ووکیشنل یا ٹیکنیکل تعلیم کی اہمیت

April 17, 2022

ہمارے یہاں لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کا مسئلہ درپیش ہے۔ ڈگریاں ہاتھ میں تھامے لاکھوں نوجوان ملازمت کی تلاش میں سرگرداں ہیں لیکن ملازمت حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ دوران ِتعلیم اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق کوئی ہنر یا ٹیکنیکل ایجوکیشن حاصل کرلی جائے تو شاید نوکریوں کی تلاش میں دھکے نہ کھانے پڑیں۔

ٹیکنیکل تعلیم جسے ووکیشنل تعلیم بھی کہا جاتا ہے، کسی بھی ملک کی صنعتی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن کی اہمیت و افادیت کی ایک مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ امریکی ریاست میری لینڈ میں پلمبرز اینڈ اسٹیم فٹرز یونین کی جانب سے ہنر سکھائے جانے والے پروگرام میں ٹریوس اسٹریوڈرمین اور ان جیسے دیگر طلبا تعلیم کے ساتھ ساتھ پیسے بھی کماتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے میری زندگی مکمل طور پر بدل گئی ہے، میں نے اپنے تمام قرضے اتار دئیے ہیں۔

پاکستان ایک نوجوان آبادی کا حامل ملک ہے۔ ہمارے ملک میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نوکریوں کی اہل ہے لیکن روزگار کا وسیلہ نہیں، یہ صورتِ حال کافی تشویش ناک ہے کہ ملک میں پڑھنے والے قابل اور ذہین طلبا کے لیے روزگار کے کتنے کم مواقع موجود ہیں۔ عالمی وبا نے معیشت اور روزگار کے حوالے سے ہمارے سامنے کئی تلخ سچائیاں بے نقاب کرکے رکھ دی ہیں، جن سے اگر ہم نے آج نہ سیکھا تو کل ہمیں ہی پریشانی ہوگی۔

گزشتہ صدی کے اواخر تک روایتی معاشروں میں یہ بات سچ تھی کہ اچھی تعلیمی ڈگری ہی اچھے روزگار کی ضمانت ہوتی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ مراعات یافتہ اور معاشی طور پر مستحکم طبقہ ہی اپنی اولاد کو وہ تعلیمی ڈگریاں دلوا سکتا ہے جس سے وہ معاشی طور پر محفوظ رہیں۔ اگر طالب علم میں خود محنت کی لگن اور صلاحیتیں ہوں تو وہ ایک الگ کہانی ہے، اپنے وسائل کے مطابق تعلیم دلوانے کے باوجود والدین کا ایک بڑا حصہ اپنی اولاد کو بیروزگار پاتا ہے کیونکہ آبادی کے اتنے بڑے حصے کے لیے نوکریوں کا حصول ممکن نہیں۔

کورونا وائر س کے باعث پھیلنے والی عالمی وَبا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب کئی ادارے ڈاؤن سائزنگ کی طرف گئے تو ہم نے اپنے اردگرد صحت کی ایمرجنسی کے ساتھ ساتھ معاشی ایمرجنسی بھی دیکھی۔ تصویر کا دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ جن طلبا کے والدین انہیں اتنا پیسہ خرچ کرکے اعلیٰ تعلیم دلا بھی دیں اور یہاں انہیں اپنی قابلیت اور اہلیت کے مطابق پیسہ نہ ملے تو وہ بیرون ملک اچھے روزگار کے لیے چلے جاتے ہیں۔

اس سے ملک میں زرِ مبادلہ تو آتا ہے لیکن اگر سارے باصلاحیت نوجوان ہی ملک سے باہر جانے لگیں تو اسے اچھے دماغوں کا ’برین ڈرین‘ بھی سمجھا جاتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا متوسط اور نچلے طبقے کے لیے آسان نہیں۔ ہمارے پاس اب بھی ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم یا مہارتوں کے مطابق روزگار پیدا کرنے کے امکانات موجود ہیں لیکن ایک روایتی سوچ کے تحت ہم نے کبھی اس کو اتنی اہمیت نہیں دی۔ روایت پسندی کے باعث ہمارے یہاں اب بھی ووکیشنل روزگار کو اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن بہرحال اس سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور وہ بتدریج آرہی ہے۔

اس مسئلے کا ایک مؤثر حل ٹیکنیکل تعلیم پیش کرتی ہے۔ ٹیکنیکل بنیادوں پر مبنی تعلیم کے متعدد فائدے ہیں ۔ اوّل یہ کہ ایسے ادارے طلبا کو ڈپلوما سرٹیفکیٹ ملنے تک مکمل طور پر تجربہ کار بنا چکے ہوتے ہیں اور انہیں انٹرن شپ کے نام پر کمپنیوں میں ڈگری کے باوجود بلامعاوضہ محنت نہیں کرنا پڑتی اور وہ اپنے کاروبار یا نوکری دونوں کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ان اداروں کی تعلیمی میعاد اور فیس بھی عام اداروں سے کم ہوتی ہے۔ اگر کوئی طالب علم پردیس میں بھی کام کرنے کا شوقین ہو تو ایسے ماہر طلبا کے لیے بیرون ملک بھی زبردست مواقع موجود ہیں۔

ہیلتھ سائنسز، بائیو میڈیکل ٹیکنیشن، فارمیسی، لیب ٹیکنیشن، نرسنگ (ایل، ایچ، وی)، فارمیسی، مڈوائفری، ٹیکنیکل، فیشن انڈسٹری، کاسمیٹکس، لیدر اینڈ گارمنٹس انڈسٹری، الیکٹریکل ریپئیر، آرٹس اینڈ کرافٹس، مینوفیکچرنگ، کچن اینڈ کلینری مہارتیں وغیرہ، یہ وہ ٹیکنیکل ہنر ہیں جو سرٹیفکیٹ اور ڈپلوما کے بعد روزگار کے پرکشش مواقع فراہم کرتے ہیں۔

لاک ڈاؤن اور ڈاؤن سائزنگ کے دوران ہمارے اردگرد کتنے ایسے خاندان تھے کہ جب گھروں کے مرد بیروزگار ہوئے تو ان کی خواتین نے اپنے گھر کا کچن چلانے کا بیڑہ اُٹھایا ، ہوم میڈ (گھر کے بنے کھانوں) کا کام، آرٹس، گارمنٹس اور دیگر ایسے کئی ہُنر جن کو وقت کا زیاں سمجھ کر نظر انداز کیا گیا، وہ ایسے بُرے وقت میں کام آئے ۔

پاکستان میں اپرنٹس شپ اسکیم کے تحت تعلیم و تربیت کے لیے مختلف تعلیمی اہلیت کے نوجوانوں کو طلب کیا جاتا ہے۔ عموماً اس کے لیے آٹھویں جماعت، دسویں جماعت اور بارہویں جماعت تک تعلیمی قابلیت ضروری تصور کی جاتی ہے۔ تاہم ڈپلومہ ہولڈرز بھی اپرنٹس شپ اسکیم سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ ملک بھر میں بے شمار سرکاری، نیم سرکاری اور نجی ادارے اپرنٹس شپ اسکیم کے تحت نوجوانوں کو فنی تعلیم و تربیت فراہم کرتے ہیں۔

قانون کے تحت ہروہ جگہ جہاں پانچ یا اس سے زائد افراد کام کرتے ہیں، وہاں اپرنٹس شپ کی تربیت دی جاسکتی ہے۔ لیکن تمام کاروباری اور صنعتی مقامات پر اپرنٹس شپ ٹریننگ نہیں دی جاتی بلکہ عموماً بڑے صنعتی اداروں میں ہی اس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بالعموم ایسے اداروں کی پیشہ ورانہ ساکھ بہت بہتر ہے اور یہاں کے تربیت یافتہ افراد کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔

اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ صرف اعلیٰ تعلیم کی ڈگری کے حصول سے ہی اپنےروشن مستقبل کا خواب پورا ہونے کا انتظار کرتے ہیں یا کسی ہنر میں مہارت حاصل کرکے اپنی راہیں خود متعین کرتے ہیں۔