کراچی میں مقامی حکومت کے قیام کے لئے بلدیاتی انتخابات 15 جنوری کو منعقد ہوں گے جس میں بلدیاتی نمائندوں کے ساتھ ساتھ، میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب بھی عمل میں آئے گا، مختلف سیاسی جماعتیں بھرپور کوشش کر رہی ہیں کہ اس مرتبہ کراچی کا میئر ان کی پارٹی سے منتخب ہو، پاکستان پیپلز پارٹی، تحر یک انصاف، جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے درمیان زبردست مقابلے کی توقع ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کونسی پارٹی اپنا میئر منتخب کرانے میں کامیاب ہوتی ہے۔
پہلے مرحلے میں صوبہ سندھ کے مختلف شہروں میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا جاچکا ہے ،جبکہ دوسرے مرحلے میں کراچی کے ساتوں اضلاع اور حیدرآباد میں 26 جولائی 2022ء کو منعقد ہونا تھے لیکن ملتوی کردیئے گئے اور پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 28 اگست کو بلدیاتی انتخابات منعقد کرنے کا اعلان کیا لیکن بعض وجوہات کی بناء پر ایک بار پھر ملتوی ہو گئےاور 23 اکتوبر 2022ء کی تاریخ مقرر کی گئی،وجہ یہ بتائی گئی کہ سندھ میں سیلاب آنے کے باعث محکمہ پولیس کے نوجوان متاثر ہ علاقوں میں بھیجے گئے ہیں اور سیکورٹی کے لئے فورس موجود نہیں۔
اب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ، 15 جنوری 2023ء کو بلدیاتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے اور حکومت سندھ نے یہ عندیہ دیا کہ وہ بلدیاتی انتخابات کے لئے تیار ہے۔ کراچی کے شہریوں کو ان انتخاب کے نتیجے میں مقامی سطح پر منتخب نمائندے میسر آئیں گے اوران کے مسائل مقامی نمائندوں کے ذریعے حل ہوں گے۔ بلدیاتی حکومت کے قیام کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کوئی قصبہ ہو یا محلہ، دیہات ہو یا شہر، اس علاقے کےمسائل مقامی سطح پر حل ہوسکیں، اس مقصد کے لئے بلدیاتی انتخابات کے ذریعے نمائندے چنے جاتے ہیں تاکہ مل بیٹھ کر مسائل کو مقامی سطح پر خوش اسلوبی سے حل کیا جاسکے، زیر نظر مضمون میں اس بات کا جائزہ لیں گے کہ کراچی شہر میں بلدیاتی نظام کب اور کتنی بار تبدیل کیا گیا اور اس کے نتیجے میں کتنی بلدیاتی حکومتیں اور کتنے میئر منتخب ہوئے۔
15 جنوری 2023 ء کو ، سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے تحت منعقد کئے جا رہے ہیں اس نظام کے تحت سات ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کو ختم کرکے 25 ٹاؤن میونسپل کارپوریشن بنائی گئی ہیں، جبکہ کراچی کو 246 یونین کمیٹی میں تقسیم کیا گیا ہے، 984 یونین کمیٹی وارڈ بنائے گئے ہیں۔2013 ء کے ایکٹ کے مطابق جو بلدیاتی نظام قائم کیا جا رہا ہے وہ مکمل تبدیل شدہ ہے۔
یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی رہی ہے کہ پاکستان میں بلدیاتی اداروں کو بار بار ختم کیا گیا جس کی وجہ سےان کا تسلسل قائم نہ رہ سکا اور مقامی مسائل مقامی سطح پر حل نہ ہوسکے، اب امید ہے کہ کراچی کے تمام علاقوں میں ترقیاتی کام ہوں گے، شہریوں کے مسئلے مقامی سطح پر حل ہوں گے، شہر کی بہتری اور خوبصورتی میں اضافہ ہوگا اور لوگوں کو بلدیاتی سہولیات میسر آئیں گی۔
قیام پاکستان کے بعد کراچی میں آٹھ مختلف بلدیاتی نظام نافذ کئے گئے۔سب سے پہلے 1960 ء میں فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے زمانے میں میونسپل ایڈمنسٹریشن آرڈیننس نافذ کیا گیا جسے بی ڈی سسٹم کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت 1960ء میں پہلی مرتبہ انتخابات منعقد ہوئے،اس میں دونوں صوبوں مغربی پاکستان اور سابقہ مشرقی پاکستان کو برابر کی بنیاد پر نمائندگی دیتے ہوئے چالیس‘ چالیس ہزار یعنی پورے ملک میں 80ہزار بی ڈی ممبر منتخب کیے گئے۔
دوسری مرتبہ 1965 ء میں اسی آرڈیننس کے تحت انتخابات عمل میں آئے، ان انتخابات میں کراچی کو 94 حلقوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور 1965 ء کے انتخابات میں انہی حلقوں کو برقرار رکھا گیا۔1972ء میں پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس نافذ کیا گیا ،اس میں میئر کی پوسٹ کو ایک بار پھر بحال کردیا گیا لیکن اس آرڈیننس کے تحت کوئی انتخاب عمل میں نہیں آسکا اور سرکاری افسران ہی بلدیاتی ادارے چلاتے رہے۔ 1979ء میں سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس نافذ کیا گیا، خوش قسمتی سے اس آرڈیننس کے تحت دو بار انتخابات منعقد ہوئے اور کراچی کے شہری 1979ء میں صحیح معنوں میں بلدیاتی انتخابات اور اس کے فوائد سے متعارف ہوئے،عام لوگوں کو بلدیاتی نظام سے متعلق معلومات ملیں اور ان کے مقامی سطح کے مسئلے حل ہونا شروع ہوئے۔1979 ء کے آڈریننس کے تحت کراچی کو 145 پنچائیت میں تقسیم کرکے انتخابات کرائے گئے، اسی آرڈیننس کے تحت دوسری مرتبہ 1983ء میں انتخابات عمل میں آئے،اس بار سیٹوں کی تعداد 145 سے بڑھا کر 197 کردی گئیں اور باقاعدہ انتخابات بھی منعقد ہوئے۔
چوتھی مرتبہ ترمیم شدہ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1987ء نافذ کیا گیا، جس کے تحت کراچی میں پہلی مرتبہ تین سطحی نظام نافذ کیا گیا، اسی آرڈیننس کے تحت 1987 ء میں انتخابات عمل میں آئے جس کے مطابق کراچی میں ایک بلدیہ عظمیٰ کراچی اور ہر ضلع میں زونل میونسپل کمیٹی (ZMC) اور علاقوں کی سطح پر یونین کمیٹیز قائم کی گئیں ،اس طرح کراچی ملک کا وہ واحد شہر تھا جہاں تین سطحی بلدیاتی نظام قائم ہوے، کراچی اس وقت چار اضلاع پر مشتمل تھا لہٰذا بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ساتھ ساتھ چار زونل میونسپل کارپوریشنز بھی قائم کردی گئیں اور ہر زونل میونسپل کارپوریشن کے ایک تہائی ممبر بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ممبر بنائے گئے، اس طرح یہ بلدیاتی نظام 13 اگست 2001 ء تک نافذ رہا۔
پانچویں مرتبہ کراچی میں سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001 ء نافذ کیا گیا،یہ اس وقت کے صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے دور میں نافذ کیا جانے والا بلدیاتی نظام انتہائی وسیع اختیارات پر مشتمل تھا جس میں بلدیاتی اداروں کوبہت زیادہ اختیارات دیئے گئے، کراچی سمیت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ قائم کی گئیں اور بہت سے ادارے اور محکمے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ میں ضم کردیئے گئے، کمشنری نظام کے تحت ڈپٹی کمشنر کو حاصل اختیارات ان سے لے لئے گئے اور ڈپٹی کمشنرز کو سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ میں ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر بنا کر بھیج دیا گیا، ادارہ ترقیات کراچی، ادارہ فراہمی و نکاسی آب، محکمہ ریونیو، محکمہ تعلیم، محکمہ سماجی بہبود اور دیگر کئی اداروں کو سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی میں ضم کردیا گیا، منتخب ہونے والے میئر کو گزٹ نوٹیفکیشن شائع کرنے، دفعہ 144 نافذ کرنے، محکمہ پولیس سے رپورٹ طلب کرنے سمیت انتہائی اہم نوعیت کے اختیارات دیئے گئے، یہ انتہائی کامیاب بلدیاتی نظام تھا جس کے تحت کراچی نے تیزی کے ساتھ ترقی کا سفر شروع کیا ، سڑکیں، فلائی اوورز، انڈرپاسز، پارکس، کھیل کے میدان، پانی و سیوریج کے نظام کی بہتری سمیت متعدد کام کئے گئے۔
صوبے سندھ کے بلدیاتی نظام میں چھٹی مرتبہ پھر تبدیلی کی گئی،کراچی میں تو 2001 ء کا آڈریننس ہی برقرار رکھا گیا لیکن صوبے کے بقیہ شہروں میں 1979 ء کا نظام نافذ رہالیکن اس سسٹم کے تحت نہ تو کوئی انتخاب ہوا اور نہ ہی کوئی کونسل وجود میں آئی، ساتویں مرتبہ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012 ء نافذ کردیا گیا جو کم و بیش 1979ء کے طرز کا نظام تھا، اس سسٹم کے تحت بھی نہ تو انتخابات ہوئے اور نہ ہی کوئی کونسل معرض وجود میں آئی، سرکاری افسران کو ہی بلدیاتی حکومتوں کا سربراہ بنایا جاتا رہا۔
کراچی میں آٹھویں مرتبہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 ء کا نفاذ عمل میں لایا گیا جو اپنی جملہ ترامیم کے ساتھ اس وقت بھی نافذ ہے،اس ایکٹ میں وقتاً فوقتاً سہولت اور ضرورت کے مطابق ترامیم کی جا رہی ہیں، اس ایکٹ کے تحت جو بلدیاتی انتخابات 2009-10ء میں منعقد ہونا تھے اب 15 جنوری کو منعقد کئے جا رہے ہیں، اس نظام کے تحت اب کراچی میں ایک میٹروپولیٹن کارپوریشن، 25 ٹاؤن میونسپل کارپوریشنز اور 246 یونین کمیٹی کے لئے نمائندے منتخب کئے جائیں گے، کراچی کے ساتواں اضلاع میں ٹاؤن بنائے جا رہے ہیں، ہر ضلع میں ان ٹاؤنز کی تعداد الگ الگ ہے۔
ضلع وسطی میں پانچ ٹاؤنز ہوں گے جن میں گلبرگ، لیاقت آباد، ناظم آباد، نیو کراچی اور نارتھ ناظم آباد ٹاؤنز شامل ہیں، ضلع غربی میں تین ٹاؤنز بنے گئے جن میں منگھوپیر، مومن آباد، اورنگی ٹاؤنز شامل ہیں، ضلع جنوبی میں دو ٹاؤنز لیاری اور صدر ٹاؤنز ہوں گے، ضلع شرقی میں پانچ ٹاؤنز بنے گے جن میں سہراب گوٹھ، صفورہ، گلشن اقبال،جناح اور چنیسر ٹاؤنز شامل ہیں، ضلع ملیر میں تین گڈاپ، ملیر، ابراہیم حیدری ٹاؤنز اور ضلع کورنگی میں چار ٹاؤنز کورنگی، لانڈھی، ماڈل کالونی، شاہ فیصل شامل ہیں، ضلع کیماڑی میں تین ٹاؤنز بلدیہ، ماڑی پور، موریرو میر بہادر ٹاؤنز ہوں گے۔
اس طرح کراچی میں ایک بار پھر تین سطحی نظام قائم ہوگا اور بلدیاتی اداروں کے لئے منتخب ہونے والے ممبران کراچی کے گوں ناگوں مسائل کو حل کرنے کے لئے کوشاں ہوں گے، کراچی ایک بین الاقوامی ساحلی شہر ہونے کے ناطے انتہائی اہمیت کا حامل ہے،دنیا بھر میں کراچی کے میئر کو انتہائی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے،مختلف بلدیاتی نظام کے تحت اب تک 25 شخصیات میئر کراچی کے طورپر اپنے فرائض انجام دے چکی ہیں اور اب 26 ویں میئر کا انتخاب ہونے جا رہا ہے، مختلف ادوار میں 28 ایڈمنسٹریٹرز بھی تعینات کئے گئے جن میں سے 23 ایڈمنسٹریٹرز کا تعلق سرکاری ملازمت سے تھا،دو ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر ریٹائرڈ پی بی گیلانی اور بریگیڈیئر ریٹائرڈ عبدالحق کا تعلق آرمی سے اور تین ایڈمنسٹریٹر سیاسی جماعتوں سے وابستہ تھے۔
1947 ء میں قیام پاکستان کے وقت حکیم محمد احسن کراچی کے میئر تھے، انہیں یہ اعزاز حاصل ہوا کہ 25 اگست 1947 ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کے اعزاز میں پہلا شہری استقبالیہ منعقد کیا، جس میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان بھی تشریف لائے اور حکیم محمد احسن نے قائد اعظم محمد علی جناح کو خطبہ استقبالیہ پیش کیا اس موقع پر بلدیہ کو درپیش خاص خاص مسائل بھی قائد اعظم کے سامنے پیش کئے۔
قیام پاکستان کے بعد کیونکہ ہندو برادری کی اکثریت کراچی سے باہر منتقل ہوگئی تھی جس کے باعث کراچی میونسپل کارپوریشن کی افادیت تقریباً ختم ہوچکی تھی اس لئے 8 جولائی 1948 ء کو یہ فیصلہ کیا گیا کہ کراچی میونسپل کارپوریشن کی منتخب کونسل کو ختم کردیا جائے۔
1933 ء کے ایکٹ کے سیکشن (2) 280 کے تحت حکومت کراچی میونسپل کارپوریشن اور اسٹینڈنگ کمیٹی کے فرائض انجام دینے کے لئے کسی بھی شخص کا تقرر اور ان کی معاونت کے لئے ایک ایڈوائزری کمیٹی قائم کرنے کی مجاز تھی چنانچہ حکومت نے 20 جولائی 1948ء کو حکم محمد احسن کی سربراہی میں جو اس سے قبل میئر کراچی کے عہدے پر فائز رہ چکے تھے ایک ایڈوائزری کمیٹی قائم کی اور 23 جولائی 1948ء کو کارپوریشن اور اسٹیڈنگ کمیٹی کے فرائض انجام دینے کے لئے جناب اے اے انصاری کو میونسپل کمشنر مقرر کیا۔
جنہوں نے یکم نومبر 1950 ء تک اس عہدے پر اپنے فرائض انجام دیئے۔ 27 فروری 1949ء کو جناب غلام علی الانہ ایڈوائزری کمیٹی کے چیئرمین کے عہدے پر فائز ہوئے اور 16 اکتوبر 1952 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ یکم نومبر 1950 ء کو جناب آر اے ایف ہاؤرائیڈر (Mr.R.A.F.Howoroyd) جو سی ایس پی سروس سے تعلق رکھتے تھے میونسپل کمشنر مقرر کیا گیا اور 28 مئی 1953 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
کراچی میں 1953ء میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے بلدیاتی انتخابات ہوئے اور فروری 1954ء میں 100 کونسلروں پر مشتمل پہلی منتخب کارپوریشن قائم کی گئی۔جناب محمود اے ہارون میئر اور جناب محمد حبیب اللہ کو ڈپٹی میئر منتخب کیا۔ 26 مئی 1955 ء کو جناب ملک باغ علی میئر منتخب ہوئے اور 29 مئی 1956 ء تک میئر کے عہدے پر فائز رہے۔ 29 مئی 1956 ء کو جناب صدیق وہاب کراچی میونسپل کارپوریشن کے میئر منتخب ہوئے اور 14 دسمبر 1956ء تک میئر کے عہدے پر فائز رہے۔
اسی روز بلدیہ کی منتخب کونسل کو ختم کردیا گیا اور 15 دسمبر 1956 ء کو حکومت نے جناب الطاف گوہر کلکٹر و ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کراچی کو میونسپل کمشنر کے عہدے پر مقرر کیا اور 21 جنوری 1957ء تک وہ اس عہدے پر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ حکومت نے جناب سردار اے کے گبول کی چیئرمین شپ میں 15 دسمبر 1956 ء کوپندرہ رکنی ایڈوائزری کمیٹی بنائی تاکہ وہ بلدیہ کے مختلف امور پر مشاورت کے ساتھ ساتھ ان کی نگرانی بھی کرے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تمام تر دباؤ کے باوجود کراچی میں 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے، ان میں وہ علاقہ جات شامل نہیں ہیں جو کنٹونمنٹ بورڈ کے زیر انتظام آتے ہیں، بلدیہ عظمیٰ کراچی کی سٹی کونسل میں ارکان کی تعداد مجموعی طور پر 367 ہوگی،246یوسی چیئرمین کے ایم سی کی کونسل کے ممبر ہوں گے، خواتین ممبران کی تعداد81، لیبر 12، نوجوان 12، اقلیتی ممبران 12، خصوصی افراد 2 اور خواجہ سرا ؤں کے 2 ممبران کو کونسل ممبران اپنے ووٹوں سے منتخب کریں گے، مجموعی طور پر یہ 367 ممبران میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب کریں گے۔
1932ء سے2016 تک بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں بننے والی کونسل کے لئے، کے ایم سی بلڈنگ میں واقع ہال میں متعدد بار ردو بدل کیا گیا اور کونسل کے ممبران کے بیٹھنے کے لئے گنجائش نکالی جاتی رہی، آخری بارکونسل ہی تزئین و آرائش 2016 ء میں کی گئی اور 309 ممبران کے بیٹھنے کے لئے نشستوں میں اضافہ کیا گیا، بلدیہ کا کونسل ہال 1932ء میں تعمیر کیا گیا تھا جس کی نشستوں میں وقتاً فوقتاً اضافہ ہوتا رہا،کے ایم سی بلڈنگ کی پہلی منزل پر واقع کونسل ہال اس وقت کی ضرورت کے پیش نظر تعمیر ہوا تھا، آبادی کے ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً منتخب نمائندوں کی نشستوں میں اضافہ ہوتا رہا اور اس ہال میں ردوبدل کے ساتھ نشستوں کی گنجائش نکالی جاتی رہی۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کو 1933ء میں میونسپل کارپوریشن کا درجہ دیا گیا تو نشستوں کی تعداد 57تھی اور ہال میں کافی گنجائش تھی، 1953ء بلدیاتی نشستوں میں اضافہ کر کے 100 کردیا گیا، 1960ء میں بلدیاتی نظام میں پھر تبدیلی ہوئی تو نشستوں کی تعداد کو کم کر کے 58کیا گیا، 1966ء میں پھر ان میں اضافہ کر کے 103کر دیا گیا۔1979ء میں ملک میں ایک تبدیل شدہ بلدیاتی نظام نافذ ہوا تو کراچی میں بلدیاتی نشستوں کی تعداد 166ہوگئی، جس کے لیے ہال میں گنجائش موجود تھی، اگلے انتخابات 1983ء میں منعقد ہوئے تو نشستوں میں اضافہ ہوا اور تعداد 232 ہوگئی اس کے لیے ایک بار پھر اس کونسل میں رد وبدل کیا گیا۔
2001ء میں نیا بلدیاتی نظام متعارف کروایا گیا تو بلدیہ عظمیٰ کراچی کی کونسل کے لیے 255ممبر منتخب کیے گئے، 2016 کے بلدیاتی انتخابات میں ان ممبران کی تعداد بڑھ کر 309 ہوگئی تھی اس کونسل کی مدت 30 اگست 2020 کو مکمل ہوگئی۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی بلدیہ عظمیٰ کے منتخب کونسل کے لئے کراچی میں کسی مناسب جگہ پر آئندہ کی ضروریات کے پیش نظر کونسل ہال تعمیر کیا جائے جس میں کم و بیش 500 ممبران کے بیٹھنے کی گنجائش کے ساتھ ساتھ میئر، ڈپٹی میئر اور میونسپل کمشنر کی نشستوں کے لئے بھی جگہ مختص ہو، جبکہ میڈیا کے نمائندوں، مہمانوں کے لئے خصوصی گیلریاں،ضروری دفاتر،کیفے ٹیریا، پارکنگ اور دیگر ضروریات کے لئے بھی جگہ موجود ہو تاکہ کراچی کی خدمت پر مامور منتخب بلدیاتی نمائندوں کی آئندہ کی ضروریات بھرپور طریقے سے پوری ہوسکیں۔