• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے بلدیاتی اداروں میں کراچی کے شہری ادارے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سڑکوں، پلوں، فلائی اوورز، انڈرپاسز اور دیگر بلدیاتی سہولتوں کے ساتھ ساتھ 14 بڑے اسپتال اور ایک میڈیکل کالج بھی چلا رہا ہے، ان میں کئی اسپتال اپنی نوعیت کے اعتبار سے انفرادیت کے حامل ہیں۔

مثلا لیپروسی اسپتال منگھوپیر جذام میں مبتلا مریضوں کے علاج کے لئے واحد سرکاری اسپتال ہے جہاں پاکستان کے مختلف شہروں سے مریض لائے جاتے ہیں، اسپنسر آئی اسپتال لی مارکیٹ آنکھوں کے علاج اور قرینہ کی تبدیلی کے لئے شہرت رکھتا ہے، اس اسپتال کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ سری لنکا سے عطیہ کئے جانے والے قرینوں سے لوگوں کو روشنی عطا کی، اسی طرح سوبھراج میٹرنٹی ہوم برسوں سے زچہ و بچے کو صحت کی سہولیات فراہم کرتا ہے، کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز ایک جانب شہریوں کے دل کے امراض کے لئے امید کی کرن ہے تو دوسری جانب کراچی انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز اسپتال گردے کے مرض میں مبتلا مریضوں کے علاج معالجے میں مصروف عمل ہے۔ 

کراچی کا واحد ہومیوپیتھک اسپتال ناظم آباد بھی ہومیو پیتھک طریقہ علاج کے تحت مریضوں کی خدمت میں مصروف عمل ہے، ان تمام اسپتالوں میں جو شہری ادارے کے زیر انتظام کام کر رہے ہیں مریضوں کا علاج مفت کیا جاتا ہے اور فیس کی مد میں انتہائی معمولی سی رقم وصول کی جاتی ہے، شہری ادارہ کے زیر انتظام ہونے کے ناطے یہ اسپتال خدمت خلق کے جذبے سے تعمیر کئے گئے ہیں، تاکہ کراچی کے شہریوں کو علاج معالجے کی سستی اور بہتر سہولتیں میسر آئیں، کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج پاکستان کے کسی بھی بلدیاتی ادارے کا واحد کالج ہے جہاں کراچی کے طلبا و طالبات کو ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کی تعلیم دی جاتی ہے اور مستقبل کے مسیحا پیدا کئے جاتے ہیں۔

اب ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے نیو چالی میں واقع سرفراز رفیقی شہید اسپتال کو پاکستان کے پہلے ڈیجیٹل اسپتال میں تبدیل کیا گیا ہے، یوں تو یہ اسپتال برسوں سے قائم ہے لیکن ڈیجیٹل اسپتال بنانے کے بعد یہ اپنی نوعیت کا واحد اسپتال بن گیا ہے جہاں چوبیس گھنٹے شہریوں کو گھر بیٹھے مفت آن لائن او پی ڈی اور کنسلٹنسی کی سہولت مہیا کی جا رہی ہیں، 20 اکتوبر 2022 ء کو ایک پروقار تقریب میں اس اسپتال کے قیام کا اعلان کیا گیا اور پرائیویٹ سیکٹر کے اشتراک سے پاکستان کے پہلے ڈیجیٹل اسپتال کی بنیاد رکھی گئی، سرفراز رفیقی شہید اسپتال گو کہ ایک طویل عرصے سے قائم تھا لیکن عدم توجہی کا شکار تھا۔

عوام کے وسیع تر مفاد میں اس اسپتال میں ”فائنڈ مائی ڈاکٹر“ کلینک کے قیام کی اجازت دی گئی تاکہ شہری اس جدید سہولت سے مستفید ہوسکیں، اسپتال میں مختلف بیماریوں کے ماہرین ہوتے ہیں اور کوئی بھی شخص واٹس اپ کال کے ذریعے اپنے مرض سے متعلق مفت کنسلٹنسی لے سکتا ہے، دنیا کے مختلف ممالک میں تو اس قسم کے اسپتال اور کلینکس پہلے سے موجود ہیں لیکن پاکستان میں ایسی کوئی مثال نہیں تھی، کراچی اب وہ شہر بن گیا ہے جہاں یہ سہولت مہیا کردی گئی ہے، مفت کنسلٹنسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف نومبر 2022 میں 28 ہزار سے زائد افراد نے رجو ع کیا، ان میں کراچی کے شہریوں کے علاوہ ملتان، حیدرآباد اور کشمیر کے لوگ بھی شامل تھے جبکہ بیرون ملک جن میں دبئی، کینیا اور موزمبیق شامل ہیں وہاں سے بھی لوگوں نے فون کے ذریعے کنسلٹنسی حاصل کی۔ 

جب کوئی بھی شخص کنسلٹنسی کے لئے دیئے گئے نمبر پر رابطہ کرتا ہے تو دس سے پندرہ منٹ کے اندر اس شخص کو اس کے مرض کے بارے میں نہ صرف تمام تر معلومات فراہم کی جاتی ہیں بلکہ ادویات بھی تجویز کی جاتی ہیں، اس ڈیجیٹل اسپتال سے روزانہ سات سو سے ایک ہزار افراد رابطہ کر رہے اور مفت مشورہ حاصل کر رہے ہیں جس کے باعث انہیں گھر بیٹھے اپنے مرض سے متعلق معلومات حاصل ہوتی ہیں اور اگر ان کی خواہش ہو تو اسی اسپتال سے پندرہ فیصد رعایت کے ساتھ ادویات بھی گھر پہنچا دی جاتی ہیں، اس طرح مریض کراچی جیسے مصروف شہر میں سفر سے بچ جاتا ہے۔ 

کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے باعث مریضوں کو ہزاروں روپے صرف اسپتال آنے اور جانے میں خرچ کرنے پڑتے ہیں، ڈیجیٹل اسپتال کے سی ای او سعد صدیقی کے مطابق تمام ادویات براہ راست متعلقہ ادویات کی کمپنیوں سے منگوائی جاتی ہیں جس کے باعث یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ یہاں پر دستیاب تمام ادویات سو فیصد اصلی ہوتی ہیں، اس لئے مریضوں کو ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ مختلف علاقو ں میں واقع میڈیکل اسٹور سے جعلی ادویات خریدنے سے بچ جاتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق کراچی کے متوسط علاقوں سمیت مضافاتی علاقوں میں بڑے پیمانے پر جعلی ادویات فروخت کی جاتی ہیں، جس کے باعث یہ ادویات کھانے سے بیماری ختم نہیں ہوتی بلکہ دن بہ دن اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

دوسری جانب ادویات خریدنے کے لئے جو رقم خرچ کی جاتی ہے وہ بھی ضائع ہوتی ہے، انہوں نے شہریوں کے بہتر مفاد میں مشورہ دیا کہ ادویات خریدتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ وہ مستند میڈیکل اسٹورسے ہی ادویات خریدیں تاکہ وہ جعلی اور مضر صحت دوائیوں کے استعمال سے بچ سکیں، کراچی میں متعدد اسٹورز ایسے ہیں جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ان کی ادویات مکمل طور پر اصلی ہوتی ہیں کیونکہ یہ اسٹور براہ راست میڈیکل کمپنیوں سے ادویات خریدتے ہیں اگر کسی مریض کو لیبارٹری سے مختلف ٹیسٹ کروانے کی ضرورت ہو تو اس کی بھی سہولت یہاں مہیا کی گئی ہے اور یہ ٹیسٹ 30 فیصد رعایت کے ساتھ کئے جاتے ہیں، ٹیسٹ کے لئے ماہرین مریض کے گھر پہنچ کر نمونہ جات حاصل کرتے ہیں اور ان کی رپورٹ آنے پر واٹس اپ کے ذریعے انہیں بھیج دی جاتی ہیں جبکہ یہی رپورٹ متعلقہ ڈاکٹر کو بھی دی جاتی ہیں تاکہ وہ ان رپورٹس کی روشنی میں اگر ادویات میں کوئی ردوبدل کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ 

ڈیجیٹل اسپتال ٹیلی کنسلٹنسی کے ساتھ ساتھ یہ رپورٹس بھی تیار کر رہا ہے کہ کون سے علاقے میں کونسی بیماری پھیل رہی ہے، بیمار افراد کی عمر کیا ہے، انکم کلاس کیا ہے تاکہ حکومتی سطح پر اگر اس بیماری سے بچاؤ کے لئے اقدامات کئے جائیں تو ان کے سامنے اس علاقے کا پورا ڈیٹا موجود ہو۔ ہر سال پھیلنے والی بیماریاں جن میں ڈینگی، ملیریا، کانگووائرس، ڈائریا، کالی کھانسی اور دیگر امراض کا بھی ڈیٹا تیار کیا جا رہا ہے، تاکہ آنے والے دنوں میں اس بات کی بھی نشاندہی ہوسکے کہ کون سے علاقے کو ان بیماریوں سے بچانے کے لئے فوکس کیا جائے، اسپتال ان ممکنہ وجوہات کا جائزہ بھی لے رہا ہے کہ اگر کسی علاقے میں شوگر کے مریض زیادہ ہیں تو اس کی کیا وجوہات ہیں، قریب میں مٹھائی کی دکانیں ہیں ، کھیلوں کے میدان ہیں کہ نہیں، لوگوں کی کھیلوں میں کس قدر دلچسپی ہے، اس علاقے کے لوگ چہل قدمی کرتے ہیں یا نہیں، ورزش کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور انہیں اپنے علاقے میں کس قسم کی سہولیات میسر ہیں۔

اسی طرح اگر کوئی دوسری بیماری اس مخصوص علاقے میں پھیل رہی ہے تواس کی وجوہات کا بھی تعین کیا جائے، اس طرح بیماریوں کے علاج کے لئے زبردست طریقے سے مدد ملے گی اور وبائی امراض کو بھی پھیلنے سے روکا جاسکے گا۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ صحت سے متعلق اداروں کے پاس کوائف نہ ہونے کی وجہ سے علاقوں کا تعین نہیں ہوتا اور وبائی امراض ایک علاقے سے دوسرے علاقے کی طرف سفر کرتے ہیں، اگر ڈیٹا موجود ہو تو فوری طور پر اسی علاقے کو فوکس کرکے علاج شروع کیا جاسکتا ہے اور کم وقت میں مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ انفارمیشن کسی بھی چیز کی بنیاد ہوتی ہے ۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہم اپنی اور دوسروں کی زندگی کو آسان بنا سکتے ہیں، گھر بیٹھے لوگوں سے رابطہ کرنا اور ان کی مدد کرنا ہمیں جدید ٹیکنالوجی نے بتایا ہے۔ 

2019 ء میں جب کورونا وائرس چین کے ایک شہر سے پھیلنا شروع ہوا تو فوری طور پر اسی شہر کو فوکس کیا گیا لیکن وائرس اس شہر کو فوکس کرنے سے قبل ہی دنیا کے مختلف ممالک پہنچ چکا تھا اور پھر اس وائرس نے دو برس تک پوری دنیا کو متاثر کیا، ایک وقت تو ایسا بھی آیا تھاکہ پوری دنیا کورونا وائرس کے خوف میں مبتلا ہوگئی تھی، پھر تمام ملکوں نے اپنے ایسے علاقوں کو جہاں یہ وائرس زیادہ پھیل گیا تھا فوکس کرکے شہریوں سے درخواست کی کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں، اس وائرس سے پاکستان بھی بری طرح متاثر ہوا تھا، لاکھوں لوگوں کو اس تکلیف سے گزرنا پڑا حکومت کے پاس جب ڈیٹا مکمل ہوا تو پھر ان علاقوں کو فوکس کیا گیا جہاں یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی تھی اور پھر 2022 ء کے وسط تک دنیا نے اس وبائی مرض پر قابو پایا ،کہنے کا مقصد یہ ہے کہ،اگر ہمارے پاس وبائی امراض سے متعلق روزانہ کی بنیاد پر کوائف جمع ہوتے رہیں تو ہم ایسے کسی بھی وائرس کا بہتر طور پر مقابلہ کرسکتے ہیں ،کیونکہ جو وقت کوائف جمع کرنے اور یہ معلوم کرنے میں گزرتا ہے کہ کونسا مرض کس علاقے میں تیزی سے بڑھ رہا اور اس کی وجوہات کیا ہیں تو اس وقت تک وہ مرض پھیل چکا ہوتا ہے، اس کے بعد اس پر قابو پانے کے لئے بڑے پیمانے پر افرادی قوت اور وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔

کراچی بھر میں ہر وہ شخص جس کے پاس اسمارٹ موبائل فون ہے ، وہ ٹیلی کنسلٹنسی کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ سرفراز رفیقی شہید اسپتال میں ڈیجیٹل یونٹ قائم ہونے سے شہر بھر کے ایسے علاقے جہاں پر رسائی ممکن ہے وہاں آن لائن اور او پی ڈی کی سہولت بھی فراہم کی جاسکتی ہے، ہمیں آنے والے دنوں میں ٹیکنالوجی کو بنیاد بنا کر فیصلے کرنا ہوں گے۔

ڈیجیٹل اسپتال کا قیام اس سمت میں ایک بہت بڑا قدم ہے، جو افراد پاکستان کے اس پہلے ڈیجیٹل اسپتال سے مفت کنسلٹنسی حاصل کرنا چاہیں تو وہ واٹس اپ نمبر 0313-55228378 پر اپنے مرض سے متعلق آگاہ کرکے مشورہ حاصل کرسکتے ہیں، کراچی میں پاکستان کے اس پہلے ڈیجیٹل اسپتال کے قیام کے بعد امید کرسکتے ہیں کہ پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی ڈیجیٹل اسپتال قائم کئے جائیں گے تاکہ صحت کے شعبے میں انقلاب برپا کیا جاسکے اور دکھی انسانیت کی خدمت میں ایک قدم اور آگے بڑھا جاسکے۔