• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرزا اسد اللہ خاں غالب کو اُردو شاعری میں جو مقبولیت حاصل ہے وہ اُن کے دانش ورانہ خیالات اور فلسفیانہ نظریات کے سبب ہے۔ وہ ایک زیرک، طباع اور ذہین شخص تھے جن کی شخصیت میں ذکاوت بہت نمایاں تھی، جن شعراء کی شاعری اور فکر کا مطالعہ سب سے زیادہ ہوا ہے اُن میں میر، غالب و اقبال شامل ہیں۔ 

غالب کی ستائش اُن کی وفات کے بعد شروع ہوئی تو یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔ فی زمانہ بہ حیثیت اُردو شاعر اُن کی ستائش کی کوئی انتہا نہیں۔ ہر سال متعدد کتب اُن کے اشعار کی تشریح و تفسیر او رتنقید و تحقیق پر شائع ہورہی ہیں۔

اُردو میں اقبال اور غالب، فقط دو شاعر ہیں جن پر سب سے زیادہ لکھا گیااور اُن کی شاعری کے مختلف پہلوؤں کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں شاعر غالب (بیس ویں صدی)، اور اقبال(اُنیس ویں صدی) اپنی اپنی صدی کے نمائندہ شاعر کہلاتے ہیں۔ پوری پوری صدی اِن کے نام ہو گئی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ غالب نے اُردو کلام کے مقابلے میں فارسی کلام بہت زیادہ تخلیق کیا ہے، مگر ان کو پڑھنے، سننے اور پسند کرنے والے زیادہ تر اُردو زبان ہی کے میسر آئے، جنہوں نے بہ حیثیت مفسر، کلام غالب کی تفسیر بھی کی اور بہ حیثیت شارح، اُن کے اشعار کی تشریح بھی پیش کی۔ اُردو زبان ہندوستان و پاکستان کے مکینوں کی زبان رہی ہے اِسی لیے ہندوستان اور پاکستان میں غالب کی شہرت و مقبولیت سب شعراء سے بڑھ گئی ہے۔ 

غالب کے کلام کی اِس پذیرائی کی ایک وجہ میری نظر میں یہ بھی ہے کہ غالب نے کسی کی تقلید گوارا نہیں کی او رنہ کسی شاعر کی روش کو اپنایا ہے اور نہ کسی شاعر سے کسب فیض کیا ہے۔ اُنھوں نے شاعری میں اپنی راہ الگ نکالی ہے، اپنی جداروش قائم کی اور اپنی بنائی ہوئی ڈگر پر چلے۔

غالب کی شاعری کے فنی و معنوی مطالعے نے غالب کو بڑا اور آفاقی شاعر بنادیا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے فکر غالب کا پرچار کرنے کی ابتدا کی، غالب کی فنی و فکری جہت کو آگے بڑھانے میں عبدالرحمن بجنوی کا کردار سب سے اہم نظر آتا ہے جن کا یہ تاریخ سازجملہ ’’ہندوستان میں دو الہامی کتابیں ہیں: ایک ویدِ مقدس اور دوسری دیوانِ غالب۔‘‘ اِس جملے نے غالب شناسی کی طرف ناقدین فن شعر اور مشاہیر اُردو ادب کی توجہ مبذول کرائی۔ 

 اِس تنقیدی پختہ شعور او رمطالعات کے تنوع کی وسعت نے غالب کی شاعری اور فکر کے نت نئے گوشوں کو اُجاگر کیا تو اُن کی مزید وسعتیں سامنے آئیں۔ اِن ناقدین و مشاہیر میں مولانا امتیاز علی عرشی، حافظ محمود شیرانی، نظم طبا طبائی، مالک رام، شیخ محمد اکرم، خلیفہ عبدالحکیم، خلیل الرحمن اعظمی اور ڈاکٹر انور معظم نے مطالعاتِ غالب کے تحقیقی و تنقیدی موضوعات کو اپنی کوششوں سے جِلا بخشی اور غالب کی شاعری کا مطالعہ اپنی اپنی جہتوں سے کیا تو اُن کی باریک بینی، محنت شاقہ، لگن و جستجو، عرق ریزی، تنقیدی بصیرت اور تعلیمی صلاحیت سے کلام غالب کے مزید فکری مباحث سامنے آئے جن کی بنیاد پر غالب کی حیثیت بڑے شاعر کے مسلّم ہوگئی اور اُن کی عظمت شاعرانہ کا ڈنکا بجنے لگا، جس نے غالب کو شہرتِ دوام بخشی اور اُنھیں اُن کے تمام ہم عصر شعراء بلکہ بعد کے آنے والے تمام شعراء پر غالب کردیا۔ 

ماہرین غالبیات کی ایک کھیپ تیار ہوگئی، مفکر و دانش ور اور اسکالروں نے غالب کے کلام کو مختلف زاویوں سے دیکھا اور اپنے اپنے علم و دانش، عقل و خرد او رفہم وفراست کے مطابق جانچنا شروع کیا، جس کے نتیجے میں غالب کے افکار و خیالات مزید نمایاں ہوئے، اُن کی فکر کا ارتقا سامنے آیا اور اُن کے عصر کے رجحانات و میلانات کا مطالعہ آسان ہوگیا۔ 

غالب کے عمیق مطالعے نے اُن کے کلام کی وہ ممکنہ پرتیں کھولیں جو ایک عام قاری کی نظر سے نہاں تھیں اور قاری کا ذہن اُن تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ ایک نقاد کی نظر اشعار کو معانی و مفاہیم کے سمندر کی جس گہرائی میں اُتر کر دیکھتی ہے وہاں قارئین شعر و سخن کی نظر کا پہنچنا کبھی مشکل او رکبھی ناممکن ہوتا ہے۔

کئی بڑے شاعر وں کے کلام میں جو دانش ورانہ خیالات او رفلسفیانہ نظریات شامل ہوتے ہیں اُنہیں ناقدین ہی کھوجتے اور عوام و خواص یعنی قارئین او رمشاہیر کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ناقدین نے کلام غالب میں نہاں نکات کی طرف توجہ دلائی تو غالب کی شاعری کو گہری دلچسپی اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جانے لگا او راُن کا منفرد کلام قارئین و ناقدین اور مشاہیر کے اذہان و قلوب میں راسخ ہوتا گیا، یوں ثابت ہوگیا کہ غالب کا تمام کلام اہم اور انفرادیت کا حامل ہے کیوںکہ اُن کی فکر وشاعری کے موضوعات میں اِس بات کو خاصی اہمیت حاصل ہے کہ وہ اپنے زمانے کے عکاس بھی ہیں اور اُس ماحول او راُن کے احوال و آثار کے ترجمان بھی۔ 

اِسی لیے وہ ماہرین غالبیات او رغالب پسند مصنفین کی دلچسپیوں کا مرکز و محور بن گئے اور اُن کی مکمل توجہ غالب ہی پر مرکوز ہوکر رہ گئی ، پھر فکرغالب کی کھوج لگانے کے اِس عمل میں بے شمار اہل قلم بھی شامل ہوتے گئے، جن سے غالب کو قارئین، ناقدین، مشاہیر، محققین، مبصرین، شارحین اور مفسرین ملتے گئے اور فکرغالب کے مباحث سامنے آتے گئے، جن سے غالب اورکلام غالب کے موضوعات کو سمجھنے کی راہیں آسان ترہوتی گئیں۔ قاری اُن کی نسبت و رغبت کو سمجھنے کے قابل ہوتا گیا۔

نکاتِ غالب کو پیش کیا جاتا رہا او اُن کے سوچ بچار اور تدبر کے مزید پہلو اُجاگر ہوتے گئے ،جن کے توسط سے غالب ایک بڑے مستند اور اہم ترین شاعر کے روپ میں ہمارے سامنے ہیں اور اُن کے منفرد محاسن سخن کی روشنی سے دنیائے اُردو ادب کا گوشہ گوشہ منور ہوگیا ہے، اُس کی شعاعوں سے ایک عالم تادیر سے منور ہے اورتادیر منور رہے گا۔

ڈاکٹر انور معظم نے غالب کی شاعری کی ایک اور خوبی کی نشان دہی کی ہے …ملاحظہ ہو:

’’غالب سے بڑا لفظ آگاہ کوئی اوردوسرادکھائی نہیں دیتا،غالب نے الفاظ کا آزاد وجود تسلیم کیا ہے۔ لفظ کو ویسے استعمال نہیں کیا جیسے آقا غلام کو استعمال کرتا ہے، اظہار کے بے جان ذرائع (جیسے قلم/تلوار) کی مانند۔ غالب نے لفظ کو ہر لمحہ زندہ ارتقا پذیر اور معنی کی پھیلتی ہوئی کائنات کے طور پر محسوس کیا اور برتا ہے۔

لفظ محض معنی کا ترجمان نہیں، معنی کا گنجینہ ہے۔ صرف ’’معنی کا گنجینہ‘‘ نہیں بلکہ ’’گنجینہ معنی کا طلسم‘‘ ہے۔ یوں غالب نے اپنے کلام میں معنوی فکری تہ داریوں کی غیر زمانی گنجائش نکالی ہے۔‘‘

یہ حقیقت ہے کہ غالب نے ایسے ایسے لفظ، جملے، فقرے، تراکیب اور اضافت در اضافت لفظ استعمال کیے ہیں جن سے اُن کے اشعار میں نہ صرف معنویت پیدا ہوئی ہے بلکہ مفاہیم کا ایک جہانِ نو تعمیر ہوتا نظر آتا ہے، ایک ایسا جہاں جس میں سوچ کی گہرائی بھی ہے اور فکر کی وسعت بھی، جس میں خیال کی ندرت بھی ہے اور تخیل کی بلند پرواز بھی۔

اُن کے اشعار میں جو لفظ آگئے ہیں اُن میں معانی ومفاہیم کے کئی نئے زاویے اور کئی مختلف پہلودکھائی دیتے ہیں جو ذہن انسانی کو کئی سمتوں، کئی زاویوں اور مختلف جہات سے آشنا کرتے ہیں، جن سے اُن کی شعریات کی کائنات کے اسرارورموز انسان کے دل پر نقش، ذہن پر ثبت اور دماغ میں راسخ ہوجاتے ہیں، اِن پر اپنا اَن مٹ تاثر چھوڑ جاتے ہیں۔

جب سے غالب کا جہانِ معنی وجود میں آیا ہے اُس کی سیر کرتے ہوئے اوراُن کے سخن کے سمندر میں غوطہ زن شناوروں نے وہ وہ گوہر آبدار حاصل کیے ہیں جن کی چمک دمک آج بھی قارئین کی آنکھوں میں روشنی، ناقدین کے اذہان میں تحقیق اور مشاہیر کے قلوب کی دھڑکن بنے ہوئے ہیں۔ اگر خطوطِ غالب کو دیکھا جائے تو اُن میں بھی غالب کے افکار و نظریات کا ایک دریا بہتا ہوا نظر آتا ہے۔ 

اگر غالب کی شاعری کے محاسن کی تعبیر و تشریح اور تفسیر و وضاحت کی جائے تو ان کے افکارو نظریات کا ایک دفتر کُھل جاتا ہے، جس سے فکر غالب کا منظر اور پیش منظر نظروں کے سامنے آجاتے ہیں، مطالعاتِ غالب کی اہمیت اُجاگر ہوتی ہے اور دلوں پر غالبیات کی مزید دھاک بیٹھتی محسوس ہوتی ہے، کیوںکہ مطالعاتِ غالب سے جو نتائج اخذ کئے گئے ہیں اُن سے نہ صرف اُردو ادب کا دامن مالا مال ہوا ہے بلکہ وہ تاریخ اُردو ادب کا حصہ بھی بنے ہیں۔ 

اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اُن کے کلام میں خیال کی ندرت، فکر کی گہرائی، سوچ کی وسعت، تخیل کی بلند پروازی اور معانی و مفاہیم کے موجیں مارتے سمندر کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے۔ تفہیم کلام غالب سے اُن کے کلام میں موجود تحیرکی تفصیل ملتی ہے، اُن کے کلام کی طلسماتی فضا ہویداہوتی ہے، یہی تفہیم، مشکل کو آسان اور آسان کو سہل و سلیس بنادیتی ہے اور قارئین و ناقدین میں مزید لگن، جستجو اور تجسس پیدا کرتی ہے۔ 

جب ماہرین اِس تجسس کے باعث کلامِ غالب کی دنیا کی سیر کرتے اور اس بحربے کنار میں اُترتے ہیں تو اُنہیں غالب کے یہاں ایک مربوط فکری نظام نظر آتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ غالب تو وہ شاعر ہے جس نے انسان اور اُس کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا اور برتاہے اور حیات و کائنات کے اسرار و رموز کا مطالعہ کرکے اُنہیں جانا ہے، خدا کی قدرت و حکمت کو مانا اور اُس کے احکامات کو انسان پر لاگو کیا ہے۔

غالب نے اسرارِ خدائی اور رموزِ کائنات پر سب سے زیادہ بات کی ہے ، وہ انسان کو تقدیر کے سامنے بے بس اور مجبور تصو رکرتے ہیں اورانسانی زندگی کے نشیب وفراز کو کاتب تقدیر کا لکھاہوا قرار دیتے ہیں۔ اُن کے اکثر اشعار میں تقدیر کا رونا، قسمت کا ناخوش ہونا اور بدنصیبی پر احتجاج کیا گیا ہے ،جس میں شکوہ گلہ بھی ہے اورشکایات کا ازالہ کرنے پر زو ربھی دیا گیا ہے۔

اُنھوں نے اپنے تلخ و شیریں تجربات کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے اور اپنے عمیق مشاہدات بھی اپنے اشعار میں سمودیئے ہیں، یہاں تک کہ وہ اپنے شدید جذبات (پیار، نفرت، غصہ، خوف، خوشی)، اور نازک احساسات کو بھی پیرایہ اظہار میں لائے ہیں۔

غالب کے فکری رجحانات اور فلسفیانہ نظریات دوسرے شعراسے حد درجہ مختلف، جدا اور منفرد ہیں جن کی بنا پر غالب کو کسی مخصوص مکتب فن و فکر سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ اُن کی شاعری کی فکری وسعت اور خیالات کا پھیلاؤ اِس قدر ہے کہ ہر مکتب فن و فکر والے اُن کو اپنا خیال کرتے ہیں۔ غالب کا رویہ اُن کا اپنا شعری رویہ ہے۔ 

اِس رویے نے سخن اور ماورائے سخن تمام انسانی تصورات اور تجربات کو مسرت اور سعادت کے ایک لازوال سرمائے میں تبدیل کردیا ہے۔ اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ غالب کا شعری اُسلوب اُن کا اپنا ہے او راُن کے سخن ہائے گفتنی میں یہی اُسلوب کارفرما ہے۔ 

غالب دوسرے اُردو شعراء سے اِس لیے بھی مختلف، الگ او رممتاز ہیں کہ اُنہوں نے مضمون باندھنے کی روایت کو معائب سخن میں گردانا ہے، اُس پربڑی تنقید کی ہے اور اِس کی روایت شکنی کرتے ہوئے اپنا شعری رویہ واضح کیا ہے، جس میں تشبیہات و استعارات، علامات و اصطلاحات کا ایک وسیع نظام تخلیق ہوا ہے، اِسی لیے اُن کی شعریات میں مضمون کے روایتی مفہوم کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ 

غالب کے اشعار میں معنی پر بھی زو ردیا گیا ہے، جذبے کو اہم قرار دیا گیا ہے اور تجربے کو بھی خاطر میں لایا گیا ہے۔ شاعری کی تعریف کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا ہے کہ’’ شاعری معنی آفرینی ہے، قافیہ پیمائی نہیں۔‘‘ اور اِسی معنی آفرینی نے اُن کی شاعری کو جہاں اہل نقد و نظر کی توجہ کا مرکز و محور بنا دیا ہے وہاں قارئین شعر و سخن کے دل کی دھڑکن بھی، یہی وجہ ہے کہ غالب کا نام اور کلام اہل علم و ادب اور اہل نقدونظر کے دل میں ہمیشہ زندہ رہے گا اور دنیائے اُردو ادب کو تابندہ رکھے گا۔