حمزہ شہباز کا امتحان

May 16, 2022

کسی کی شخصیت کو سمجھنا ہو تو اس کے ساتھ سفر کرلو اور کھانا کھالو ۔وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے ساتھ ان دونوں معاملات میں ، میں شریک رہ چکا ہوں ان کے ساتھ لندن کا سفر کیا تھا جبکہ دوسرا معاملہ تو بہت بار ہوا ۔ اس لیے ان کی شخصیت کو بیان کرنا چنداں مشکل نہیں ۔

زمانہ حزب اختلاف بلکہ شدید حزب اختلاف میں ان سے تعارف ہوا تھا اور اس وقت سے یہ طے شدہ نظر آ رہا تھا کہ وہ ایک دن اعلیٰ ریاستی عہدے پر ضرور براجمان ہوں گے کیونکہ جو شخص سخت ترین حالات میں بھی اپنے اعصاب کو پرسکون رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو اس کے لئے مسائل ومشکلات کوئی معنی نہیں رکھتیں اور وہ ایک نہ ایک دن ان سے نجات حاصل کر ہی لیتا ہے۔ حزب اختلاف کے بعد جب حزب اقتدار کا زمانہ آیا توجیسا حمزہ شہباز جیسا حزب اختلاف کے زمانے میں تھا ویسا ہی اس کو اقتدار کے زمانے میں بھی پایا ۔

اقتدار کا یہ دور اگر چلتا رہے اور اس کی ٹانگیں نہ کھینچی جائیں تو ایسی صورت میں ملک کو معاشی استحکام جس کے نتیجے میں سماجی و دفاعی استحکام سمیت سب کچھ حاصل ہوجاتا، یہ منزل کوئی ایسی دور نہیں تھی مگر اچانک تبدیلی کی خواہش نے سب کچھ اس بری طرح تہہ و بالا کر دیا ، جس پر دوبارہ عمارت تعمیر کرنا انتہائی کٹھن ہو چکا ہے ۔

حمزہ شہباز سے جب بھی ملاقات ہوئی ، انہوں نے ہمیشہ مجھے اپنا بھائی بلکہ خاندان کا فرد قرار دیا اسی محبت کے سبب میں ان کی توجہ چند امور کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ جب تبدیلی تباہی بن کر پھنکار رہی تھی تو اس تبدیلی کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ نواز شریف سے متعلقہ ہر اس شخص کو پابندِ سلاسل کر دیا جائے جس کو پس دیوارِزنداں دیکھ کر نواز شریف کے حوصلوں کو توڑا جا سکے ۔

نوازشریف کے حوصلے تو کیا ٹوٹتے الٹا انتقامی کارروائیوں کواپنی شناخت بنا لیا ۔ حمزہ شہباز بائیس ماہ جیل میں رہے اور ان بائیس ماہ کے دوران جو لوگ انتہائی متحرک رہے یا ان کی ہر پیشی پر حکومت کی مخالفت، سردی ،گرمی کی پروا کیے بنا عدالتوں میں موجود ہوتے تھے مسلم لیگ نون کا نہایت قابل قدر اثاثہ ہیں ۔ تارا بٹ، رانا فاروق ،سید عظمت ،ملک عمران، رضوان قریشی، عمران گورایہ ،صفدر انجم ،جمیل صادق ،شیخ شاہد اقبال ، طارق جٹ ، مہر شہباز ، سردار نسیم ،سواتی خان،میاں طارق ، طارق وسیر اورمہر مودی وغیرہ ۔

اب ایسے لوگ نظر انداز نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ جو ہر حالت میں نظریے کے ساتھ کھڑا ہو وہی عوامی سطح پرڈیلیور کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے اور اس وقت اس کی اشد ضرورت ہے کہ عوامی سطح پر فوری طور پر ڈیلیور کیا جائے اور ناصرف یہ کہ ڈیلیور کیا جائے بلکہ اس کی تشہیر کا بھی بندوبست ہو اور اس تشہیر کے لیے نظریے سے وفادار اور باصلاحیت لوگ درکار ہیں جو کامیابیوں کو عوام کے دلوں میں اتار بھی سکیں، حمزہ شہباز کی کارکردگی کی پرکھ نواز شریف اور شہباز شریف کے ادوار سے کی جائے گی .

چنانچہ جب بڑے نام ساتھ ہوں تو اس صورت میں کارکردگی ثابت کرنا اشد ضروری ہے تاکہ عوام یہ محسوس کرسکیں کہ نواز شریف، شہباز شریف خود ہی موجود ہیں ۔ ترقیاتی منصوبے جو گزشتہ حکومت میں ٹھپ پڑے تھے، ان کو جاری کرنا اور امن و امان کی صورتحال جو بدترین حالت میں موجود ہے، کو سدھارناوقت کی اشد ضرورت ہے ۔صوبے کے معاشی معاملات کو بہتر کرنا درکار ہے ۔

ویسے معاشی معاملات کو مکمل طور پر بہتر کرنا صوبائی حکومت کے لیے ممکن نہیں ہوتا کیونکہ یہ پورے ملک کے حالات سے وابستہ ہوتے ہیں مثال کے طور پر ہمارے گلے میں ایف اے ٹی ایف کی ہڈی اٹکی ہوئی ہے ۔ اس کا اجلاس جون میں منعقد ہونا ہے اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ اس فورم کا شریک چیئرمین اٹلی بن چکا ہے جہاں یورپ کی حد تک سب سے زیادہ پاکستانی مقیم ہیں ۔ اٹلی اور پاکستان کے بین الاقوامی مفادات میں یہ ایک ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔

اطالوی وزیراعظم نے جو خط وزیراعظم شہباز شریف کو تحریر کیا ہے اس میں بھی ان مشترکہ مفادات کی طرف اشارہ کیا ہے ان کا اشارہ پاک اٹلی کافی کلب کی جانب ہے جس کے مقاصد میں شامل ہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی تعداد کو بڑھنے نہ دیا جائے ۔

اس مشترکہ سوچ کے سبب سے اٹلی ایف اے ٹی ایف کے معاملات میں پاکستان کی مدد کرنا چاہتا ہے‘ اس سلسلے میں اٹلی نے پاکستان کے دفتر خارجہ سے رابطہ بھی کیا ہے لیکن کم و بیش ایک مہینہ گزر جانے کے باوجود ،ابھی تک ان کو کوئی جواب نہیں دیا گیا ۔ اس حوالے سے فوری اقدامات درکار ہیں کیونکہ ایف اے ٹی ایف پر قابو پائیں گے تو معیشت میں بہتری آئے گی اور وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی کارکردگی کو بہتر بنا سکیں گی ۔