کراچی کو جہاں مختلف اعزازات حاصل ہیں وہیں یہ شہر اپنے جغرافیائی جائے وقوع کی وجہ سے ایشیا کا دروازہ بھی کہلاتا ہے، پاکستان کے سب سے بڑے شہر ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ایک اکنامک حب بھی ہے، معاشی، تجارتی اور اقتصادی طور پر اس شہر کا شمار دنیا کے بڑے شہروں میں کیا جاتا ہے، آبادی کے اعتبار سے بھی یہ شہر کئی ملکوں سے بڑا ہے، غریب پروری اور روزگار کے مواقع بھی پاکستان کے دوسرے شہروں کی نسبت کہیں زیادہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس شہر میں روزبروز آبادی کے دباؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ملک کے مختلف شہروں سے روزانہ کی بنیاد پر لوگ ہجرت کرکے کراچی آتے ہیں اور پھر یہیں کے ہوجاتے ہیں۔
کراچی طویل مدت سے محفوظ بندرگاہ سمجھا جانے والا وہ شہر ہے ،جو انیسویں صدی میں ماہی گیروں کا علاقہ تھا، تاریخ میں اسی حوالے سے اس کا ذکر ملتا ہے، اس شہر کی بندرگاہ آبنائے ہرمز سے لے کر بھارت کی سرحد تک 600 میل طویل ساحلی پٹی کے ساتھ ایک اہم جگہ پر واقع ہے، مثالی محل وقوع کی حامل یہ بندرگاہ جس کے ساتھ یہ عمارت قائم ہے، افغانستان، وسطی ایشیا اور مغربی چین تک اپنی رسائی کے سبب اس خطے کا دروازہ کہلانے کا حق رکھتی ہے، تاریخ دان اس کا حوالہ اس جگہ کے طور پر دیتے ہیں جہاں سے 326 قبل مسیح میں سکندر اعظم کی فوج یونانی جہازوں پر سوار ہوئی تھی، بحیثیت بندرگاہ کراچی کا پہلا ذکر انڈیا کے مغربی ساحل اور خلیج فارس سے متعلق لکھے گئے ایک عربی مقالے میں ملتا ہے، سن1558 ء میں لکھی گئی اس تحریر میں ملاحوں کو بھنور سے دور رہنے کے لئے کراچی کی بندرگاہ سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
پہلا مسلمان فاتح محمد بن قاسم سن 1711 ء بعد مسیح میں کراچی کے قریب دیبل کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا تھا۔1852ء تک کراچی سمندر پار تجارت کے حوالے سے اپنی مستند جگہ بنا چکا تھا، تاہم موجودہ بندرگاہ 1854ء میں وجود میں آنا شروع ہوئی، تقریباً 5 سال بعد منوڑا، کیماڑی، نیپیئر برج، قدیم جیٹی اور چائنا کریک کے بننے کے ساتھ کراچی بندرگاہ کی ابتدائی شکل سامنے آئی،1882 ء میں وہارف کی تعمیر شروع ہوئی اور1914 ء تک مشرقی وہارف اور نیپیئر مول بوٹ وہارف کی تعمیر مکمل ہوئی،1927ء سے 1944 ء تک بندرگاہ کے مغربی وہارف لائٹ ریچ برتھ اور جہازوں کی مرمت کی برتھیں مکمل ہوچکی تھیں۔
1947ء میں پاکستان کے قیام کے بعد ان میں سے بیشتر سہولیات فرسودہ ہوچکی تھیں، لہٰذا آزادی کے بعد بندرگاہ کی انتظامیہ نے اسے جدید خطوط پراستوار کرنے کا کام شروع کیا، اس وقت کراچی بندرگاہ کی گنجائش سالانہ 1.5 ملین ٹن، خشک کارگو اور ایک ملین ٹن پیٹرولیم مصنوعات تھیں، جبکہ اس وقت کراچی پورٹ کی 11.74 ملین ٹن مائع کارگو اور 25.45 ملین ٹن خشک کارگو کی آمدورفت ہے جو ملک کی تقریباً 60 فیصد درآمدات و برآمدات پر مشتمل ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کی عمارت ہمارا قومی ورثہ، ہماری تہذیبی اور ثقافتی علامت کا مظہر بھی ہے، یہ عظیم ا لشان عمارت برصغیر میں برطانوی حکومت کے دور میں قائم ہوئی۔
پہلی نظر میں یہ عمارت ہمیں برطانوی راج کے نشاۃ ثانیہ کی یاد دلاتی ہے لیکن حقیقی معنوں میں یہ برطانوی، ہندو اور گوتھک ثقافتوں کا شاندار امتزاج ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کا ڈیزائن اسکاٹ لینڈ کے ماہر تعمیرات جی ویٹیٹ (G.Wittet) نے تیار کیا تھا ،جو اس وقت بمبئی حکومت کے کنسلٹنٹ تھے، ویٹیٹ پرنس آف ویلز میوزیم اور 1908 ء میں تعمیر ہونے والے گیٹ وے آف انڈیا کے معمار بھی تھے۔
پورٹ ٹرسٹ ، کراچی میں ایڈلجی ڈنشا روڈ پر کاروباری مرکز کے قریب واقع ہے، کراچی کی دو اہم شاہراہیں ایم اے جناح روڈ اور آئی آئی چندریگر روڈ یہیں سے شروع ہوتی ہیں، اسی عمارت کے قریب تاریخی نیٹی جیٹی پل اور میری ویدر ٹاور بھی ہیں اور اس کے قریب ہی کراچی کے قدیم ترین علاقے میٹھادر اور کھارادر ہیں ،سب سے بڑی بات یہ کہ قائد اعظم کی جائے پیدائش وزیر مینشن بھی یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر ہے، جہاں اس عظیم شخصیت نے جنم لیا جس نے مسلمانوں کے لئے ایک آزاد ریاست قائم کی اور برصغیر کی تاریخ کو بدل کر رکھا دیا۔
پورٹ ٹرسٹ کی عمارت 1400 مربع رقبے پر پھیلی ہوئی ہے ،اس عمارت کا ڈھانچہ 1915 ء میں کراچی پورٹ ٹرسٹ کے محکمہ انجینئرنگ کی نگرانی میں ہی مکمل ہوا تھا، اس وقت اس کی تکمیل پر 9 لاکھ 74 ہزار 990 روپے لاگت آئی تھی۔ 5 جنوری 1916 ء کو بمبئی کے گورنر لارڈ ولینگڈن(Lord Willingdone) نے اس عمارت کا باقاعدہ افتتاح کیا، دوسری جانب اس عمارت کا ایک تاریخی پہلو یہ بھی ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران 7 فروری 1916ء سے 6 مئی 1919 ء تک اس کو 500 بستروں کے اسپتال میں تبدیل کردیا گیا تھا۔
عمارت کا رنگ اور اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والا میٹریل نہایت منفرد ہے، یہ زرد رنگ کا پتھر ہے جسے سیپیا کہا جاتا ہے۔ عمارت کا گھماؤ بے مثال ہے جو اسے اس زمانے میں تعمیر کی جانے والی عمارتوں کے مقابلے میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے، درمیانی حصے میں ایک بڑا گنبد ہے ،جو کہ رومن تعمیرات کا مخصوص نشان تھا ،گو کہ اسلامی تعمیرات میں بھی گنبد کو ایک خاص حیثیت حاصل ہے تاہم اس عمارت کے گنبد کی شکل قدرے مختلف ہے۔
عمارت کے دروازے، کھڑکیاں، محرابیں، اونچی اور سبز رنگ کی ہیں جس میں پیلے رنگ کی آمیزش اسے مزید خوبصورت بناتی ہے، عمارت کے بیرونی اور اندرونی حصہ سادہ مگر منفرد ہے، عمارت میں موجود کمرے وسیع اور کشادہ ہیں جن کی چھتیں عام عمارتوں کے مقابلے میں بہت اونچی ہیں، بظاہر یہ عمارت تین سے چار منزلہ نظر آتی ہے مگر عملی طور پر اسے شاندار بنانے کے لئے درمیان میں دو منزلوں کی جگہ رکھی گئی ہے۔ عمارت کا ایک اور دلچسپ پہلو اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والی شیشم کی لکڑی ہے جو انتہائی مہنگی ہوتی ہے،عمارت میں جا بجا اس لکڑی کا استعمال ہوا ہے، کھڑکیوں پر لکڑی کا کام گہرے سبز رنگ سےکیا ہے جو اس کی شان کو دوبالا کرتا ہے۔ عمارت میں داخلہ کا صرف ایک راستہ ہے، جس پر بہت بڑا دروازہ نصب ہے، دونوں جانب دو بڑے لنگر لگائے گئے ہیں۔
دروازہ اپنی بھرپور اور متحرک تاریخ کو بیان کرتی ہوئی وزیٹر گیلری کی طرف لے جاتا ہے، عمارت کی راہ داریوں میں خوبصورت محرابیں رومن انداز تعمیر کی نشانی ہیں، فرش پر سیاہ اور سفید ٹائل لگائے گئے ہیں جنہیں آسانی کے ساتھ صاف کیا جاسکتا اور دھویا جاسکتا ہے۔ عمارت کی لفٹ اصل شکل میں آج بھی موجود ہے،جو گراؤنڈ فلور سے سیدھی چیئرمین کے دفتر کی طرف جاتی ہے جودوسری منزل پر اور گنبد کے عین نیچے واقع ہے، لفٹ میں بھی شیشم کی لکڑی کا استعمال ہوا ہے جو میرٹ اور اسکاٹ لندن کی تیار کردہ ہے اور اس لفٹ کو باقاعدہ نمبر 210412 بھی الاٹ کیا گیا ہے، لفٹ میں چھ افراد بیک وقت سوار ہوسکتے ہیں اور آج بھی یہ لفٹ اسی طرح زیر استعمال ہے۔
دوسری منزل پر ایک وسیع و عریض کمیٹی روم بنایا گیا ہے جو عین مرکزی گنبد کے نیچے ہے ،اس کمیٹی روم میں مختلف نوعیت کی میٹنگز منعقد ہوتی ہیں، اس کے علاوہ لندن کی ایلیٹ برادری کمپنی کی ایک قدیم گھڑی بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ بورڈ روم کے ساتھ ایک بڑا کانفرنس ہال ہے جو چیئرمین کے دفتر کے ساتھ ہی واقع ہے، کے پی ٹی بورڈ اور دیگر تمام اہم اجلاس اسی کانفرنس ہال میں منعقد ہوتے ہیں، دوسری منزل پر تیسرا اہم کمرہ ریکارڈ روم کہلاتا ہے، جسے تمام ریکارڈ اور خفیہ فائلیں رکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ،یہاں 1893 سے لے کر اب تک تمام دستاویزات موجود ہیں۔ کراچی پورٹ پر دن رات مال برادر جہازوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے جن میں ٹینکرز، جدید کنٹینر جہاز، بلک کیریئر اور جنرل کارگو شامل ہیں۔
عمارت کے قریب ہی بندرگاہ پر 30 خشک اور 3 مائع گودیاں ہیں جس میں ایک نجی طور پر کام کرنے والے کنٹینر ٹرمینل کراچی انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل بھی شامل ہے جو مکمل طور پر جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے۔ کراچی پورٹ پر سالانہ 1600 کے قریب جہاز آتے ہیں جبکہ اس کی گنجائش سے کہیں زیادہ ہے اور ابھی تک تقریباً 45 فیصد ہی جگہ استعمال ہوتی ہے، پورٹ سالانہ 26 ملین ٹن کارگو سنبھالتا ہے جس میں 14 ملین مائع کارگو اور 12 ملین خشک کارگو شامل ہیں۔
کراچی پورٹ بہتر ٹرانزٹ اور اسٹوریج سہولیات سے آراستہ ہے جس میں کارگو کی ہینڈلنگ، اسٹوریج اور کلیئرنس کے لئے درکار ریل اور روڈ کی خدمات شامل ہیں، چیئرمین کے پی ٹی کے اسٹاف آفیسر فہد صدیقی کے مطابق، کے پی ٹی میں 4 ہزار 7 سو 48 ملازمین اور 315 افسران کام کر رہے ہیں، پاکستان کی آزادی کے بعد سے کراچی پورٹ پر کارگو انتظامی گنجائش 2.5 ملین ٹن سالانہ سے بڑھ کر موجودہ حجم 38.73 ملین ٹن سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔
سمندر کے ذریعے ملکی مصنوعات کو بیرون ملک برآمد کرنے اور دنیا بھر سے پاکستان، مصنوعات لانے کے لئے کراچی پورٹ ٹرسٹ کی عمارت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ عمارت ایک تاریخی علامت کے طور پر اپنی شکل میں پوری شان شوکت کے ساتھ قائم و دائم ہے جسے ہم پاکستان کی ترقی اور خوشحالی سے تعبیر کرسکتے ہیں۔