کراچی کا سفاری پارک

June 23, 2022

کراچی جہاں روشنیوں ، امیدوں اور امنگوں کا شہر ہے وہیں یہ اپنے ساحل، پارکوں، کھیل کے میدانوں ، تاریخی اور بلند و بالا عمارتوں، شاپنگ سینٹرز اور فوڈ اسٹریٹس کے لئے بھی شہرت رکھتا ہے، باغ ابن قاسم ، گلشن جناح ، باغ جناح، ہل پارک، عزیز بھٹی پارک سمیت مختلف پارکس یہاں کی رونقوں میں اضافہ کرتے ہیں، کراچی چڑیا گھر اور لانڈھی کورنگی چڑیا گھر میں شہری اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ جانوروں اور پرندوں کو قریب سے دیکھنے کے لئے آتے ہیں اسی طرح کراچی کے سفاری پارک میں آزادی سے گھومتے ہوئے جانوروں کو انتہائی قریب سے دیکھنے کے مواقع میسر آتے ہیں، جانوروں کا کھلے عام آزادی سے گھومنا پارک کی انفرادیت عطا کرتا ہے۔

یونیورسٹی روڈ پر نیپا چورنگی سے ذرا آگے اور این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ سے ذرا پہلے 407 ایکڑ رقبے پر مشتمل وسیع و عریض سفاری پارک واقع ہے، جس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں جنگلی جانور اپنے قدرتی ماحول میں مقررہ حدود کے اندر آزادی سے رہتے ہیں اور انہیں دیکھنے کے لئے آنے والے لوگ بند گاڑیوں میں تربیت یافتہ گائیڈز کے ساتھ اندرونی سڑکوں پر سفر کرتے ہیں جو انہیں ان جانوروں اور ان کے قدرتی مقامات سے متعلق آگاہی فراہم کرتے ہیں۔

دنیا میں اب چڑیا گھر کے بجائے سفاری پارک بنائے جانے کا تصور عام ہو رہا ہے، دنیا کے مشہور سفاری پارکوں میں کینیا کا کورگر سفاری (Kruger Safari) ، انڈیا کے شہر گجرات کا لائن اینڈ ٹائیگر سفاری، سری لنکا کے شہر کولمبو میں ویل پاٹو نیشنل پارک (Wilpattu National Park Colombo) جو ہاتھیوں کے لئے مشہور ہے اور ملائیشیا کا رائنو سفاری شامل ہیں۔ پاکستان میں کراچی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں 1960 ء کے عشرے میں سفاری پارک کی تعمیر کے لئے سوچا گیا۔

اس وقت جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے مختلف سیمینارز اور اخبارات اور رسائل میں مضامین تحریر کئے جا رہے تھے اور ایک تنظیم وائلڈ لائف کنزرویشن سوسائٹی آف پاکستان بھی قائم کی گئی تھی اور اس کی وجہ جنگلی جانوروں اور ان کے رہنے کی جگہوں کو محفوظ بنانا تھا، پاکستان میں جانوروں کے لئے محفوظ پناہ گاہیں بنانے کا تصور ہی دراصل سفاری پارک بنانے کا سبب بنا۔

1966ء میں وائلڈ لائف کے سائنس دانوںکی ایک ٹیم نے کراچی کا دورہ کیا تھا اور اس دورے میں وہ چڑیا گھر بھی گئے تھے انہیں ورلڈ وائلڈ لائف فنڈز نے پاکستان میں نیشنل پارک کے قیام، جنگلی حیات کے تحفظ اور ملک کے قدرتی وسائل کے بہتر استعمال کے اقدامات کے لئے بھیجا تھا، انہوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان کا دو بار سروے کیا اور کام مکمل ہونے پر ٹیم کے سربراہ کرنل گیمونٹ نے تجویز پیش کی کہ کراچی میں سفاری پارک کا قیام ضروری ہے، انہوں نے پاکستان کی بائیو ڈائیورسٹی پر ایک کتاب ’’دی ونشینگ جنگل‘‘ بھی تحریر کی۔

پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا تو کراچی اس کا دارالخلافہ بنا۔ شہر میں چڑیا گھر، جسے انگریزوں نے 1872 میں قائم کیا تھا، 33 ایکڑ اراضی پر مشتمل تھا۔ یہ شہر کی اس وقت کی آبادی کے لیے کافی بڑا تھا۔ ہندوستان کے مختلف شہروں سے ہجرت کرکے کراچی آنے والے خاندانوں کی آمد اور بعد کے سالوں میں اندرون ملک سے بہت بڑی تعداد میں لوگوں کی کراچی میں قیام کے بعد بڑے زولوجیکل باغات کی ضرورت محسوس کی گئی لیکن اس کے لئے اصل مسئلہ زمین کے حصول کا تھا۔

اس سلسلے میں ڈاکٹر ایس ایم ایچ رضوی کی خدمات حاصل کی گئیں جو مشہور آئی سرجن ہونے کے علاوہ ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے بھی سرگرم تھے اور متعلقہ حکام سے رابطے میں تھے۔ ڈاکٹرصاحب کے اس وقت کے مغربی پاکستان کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل عتیق الرحمن سے خاندانی تعلقات تھے۔ چنانچہ ڈاکٹر رضوی گورنر صاحب کو کراچی کے شہریوں کی تفریحی ضروریات کے لیے ایک بڑی جگہ کی ضرورت پر بریفنگ کے لیے قائل کرنے میں کامیاب رہے جہاں جانوروں کو رکھا جائے۔

ایک صبح گورنر کراچی چڑیا گھر آئے جہاں ڈاکٹر اے۔ اے قریشی نے مجوزہ زولوجیکل گارڈن کے بارے میں بریفنگ دی جس سے وہ بہت متاثر ہوئے۔ گورنر نے فوری طور پر وہاں موجود افسران کو مناسب جگہ تلاش کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح مین یونیورسٹی روڈ پر بنجر پتھریلے راستے میں 407 ایکڑ رقبے کی جگہ کا انتخاب کیا گیا اور پھر 22جون 1970ء کو یونیورسٹی روڈ بالمقابل سوئی گیس اسٹیشن کراچی میں ایک جدید سفاری پارک بنانے کے لئے لیفٹیننٹ جنرل ایم عتیق الرحمن نے اپنے دست مبارک سے سنگ بنیاد رکھا۔

اس طرح جانوروں کے تحفظ اور اور قدرتی ماحول کی فراہمی کی ایک نئی روایت کا آغاز ہوا، قیمتی قطعہ اراضی جو سفاری پارک کے لئے مختص کی گئی اس کی حفاظت کے لئے ایک بڑا کام یہ کیا گیا کہ اس کے چاروں طرف پختہ چار دیواری تعمیر کی گئی جس نے اس قیمتی زمین کو اب تک محفوظ رکھا ہوا ہے۔

ایک عارضی سائٹ آفس بنوایا گیا تاکہ سفاری پارک کی تعمیر کا آغاز کیا جاسکے لیکن بدقسمتی سے اگلے 14 سال تک اس پروجیکٹ پر کوئی کام نہیں ہوسکا، اس کے بعد ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم بنائی گئی جس میں ماہر آرکیٹیکٹس ، انجینئرز اور پلانرز کو شامل کیا گیا تاکہ یہ ٹیم سفاری پارک بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر کرسکے لیکن اس ٹیم کی کوششوں کے باوجود اس پروجیکٹ کو سرد خانے کی نذر کردیا گیا۔

سابق وزیر اعلیٰ سندھ جام صادق علی کے دور میں ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا جا رہا تھا کہ اس زمین کو سندھ حکومت واپس لے لے تاکہ کوئی دوسرا پروجیکٹ بنایا جائے لیکن اجلاس میں موجود بعض افسران نے اس بات کی مخالفت کی اور وزیراعلیٰ سے درخواست کی کہ یہاں سفاری پارک ہی تعمیر کیا جانا چاہئے تاکہ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہو جو جانوروں کے تحفظ اور جنگلی حیات کے حوالے سے اقدامات کر رہے ہیں۔

کراچی میں قائم کئے جانے والا سفاری پارک کا پروجیکٹ انتہائی جامع، جانوروں، پرندوں اور پودوں کے تحفظ اور قدرتی ماحول میں پرورش پر مشتمل تھا، اس پروجیکٹ میں جدید زولوجیکل اور بوٹنیکل گارڈنز کا قیام، پھول دار پودوں میں اضافے سے متعلق سرگرمیاں ، سیڈ بینک، ٹشو کلچر، جینیٹک انجینئرنگ، ہائبرڈ ڈیزایشن، جنگلی جانوروں کی افزائش نسل خاص طور پر ایسے جانور جن کی نسل کو خطرہ لاحق ہے ان کی حفاظت کا انتظام ، جانوروں کی صحت مند خوراک کا بندوبست، قرنطینہ اسٹیشن ، لیبارٹریز، نیشنل ہسٹری میوزیم، ہاٹیکلچرسٹس کے لئے تربیت مراکز کا قیام اور اس شعبے میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے گھروں پر کورسز کا انتظام اور جنگلی حیات سے متعلق مکمل اور بھرپور معلومات کی فراہم کے لئے پوسٹ گریجویٹ کورسز کی تیاری ، ویٹرنری کالج کا قیام شامل تھا۔

مجوزہ سفاری پارک پروجیکٹ میں امیوزمنٹ اور تفریحات مرکز بھی شامل تھے جہاں بچے اور بڑے سکون اور تفریح کے لمحات گزار سکیں اور یہاں جنگلی حیات اور کنزویشن کے حوالے سے تمام تر معلومات ایک ٹچ پر دستیاب ہوں تاکہ بچوں ، نوجوانوں اور خصوصاً طلبا و طالبات کو قیمتی معلومات حاصل ہوسکیں۔ بالآخر 1982 میں سفاری پارک کا ماسٹر پلان منظور کیا گیا اور تعمیراتی کاموں کا آغاز ہوا۔

1993ء میں یہاں سفاری پارک میں بڑے پیمانے پر شجر کاری کی گئی اور مختلف اقسام کے پودے لگائے گئے تاکہ یہ ہرا بھرا نظر آئے، جنگلی جانوروں کے لئے 23 انکلوژرز بنائے گئے ہیں جہاں جانور آزادی کے ساتھ گھومتے ہیں۔ سفاری پارک کے انتظام و انصرام اور شہریوں کو بہتر سہولیات کی فراہمی کے لئے 1995ء میں بلدیہ کراچی نے محکمہ زو، سفاری اینڈ ایکوریم کے نام سے ایک الگ محکمہ قائم کیا۔

سفاری پارک میں اس وقت 9 مختلف اقسام کے 206 پرندے15 اقسام کے 163 ممالیہ جانور، ریپٹلائز اقسام کے 8 جانور موجود ہیں،اس طرح مجموعی طور پر سفاری پارک میں 377 جانور اور پرندے موجود ہیں۔ جون2009ء میں افریقہ سے ہاتھی کے دو بچے سفاری لائے گئے جو اب مکمل ہاتھیوں کا روپ دھار چکے ہیں، انہیں سونو اور ملکہ کے نام سے پکارا جاتا ہے جو سفاری پارک آنے والوں کی توجہ کا مرکز ہیں، بچے ، خواتین اور نوجوان انہیں اپنے ہاتھوں سے خوراک کھلا کر خوش ہوتے ہیں جب یہ ہاتھی اپنے لئے خاص طور پر بنائے گئے تالاب میں نہاتے ہیں اور اپنی سونڈ سے پانی اچھالتے ہیں تو بچوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔

زیبرا، ہرن، لال ہرن، نیل گائے، چنکارہ غزال،اونٹ، گھوڑے، پہاڑی بکرے، داڑھی والے سرخی مائل بھیڑیں اور دیگر جانور کی موجودگی بھی شہریوں کے لئے دلچسپی کا باعث ہے۔ سفاری پارک میں ایک انسانی گردے کی شکل کی قدرتی جھیل موجود ہے جسے ’’جھرنا لیک‘‘ کہا جاتا ہے جس میں 200 سے زائد پرندے ہیں ان پرندوں میں مقامی اور ہجرت کرکے کراچی آنے والے پرندے شامل ہیں، جھیل میں مگرمچھ اور کچھوے بھی پائے جاتے ہیں۔ سفاری پارک میں ایک وی آئی پی ہل ایریا ہے جہاں سے پارک کا خوبصورت اور دلکش نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ سفاری پارک کے 76 ایکڑ رقبے پر مختلف لانز بنائے گئے ہیں جن میں کوکونٹ لان، ٹرائی اینگلولر لان،جھرنا لان شامل ہیں۔

فن لینڈ ایریا میں بچوں کے لئے جھولے اور بجلی سے چلنے والے مختلف کھلونے ان کا سفاری پارک آنے کا لطف دوبالا کردیتے ہیں۔ سفاری پارک کا کم و بیش 109 ایکڑ رقبہ اب تک غیر تعمیر شدہ ہے اگر اس رقبے کی بھی تزئین و آرائش کردی جائے تو شہریوں کو مزید بہتر سہولیات میسر آسکتی ہیں۔ سفاری پارک کے 30 ایکڑز رقبے پر مدھو گوٹھ اور 35 ایکڑز رقبے پر ہزارہ گوٹھ بن گئے ہیں اور رہائشی مکانات بن گئے ہیں جبکہ 30 ایکڑز رقبہ ہارٹیکلچر کمپلیکس کے لئے مختص ہے۔ ماضی میں سفاری پارک کے 52ایکڑزپر الہ دین پارک تعمیر کیا گیا تھا جسے گزشتہ سال سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کے تحت مسمار کردیا گیا ہے اور اس جگہ کو بھی سفاری پارک میں شامل کردیا گیا ہے۔

یہ پارک اس شہر کے لوگوں خاص طور پر بچوں کی توجہ کا مرکز ہے جو لوگوں کو معلوماتی اور تفریحی سہولیات فراہم کررہا ہے، شہر کے اہم علاقے میں واقع ہونے کی وجہ سے ہر سال ملک بھر سے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے 20 لاکھ سے زائد افراد سیر کے لئے یہاں آتے ہیں۔