یہ حقیقت تو اب محتاج بیان نہیں ہے کہ تاریخ عالم میں متحرک ٹائپ کی ایجاد نے علم و دانش کی دنیا میں ایک ایسا موثر انقلاب برپا کیا جس کے تاثرات نہ صرف یہ کہ دیرپا ہیں بلکہ موجودہ دنیا کی بقا تک باقی رہیں گے۔ علم جو اس سے قبل صرف چند امراء اور سرمایہ داروں کی ملکیت سمجھا جاتا تھا، چاہے وہ بر اعظم چین ہو یا بابل ونینوا کی بستیاں یا یونان و روم کے قصرو گرجا اب اس ایجاد کی بدولت ان چہار دیواریوں سے نکل کر عوام کو اپنی دولت سے مالا مال کرنے لگا ہے۔
چھاپہ خانہ کی تاریخ میں یہ بات اب وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ سب سے پہلے چین میں سن 868 عیسوی کے قریب چھپائی کا آغاز ہوا۔ عربوں نے یہ فن اور کاغذ بنانا چین سے سیکھا اور پھر کافی ترقی دی۔ بغداد اور قاہرہ نے کاغذ بنانے اور نتیجتاً چھپائی کے فن کو فروغ دینے میں اہم حصہ ادا کیا اور جب یہاں تہذیب و تمدن کی رفتار ماند ہونے لگی تو یہ فن پندرھویں صدی میں یورپ منتقل ہوا،جہاں سے سفر کرتا ہوا 556ء میں گوا کے مقام پر ہندوستان میں سکونت پذیر ہوا۔
ہندوستان میں اس کی تاریخ بہت دلچسپ ہے اور قدرتی طور پر فن طباعت کی ترقی و تنزلی، تیز گامی وسست رفتار کا عجیب مرقع ہے جہاں یہ مختلف افراد کی سرگرمی عمل اور مذہبی جوش و ولولہ کی داستان ہے، وہاں یہ ان افراد و اداروں کی نشاندہی بھی کرتی ہے جنہوں نے چھاپہ خانہ کی مخالفت میں اپنی توانائیوں کا سارا زور صرف کردیا، چاہے وہ ہند میں حکام کا طبقہ ہو یا انگلستان کی مجلس قانون سازیہ میں طویل بحثوں کا سلسلہ۔
اردو داں طبقہ کے لیے بالخصوص یہ امر باعث دلچسپی ہوگا کہ آزاد پریس (صحافت)کے خلاف جنگ جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے، برطانوی حکمرانوں اور ہند کے عوام میں ہوئی، در اصل صحیح نہیں ہے بلکہ یہ نبرد آزمائی برطانوی حکمراں طبقہ اور ان چند نہتے غیر ملکی افراد کے درمیان ہوئی جن کا حکومت سے کوئی تعلق نہ تھا،ان میں خاص طور سے مبلغین اور کچھ سرکردہ صحافی تھے،جن میں جیمس سلک بکنگھم و آرنٹ سرفہرست ہیں۔
در اصل برصغیر پاک و ہند میں چھاپہ خانہ کی تاریخ مبلغین کی تاریخ سے وابستہ ہے کیونکہ یہاں چھاپہ خانہ کا آغاز عیسائیت کے فروغ کے ساتھ ہوا لہٰذا اس کو بھی ان تمام نشیب و فراز سے گزرنا پڑا جس سے کہ مبلغین عیسائیت کو سابقہ پڑا، چاہے وہ یسوعی مبلغین ہوں یا بپتستاتی یا امریکی مبلغین عیسائیت، لہٰذا چھاپہ خانہ کی تاریخ اپنے دامن میں اردو داں طبقہ کے لیے بہت ہی اہم اور دلچسپ واقعات کو لیے ہوئے ہے۔
علم بشریات کے ماہرین کا خیال ہے کہ فن تحریر کا وجود میں آنا تاریخ اور قبل از تاریخ زمانے کے بیچ کہیں کوئی فرق تھا ،جس کا مطلب ہوا کہ انسانی تاریخ اسی دور سے شروع ہوتی ہے، لکھنے کے فن نے خیالات کا اندراج ممکن بنایا اور پہلی مرتبہ یہ خیالات اور مشاہدات کتابوں کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچے تھے اس سے قبل قلیل تعداد میں ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابوں کی نقول بھی محدود تعداد میں صرف مذہبی طبقے اور شرفائے معاشر ہ کو دستیاب ہوسکی تھیں۔
گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پرنٹنگ پریس نے بحیثیت مجموعی ناخواند ہ دنیا کو تعلیم یافتہ بنایا، پرنٹنگ پریس کی ابتداء لکڑی کے بلاکس پر ابھرے ہوئے حروف کے ساتھ ہوئی، یہ بلاک ایک فریم کے اندر خاص انداز میں جوڑے جاتے اور پھر ان پر سیاہی لگا کر کسی کاغذ کی شیٹ پر چھا پہ جاتا تھا (آج بھی ایمبرائیڈری پرنٹنگ کے لئے یہی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے اور فریم اٹھاتے ہی اس کی ایک نقل نکل آتی ہے۔
قابل نقل ٹائپ نے انسان کو اس قابل بنادیا ہے کہ وہ کئی افراد کا کام تنہا انجام دے سکے، آج ایک ہی دن میں کوئی بھی اتنا زیادہ کام کرسکتا ہے جسے کرنے کے لئے لکھنے والوں کو پورا سال لکھتے رہنا پڑتا تھا تاہم لکڑی کے بلاکس میں یہ مسئلہ تھا کہ مستقل استعمال کے بعد ان کی شکل خراب ہو جاتی تھی اور نئے بلا کس بنانا پڑتے تھے، یہ مشکل اس طرح حل ہوئی کہ ایک جرمن پرنٹر موجد Johannes Gutenberg نے ڈائی کی مدد سے دھاتی حروف بنائے جو خاصے پائیدار ثابت ہوئے اور ان حروف کوکئی بار استعمال کرنا ممکن ہوگیا، در حقیقت پہلے سے پرنٹ شدہ مواد کی مشینی طریقے سے چھپائی کا یہ طریقہ اتنا مفید تھا کہ اس میں اگلے 500 برس تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ Johannes Gutenberg کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ اس نے 1455ء میں قابل نقل ٹائپ پر نٹنگ پریس ایجاد کیا اور یوں Gutenberg کی تخلیق کو طبع ہونے والی پہلی کتاب قرار دیا گیا، یہ لاطینی زبان میں شائع ہونے والی بائبل تھی جو جرمنی کے شہرمینز میں چھاپی گئی۔
بائبل کی پرنٹنگ کو پہلی کثیر الطبع کتاب بھی سمجھا جاتا ہے جسے مکمل کرنے میں Gutenberg کو دو سال لگے تاہم اس کی اس ایجاد نے نہ صرف پرنٹر کو انفرادی حروف کی ڈائیاں بنانے کے قابل بنایا بلکہ وہ متوازی قطاروں کی شکل میں ان حروف کو ترتیب دینے کے قابل بھی ہو گئے اور یہ ممکن ہوگیا کہ ان حروف کو ملا کر ایک ہی نمونے میں مقفل کردیا جائے، اس نظام کی بدولت پر نٹرز ایک صفحے کی ہزاروں نقول تیار کرنے کے قابل ہو گئے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہو سکا تھا، یوں پہلی مرتبہ کتب کی تیاری میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی، 15 ویں صدی کا عام سا پرنٹنگ پریس اب 5 کتابیں چھاپ سکتا تھا جو اس دور میں ایک بڑی چیز تھی۔جرمن موجد Gutenberg کی ایجاد نے ایک اور مقصد بھی پورا کیا کہ اب لوگ پڑھ سکتے تھے اور اس کے ساتھ ہی ایک دھماکا خیز انقلاب آیا، لوگوں کو اب دیگر لوگوں کے عقائد و خیالات بشمول فلسفیانہ محاذ آرائی اور سائنسی نظریات کے متعلق پتہ چلنے لگا تھا اسی دوران سیکولر اور روحانی سوچ کی ابتداءاور فطری دنیا کی کھوج کا آغاز ہوا۔
16 صدی عیسوی میں پرنٹنگ پریس نے ایک نئی صنعت کی شکل اختیار کر لی، عام طور پر پانچ افرادمل کر کتا بیں چھاپتے اور ان میں سے تین پریس چلاتے ،جبکہ دیگر لوگ حروف کو ترتیب دیا کرتے تھے، مگر یہ کام اب بھی خاصا محنت طلب اور تھکا دینے والا تھا ،کیونکہ ٹائپ کے لئے ڈائیز کوکئی مرتبہ تیار کر نا پڑتا تھا، جس کے نتیجے میں انفرادی ٹائپ میکرز نے یہ کام شروع کر دیا۔
یورپ بھر میں پرنٹنگ کی شروعات کے ساتھ پر نٹنگ کا کام کرنے والے لندن پہنچے مگر ان میں بیشتر لوگ صرف بڑے شہروں سے اپنا کاروبار چلا سکتے تھے تاہم 1563ء میں برطانیہ میں Artificers Act منظور ہوا جس کے تحت اس کام کے لئے درکار ہنر مند افراد کے لئے لازمی تھا کہ وہ اپنی جائے پیدائش پر ہی رہیں اس قانون نے پرنٹنگ کے عمل کو آگے بڑھنے سے روک دیا کیونکہ پرنٹرز کو اب یہ سہولت حاصل نہیں رہی تھی کہ ان لوگوں کی خدمات حاصل کریں جو اس کام میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ایک اور بڑی پیشرفت جو پرنٹنگ انڈسٹری میں ہوئی وہ مختلف اقسام کے ٹائپ کی ایجاد تھی۔ 16 صدی عیسوی کے آخری نصف حصے میں رومن حروف کا استعمال عام ہو گیا اور پھر اس اسٹائل نے پورے یورپ میں گوتھک اسٹائل کی جگہ لے لی۔
بلدیہ کراچی کا چھاپہ خانہ بھی اپنے اندر ایک وسیع تاریخی پس منظر رکھتا ہے، اپنے تجربے، صلاحیت اور کام میں مسلسل مہارت کے ذریعہ یہ ادارہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے جملہ محکموں کی طباعتی ضروریات بہترین انداز میں پوری کررہا ہے۔
1938 ء میں یہ چھاپہ خانہ نشتر روڈ پر واقع ایک بیکری میں قائم کیا گیا، تا ہم 1942ء میں یہ جگہ ایک ماڈل اسکول میں تبدیل ہوگئی، اسی دوران بعض طباعتی مشینیں مطبع کے لئے خریدی گئی تھیں ،جنہیں 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد اس اسکول کے بند ہونے پر بلدیہ کے محکمہ اسٹور کے حوالے کر دیا گیا، محکمہ اسٹور نے کئی سال بعد اس پرانی مشینری کو استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن مکمل طباعتی کام ممکن نہ ہو سکا۔
1957-58ء میں اس محکمہ کی تنظیم نوکر کے پرانی اور زنگ آلود مشینوں کی مرمت کی گئی اور 10 پرانی مشینوں (ماڈل 1938-39ء)کے ساتھ دوبارہ طباعتی کام شروع کر دیا گیا، اس مرتبہ یہ مشینیں آٹو مینک پاور کے ساتھ نصب ہوئیں اور پہلے سے موجود عملے کو ان پرانی مشینوں کو چلانے کے قابل بنانے کے لئے موثر اور بہتر طریقے سے تربیت دی گئی، اس طرح ایک پرانی بیکری اور قدیم ماڈل اسکول رفتہ رفتہ ایک جدید اور عہد حاضر کی ضرورت کے مطابق چھاپہ خانے میں تبدیل ہوگیا۔ بعدازاں مسلسل دن رات کی جدوجہد کے نتیجے میں بلدیہ عظمیٰ کراچی میں محکمہ طباعت کی ترقی و توسیع ہوئی ، 1968 اور 1972 میں چند مزید نئی مشینیں لائی گئیں، اس کے بعد مارچ 1983 میں ایک خود کار ہیڈل برگ پرنٹنگ مشین کے اضافے سے اس چھاپے خانے کی کارکردگی میں مزید نکھار آیا۔
یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یہ پاکستان بھر میں واحد مطبع ہے جو کسی بلدیاتی ادارے کے تحت کام کرتے ہوئے تمام محکموں کی طباعتی ضروریات کو پورا کرتا ہے، اس کو 1953 میں محکمہ اطلاعات وطباعت کے ماتحت لایا گیا تھا اور ایک بار پھر اس کی توسیع عمل میں آئی تھی ،جس کے بعد 67-1966 میں بعض درآمدی مشینری کی تنصیب کے لئے چھاپہ خانے کی عمارت کو مزید وسعت دی گئی اور یوں اس کے قیام سے بلدیہ عظمی کراچی کو اخراجات کی مد میں سالا نہ دولاکھ روپے کی بچت ہونے لگی۔
1948 میں اس چھاپہ خانے کا عملہ صرف سات افراد پر مشتمل تھا جو 1958 میں بڑھ کر 30 افراد تک پہنچا اور پھر 1968 میں عملے کی تعداد 38 ہوگئی۔ کار کردگی میں بہتری آنے کے ساتھ ایسے مختلف قسم کے کام جو پہلے بازار سے مہنگے نرخوں پر لاکھوں روپے خرچ کر کے کرائے جاتے تھے اب بلدیہ عظمیٰ کراچی کے چھاپہ خانہ میں ہونا شروع ہو گئے تھے اس کے ساتھ یہاں بلیک اینڈ وائٹ طباعت کے ساتھ ساتھ رنگین طباعت بھی شروع ہوگئی۔
اس وقت صحت عامہ اور دیگر موضوعات پر جاری مہمات کے متعلق پوسٹرز اور پمفلٹس بھی یہاں چھپنے شروع ہوئے اور ساتھ ساتھ ماہانہ جرنل کراچی میونسپل ریویو بھی شائع ہونے لگا، بلدیہ عظمیٰ کراچی کی کونسل کی کارروائی اور سالانہ میزانیہ کی اشاعت کا بھی مطبع خانے میں آغاز ہوگیا۔
2001ء میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کے قیام کے بعد چھاپہ خانے کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوا اور مختلف اداروں بشمول کے ڈی اے، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی، لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی، کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، محکمہ تعلیم، سوشل ویلفیئر اور دیگر محکموں سے متعلق طباعتی کام بھی اسی مطبع خانے میں ہونے لگا۔
بلدیہ عظمی کراچی کا ماہانہ رسالہ جو پہلے اخبار بلدیہ کے طور پر چھپا کرتا تھا ،دوبارہ سے شہری حکومت کے نام سے شائع ہونے لگا اور اس کی اشاعت مطبع خانے میں انجام دی جانے والی ذمہ داریوں کا حصہ بن گئی۔
2010 ء میں اس وقت کے ایڈ منسٹریٹر بلدیہ عظمیٰ کراچی محمد حسین سید نے کراچی کے متعلق تاریخی، ثقافتی وادبی موضوعات پر کتب کی اشاعت شروع کی اور مختلف مصنفین کی لکھی ہوئی کتا بیں بھی مطبع خانے میں شائع ہونے لگیں۔
2012 ء میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے مطبع خانے میں ایک 65 کلو واٹ گنجائش کا برقی جنریٹر نصب کیا گیا، جس کے بعد سے یہاں طباعتی کام بغیر کسی وقفے کے جاری ہے، یہ مطبع خانہ اپنے وسیع تر تجربے اور ہر قسم کی مشینری کی دستیابی کی بدولت بہترین طریقے سے طباعتی امور انجام دے رہا ہے، توقع ہے کہ بہت جلد نئی اور جدید مشینری اس مطبع خانے کا حصہ بنے گی، جس سے اس کی کارکردگی میں مزید بہتری آئے گی اور بلدیہ عظمی کراچی کے محکموں، اسپتالوں، پارکس اور تفریحی مقامات کی طباعتی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں دیگر محکموں کے طباعتی امور بھی انجام دیئے جاسکیں گے۔