماغ کئی دن اس سے معطر رہا۔ سارے دورودیوار، فرش سنگِ مرمر کی طرح سفید پتھروں کا تھا اور اس کے در بھی سفید براق اور معطر۔ہر طرف ہر سمت آیات ِ قرآنی کھدی ہوئی ہیں۔ ایک معلم صاحب نے اندر نفل پڑھنے کو فرمایا۔
میں نے خدا کے فضل سے نفل پڑھے۔ خوب درودیوار کو، ستونوں کو چوما، آنکھوں سے مَلتی رہی۔خوب دل کی حسرت نکالنے کا موقع اللہ نے دیا۔ اپنے چہرے پر، سینے پر، سب جسم پر ، ہاتھ پھیر پھیر کر مَلے۔دل شاد شاد تھا۔ کسی نے جلدی بھی نہ کی کہ باہر آجاتی۔ یہ داخلی جنت میں داخلی ہے۔ اللہ ہر مسلمان مرد و عورت کو نصیب کرے۔
میں نے حج کو جانے والوں سے سنا تھا کہ مکہ شریف میں سناء کے بکثرت درخت ہوتے ہیں جن کا پتّا جانور کھاتے ہیں۔ ان کا گوشت بہت گرم ہوتا ہے اور جس کے کھانے سے پیچش ہوجاتی ہے۔ اسی خیال سے میں نے ایک دو دن صبح کے وقت اپنے ٹوکرے سے کھانے کا سامان نکالا اور چولھا سلگایا۔ روغنی ٹکیاں بیسن کی پکائیں اور چٹنی پیسی۔ عابد علی صاحب کی خالہ کو دیا،حسین بی کو دیا ،میں نے کھایا۔
عابد علی صاحب نے میری تکلیف گوارا نہ کی۔ بولے، آپ نے ناحق تکلیف کی۔ یہاں سب کھانا سالن ملتا ہے۔ میں ے سنا ء مکی کا ذکر کیا۔ انھوں نے اس شک کو رفع کیا۔روز بازار سے سالن روٹی لانے لگے اور بے مشقت اللہ تعالیٰ شکم سیر کرنے لگا۔ آدمی سے کہہ دیا۔ وہ روز پانی لادیتا تھا۔ ایک پیپا زمزم کا اور ایک نل یا کنویں کا ۔ اللہ نے اپنے مہمانوں کو روز آب ِ زمزم سے سیراب کیا۔
…٭٭……٭٭……٭٭…
شِملہ کے پھل
بِچھّوُبُوٹی: میووں سے الگ ، بھاجی (ساگ) کی طرح، یہاں ایک عجیب بوٹی ہوتی ہے جو ذرا جسم سے مس ہوجائے تو سارے جسم میں بچھو کے کاٹے کی سی جھنکار ہونے لگتی ہے۔ لوگ اس سے بچ بچ کر چلتے ہیں کہ چھو نہ جائے ۔ اس کا بدرقہ بھی اس کے پاس ہوتا ہے۔
وہ بھی پالک کی طرح کے پتے ہوتے ہیں جن کو مَلنے سے جلن اور سوجن سے نجات ملتی ہے۔ خدا کی قدرت ہے کہ جہاں بچھو بوٹی لگی ہوتی ہے وہیں اس کا اتار بھی موجود ہے۔ دونوں قسم کے پودے ہر جگہ باغ و جنگل میں جہاں اور درخت ہوتے ہیں، نظر آتے ہیں۔ اگر کسی کو بِن پیسے کا ناچ دیکھنا ہو تو ذرا سا پودا چھو دیجیے۔ تھئی تھئی ناچنے لگے گا۔