ایک تاثر یہ بھی ہے

May 28, 2022

بصد احترام! عرض ہے کہ یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ گیارہ جماعتی حکومتی اتحاد کے ساتھ ہاتھ ہو چکا ہے۔ جب یہ تاثر خیال کی شکل اختیار کرتا ہے تو ہر طرف خان ہی خان چھایا نظر آتا ہے۔ سیاسیات کے طالب علموں، قومِ یوتھ کے پیرو کاروں، نئے، پُرانے پاکستان کے درمیان لٹک جانے والوں کو یہ تو یاد ہی ہوگا کہ ماضی میں ایک شخص یہ کہتا ہوا لندن جا بیٹھا کہ مجھے کیوں نکالا؟ حال ہی میں ایک اور کہہ رہا تھا کہ اگر مجھے نکالا تو میں خطرناک ہو جاؤں گا۔ پھر وہ مرحلہ بھی آیا کہ یہی شخص کہتا تھا کہ مجھے نکالنے کے لیے رات کے اندھیرے میں عدالتیں کیوں کھولی گئیں؟ اسے یہ بھی اعتراض تھا کہ اس کی حکومت کو غیر آئینی طریقے سے ختم کیا گیا۔ ایک ہنگامہ برپا کیا گیا کہ رات کو عدالتیں کھولنا بھی امریکی سازش کا نتیجہ تھا۔ اعلیٰ عدلیہ کو سازشی مراسلہ بھی ارسال کیا گیا کہ اس کا نوٹس لے۔ عدلیہ اور اداروں پر دباؤ ڈالنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا، آپ سب کو یہ بھی یاد ہوگا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں شام ڈھلے زمان پارک میں خان کی خواہش پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ ایک طویل ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات کا صرف ایک ہی موضوع تھا کہ سپریم کورٹ نے خان کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟ خان صاحب معزز جج صاحبان سے سخت ناراض نظر آرہے تھے اور ساتھ ہی سابق چیف جسٹس سے یہ بھی پوچھ رہے تھے کہ کوئی ہے جو آپ جیسا ہو؟ جس کے جواب میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے انہیں دلاسہ دیا اور کہا کہ سب جج ایک جیسے نہیں ہوتے، کچھ اچھے بھی ہوتے ہیں، اس سے آگے راوی خاموش ہے۔ منظر نامہ بدلتا ہے، خان عدلیہ اور فوج پر زبردست چڑھائی کر دیتے ہیںپھر تحریک انصاف کے صدرِ مملکت ایک صدارتی ریفرنس دائر کرتے ہیں، صدارتی ریفرنس میں آرٹیکل 63اے کی تشریح کی سماعت کے اختتامی لمحات ہیں، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف لاہور میں مصروفیت کے باعث پانچ رکنی بنچ کے سامنے حاضر ہونے سے قاصر ہیں۔ تاثر یہ پیدا ہو رہا تھا کہ شاید حکومت اس معاملے کو مزید لٹکانا چاہتی ہے۔ معزز عدالت نے اٹارنی جنرل کو فوری پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ عدالتیں رات تک کھلی ہیں، آپ حاضر ہوں۔ پھر آپ نے دیکھا کہ اگلے ہی روز تین، دو سے ایک ایسا مبہم اقلیتی فیصلہ سنایا گیا جسے خان کی فتح قرار دیا جارہا ہے۔ بیانیہ بدلتا ہے، خان صاحب اسٹیج پر کھڑے ہو کر اعلیٰ عدلیہ کی شان میں قصیدے پڑھتے نظر آتے ہیں۔ حکومت دباؤ کا شکار ہونے لگتی ہے۔ اس سارے منظر، پس منظر میں ڈالر چھومنتر ہو جاتا ہے۔ طاقت ور ادارے بدستور بظاہر نیوٹرل نظر آتے ہیں۔ شہباز حکومت کا مورال بُری طرح گر چکا ہے۔ لوگ، تجزیہ کار تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں کہ مشکل فیصلے بروقت کیوں نہیں کرتے ہو؟ خاموش کیوں ہو؟ تبصرے ہو رہے ہیں، حکومت بچانی ہے، پارٹی یا ملک؟ جو بھی کرنا ہے جلد فیصلے کرو۔ پھر ایک اور منظر آپ کی آنکھوں کے سامنے آتا ہے۔ حکومت صدارتی ریفرنس کی تشریح پر عدالت کے احترام میں خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔ آئی ایم ایف سے دوحہ میں مزید قرضہ لینے کے لیے ترلے منتیں کی جارہی ہیں۔ خان صاحب پھر اسٹیج پر نمودار ہوتے ہیں۔ وہی امریکی سازش، قتل کے منصوبے، زرداری، شریف خاندان پر روایتی الزامات کی بوچھاڑ، اپنی چار سالہ کارکردگی پر بدستور خاموشی، پھر تقریر کا رُخ بدلتا ہے اور خان صاحب کہتے ہیں کہ اتحادی حکومت این آر او ٹُو کے چکر میں ایف آئی اے سمیت تفتیشی اداروں پر اثر انداز ہو رہی ہے اور تفتیشی افسروں کو ہٹایا جارہا ہے۔ یہ تقریر ختم ہوتی ہے، اگلے 24گھنٹوں میں رات کے پہلے پہر اِس معاملے پر ایک معزز جج صاحب کے تاثر پر مبنی خط کے نتیجے میں قابلِ صد احترام چیف جسٹس صاحب از خود نوٹس لے لیتے ہیں۔ رجسٹرار آفس سے پریس ریلیز جاری ہوتی ہے۔ اگلے ہی روز معزز چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ از خود نوٹس کی سماعت کرتا ہے، چیف ایگزیکٹو کی طرف سے تفتیشی افسروں کے تقرر و تبادلوں پر تاحکمِ ثانی پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ بصد احترام! عرض ہے کہ اگر ایک معزز جج صاحب کے دل میں تاثر پیدا ہونے کے نتیجے میں چیف ایگزیکٹو کو بےاختیار کر دیا جائے تو یہاں یہ تاثر بھی پیدا ہوتا ہے کہ احتساب عدالتوں سمیت اعلیٰ عدلیہ نے فیصلے انتظامی تبدیلیوں کی بنیاد پر کرنے ہیں یا انصاف کی بنیاد ثبوتوں پر، تاثر کی بنیاد پر اگر نظامِ حکومت کو مفلوج کرنا ہے تو تاثر یہ بھی پیدا ہو رہا ہے کہ خان ثاقب نثار ملاقات کے نتیجے میں ہواؤں کا رُخ بدل رہا ہے۔ ہماری پریشانی بڑے مولانا صاحب سے بھی زیادہ بڑی ہے کہ اگر یہ روایت چل نکلی کہ چند ہزار کا جتھا اکٹھا کرکے پہلے ریاستی اداروں کی اہم شخصیات کا پوسٹ مارٹم کرو، انہیں شدید دباؤ میں لاؤ، پھر من پسند فیصلے حاصل کرکے کامیابی کے ڈونگرے برساؤ تو معاف کیجئے گا، ہمیں یہ کمپنی چلتی نظر آتی ہے نہ ملک۔ درد مندانہ التجا ہے کہ خانوں کے خان عمران خان نے جو سازشی مراسلہ آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے، اس پر بھی از خود نوٹس لیں، اسی طرح خان حکومت میں ہونے والی انتقامی کارروائیوں اور من پسند تقرر و تبادلوں کی بنیاد پر ہونے والی زیادتیوں اور دورانِ قید و تفتیش چند افراد کی ہلاکتوں کا بھی نوٹس لے کر ایک ہی مرتبہ فیصلہ کر لیں کہ ہم نے آگے کیسے چلنا ہے؟ قوم اس عذاب سے مستقل نجات چاہتی ہے اگر ”مدر آف بحران“ سے نجات نہ ملی تو یہ تاثر یقین میں بدل جائے گا کہ حالیہ فیصلے عمران ثاقب نثار ملاقات کے نتیجے میں سامنے آرہے ہیں۔ ظرف ظرف کی بات ہے، اگر خان نے ظرف کی تعلیم حاصل کرنی ہے تو بلاول جیسے بچوں سے سبق سیکھیں جس نے اقوامِ متحدہ کے فورم پر کھڑے ہو کر خان صاحب کے دورئہ روس کا بہترین دفاع کیا اور ثابت کیا کہ پاکستان کی خاطر کوئی سیاسی اَنا نہیں ہوتی۔ ویل ڈن بلاول بھٹو۔