جھوٹ اور غلط بیانی بدترین گناہ، معاشرے کی بربادی کا ذریعہ

January 28, 2022

مولانا خورشید عالم داؤد قاسمی

سب جانتے ہیں کہ بے بنیاد باتوں کو لوگوں میں پھیلانے، جھوٹ بولنے اور افواہ کا بازار گرم کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ ہاں! اتنی بات تو ضرور ہے کہ یہی جھوٹ، چاہے جان کر ہو، یا اَنجانے میں ، کتنے لوگوں کو ایک دوسرے سے بدظن کردیتا ہے، یہ لڑائی، جھگڑے اور خون وخرابے کا باعث ہوتا ہے، کبھی تو بڑے بڑے فساد کا سبب بنتا ہے اور بسا اوقات پورے معاشرے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ جب جھوٹ بولنے والے کی حقیقت لوگوں کے سامنے آتی ہے، تو وہ بھی لوگوں کی نظر سے گرجاتا ہے، اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور پھر لوگوں کے درمیان اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔

انسان جب بھی کچھ بولتا ہے تو اللہ کے فرشتے اسے نوٹ کرتے رہتے ہیں، پھر اسے اس ریکارڈ کے مطابق اللہ کے سامنے قیامت کے دن جزا و سزا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:ترجمہ: ’’وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالنے پاتا، مگر اس کے پاس ہی ایک تاک لگانے والا تیار ہے۔‘‘ (سورۂ ق:۱۸)

یعنی انسان کوئی کلمہ جسے اپنی زبان سے نکالتا ہے، اُسے یہ نگراں فرشتے محفوظ کرلیتے ہیں۔ یہ فرشتے اس کا ایک ایک لفظ لکھتے ہیں، خواہ اس میں کوئی گناہ یا ثواب اور خیر یا شر ہو یا نہ ہو۔

امام احمدؒ نے بلال بن حارث مزنیؓ سے روایت کیا ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’انسان بعض اوقات کوئی کلمۂ خیر بولتا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے، مگر یہ اسے معمولی بات سمجھ کر بولتا ہے، اسے پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اس کا ثواب کہاں تک پہنچا کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنی رضائےدائمی قیامت تک کےلیے لکھ دیتا ہے۔ اسی طرح انسان کوئی کلمہ اللہ کی ناراضی کا (معمولی سمجھ کر) زبان سے نکال دیتا ہے، اسے گمان نہیں ہوتا کہ اس کا گناہ ووبال کہاں تک پہنچے گا؟ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس شخص سے اپنی دائمی ناراضی قیامت تک کے لیے لکھ دیتا ہے۔ ‘‘ (ابن کثیر، تلخیص، از: معارف القرآن، ج:۸، ص:۱۴۳)

جھوٹ بولنا گناہِ کبیرہ ہے اور یہ ایسا گناہِ کبیرہ ہے کہ قرآن کریم میں، جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت کی گئی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:’’لعنت کریں اللہ کی اُن پر جو کہ جھوٹے ہیں۔‘‘(سورۂ آلِ عمران: ۶۱)

جیسا کہ مندرجہ بالا قرآنی آیات میں جھوٹ اور بلا تحقیق کسی بات کے پھیلانے کی قباحت و شناعت بیان کی گئی ہے، اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی اس بدترین گناہ کی قباحت وشناعت کھلے عام بیان کی گئی ہے۔ ہم ذیل میں چند احادیث مختصر وضاحت کے ساتھ پیش کرتے ہیں: ایک حدیث میں یہ ہے کہ جھوٹ اور ایمان جمع نہیں ہوسکتے، لہٰذا اللہ کے رسول ﷺ نے جھوٹ کو ایمان کے منافی عمل قرار دیا ہے۔ حدیث ملاحظہ فرمائیے:’’حضرت صفوان بن سلیم ؓ بیان کرتے ہیں: اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھاگیا: کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘ پھر سوال کیا گیا: کیا مسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟ آپ ﷺ نےفرمایا: ’’ہاں۔‘‘ پھر عرض کیا گیا: کیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ نہیں (اہلِ ایمان جھوٹ نہیں بول سکتا)۔‘‘(مؤطا امام مالک، حدیث : ۳۶۳۰/۸۲۴)

ایک حدیث شریف میں جن چار خصلتوں کو محمد عربی ﷺ نے نفاق کی علامات قرار دیا ہے، ان میں ایک جھوٹ بولنا بھی ہے، لہٰذا جو شخص جھوٹ بولتا ہے، وہ خصلتِ نفاق سے متصف ہے۔ حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے:’’جس میں چار خصلتیں ہوں گی، وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں کوئی ایک خصلت پائی جائے، تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، تا آں کہ وہ اسے چھوڑدے: جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو دھوکا دے اور جب لڑائی جھگڑا کرے تو گالم گلوچ کرے۔‘‘(صحیح بخاری، حدیث : ۳۴)

ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے، تورحمت کے فرشتے اس سے ایک میل دور ہوجاتے ہیں: ’’جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس سے جو بدبو آتی ہے اس کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور ہوجاتا ہے۔‘‘ (سنن ترمذی : ۱۹۷۲)

ایک حدیث میں پیارے نبی ﷺ نے جھوٹ کو فسق و فجور اور گناہ کی طرف لے جانے والی بات شمار کیا ہے۔ حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں: یقیناً جھوٹ برائی کی رہنمائی کرتا ہے اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے، تا آں کہ اللہ کے یہاں ’’کذّاب‘‘ (بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا) لکھا جاتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث : ۶۰۹۴)

رسولِ اکرم ﷺ نے ایک حدیث میں جھوٹ بولنے کو بڑی خیانت قرار دیا ہے۔ خیانت تو خود ہی ایک مبغوض عمل ہے، پھر اس کا بڑا ہونا یہ کتنی بڑی بات ہے! حدیث ذیل میں ملاحظہ فرمائیں: ترجمہ: ’’یہ ایک بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو، جس حوالے سے وہ تجھے سچا سمجھتا ہے، حالاں کہ تم اس سے جھوٹ بول رہےہو۔‘‘(سنن ابو داود، حدیث: ۴۹۷۱)

ایک حدیث شریف میں نبی کریم ﷺ نے جھوٹ کو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ شمار کیا ہے:’’حضرت ابوبکرہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا میں تمہیں وہ گناہ نہ بتلاؤں جو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑے ہیں؟ تین بارفرمایا۔ پھر صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: ہاں! اے اللہ کے رسولﷺ!۔ پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ پھر آپ ﷺ بیٹھ گئے، جب کہ آپ ﷺ (تکیہ پر) ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر فرمایا: ’’خبردار! اور جھوٹ بولنا بھی (کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ ہے)۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: ۲۶۵۴)

صرف یہی نہیں کہ ایسا جھوٹ جس میں فساد و بگاڑ ہو اور ایک آدمی پر اس جھوٹ سے ظلم ہو رہا ہو، وہی ممنوع ہے، بلکہ لطف اندوزی اور ہنسنے ہنسانے کے لیے بھی جھوٹ بولنا ممنوع ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:ترجمہ: ’’وہ شخص برباد ہو جو ایسی بات بیان کرتا ہے، تاکہ اس سے لوگ ہنسیں، لہٰذا وہ جھوٹ تک بول جاتا ہے، ایسےشخص کے لیے بربادی ہو، ایسے شخص کے لیے بربادی ہو۔‘‘(سنن ترمذی، حدیث: ۲۳۱۵)

شریعتِ مطہرہ میں جھوٹ بولنا اکبر کبائر (کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ) اور حرام ہے، جیسا کہ قرآن وحدیث کی تعلیمات سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ترجمہ: ’’پس جھوٹ افتراء کرنے والے تو یہ ہی لوگ ہیں، جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور یہ لوگ ہیں پورے جھوٹے۔‘‘ (سورۃ النحل:۱۰۵)

ایک دوسری جگہ ارشادِ خداوندی ہے: ’’اور جن چیزوں کے بارے میں محض تمہارا جھوٹا زبانی دعویٰ ہے، ان کی نسبت یوں مت کہہ دیا کرو کہ فلانی چیز حلال ہے اور فلانی چیز حرام ہے، جس کا حاصل یہ ہوگا کہ اللہ پر جھوٹی تہمت لگادو گے، بلا شبہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں، وہ فلاح نہ پائیں گے۔‘‘ (سورۃ النحل:۱۱۶)

جھوٹ کبیرہ گناہوں میں سے ہے، لہٰذا جھوٹ بولنا دنیا و آخرت میں سخت نقصان اور محرومی کا سبب ہے۔ جھوٹ اللہ رب العالمین اور نبی کریم ﷺ کی ناراضی کا باعث ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے، جو دوسری بیماریوں کے مقابلے میں بہت عام ہے۔ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے جھوٹ کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ اس جھوٹ سے انھوں نے کیا پایا اور کیا کھویا؟ جب لوگوں کو جھوٹے شخص کی پہچان ہوجاتی ہے، تو لوگ اسے کبھی خاطر میں نہیں لاتے ۔ جھوٹ بولنے والا شخص کبھی کبھار حقیقی پریشانی میں ہوتا ہے، مگر سننے والا اس کی بات پر اعتماد نہیں کرتا۔ ایسےشخص پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے، کیوں کہ وہ اپنے اعتماد و یقین کو مجروح کرچکا ہے۔

جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ لوگوں کے درمیان لڑائی، جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔ دو آدمیوں کے درمیان عداوت و دشمنی کو پروان چڑھاتی ہے۔ اس سے آپس میں ناچاقی بڑھتی ہے۔ اگر ہم ایک صالح معاشرے کا فرد بننا چاہتے ہیں، تو یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم لوگوں کو جھوٹ کے مفاسد سے آگاہ اور باخبر کریں، جھوٹے لوگوں کی خبر پر اعتماد نہ کریں، کسی بھی بات کی تحقیق کے بغیر اس پر ردّ ِعمل نہ دیں۔ اگر ایک آدمی کوئی بات آپ سے نقل کرتا ہے تو اس سے اس بات کے ثبوت کا مطالبہ کریں۔ اگر وہ ثبوت پیش نہیں کرپاتا تو اس کی بات پر کوئی توجہ نہ دیں اور اسے دھتکاریں۔