میں کتابوں کے دوکان میں جس شخص کے ساتھ کھڑا ہوں یہ ’’عباسی کتب خانہ جھونا/جونا مارکیٹ ‘‘کے مالک حبیب حسین عباسی ہیں۔آج اس تاریخی کتب خانہ پر بات کرینگے،میرے والد صاحب سبزی منڈی میں کام کرتے تھے اور اس کی رہائش لیمارکیٹ میں تھی، کیونکہ لی مارکیٹ کراچی کے مضافات، ٹھٹھ اور لسبیلہ کے لوگوں کاایک کاروباری مرکز تھا اور اب تک ھے۔ ان علاقوں کے لئے بسیں یہاں سے چلتی تھیں اور آج بھی چلتی ہیں۔ اس لیئے لی مارکیٹ اور جونا مارکیٹ عیدین کے علاوہ دوسری تقریبات، شادی بیاہ کی خریداری کے مرکز تھے، ساتھ ساتھ کریم اسٹوڈیو میں تصاویر کھچوانے کی سہولت تھی،بلوچی اور سندھی کے گانوں کے کیسٹ ملتےتھے۔ مارکیٹ میں مختلف بک شاپس تھیں، جن میں عباسی کتب خانہ اور مکتبہ اسحاقیہ مشہور تھے۔
جونا مارکیٹ کوئی جائے اور پھول چوک پر کھتری کا حلوہ نہ کھائے ،یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی جونا مارکیٹ کے تاریخی کتب خانہ کی ، کہاں سے کہاں نکل گئی۔ میں اکثر کالج کے دنوں میں والد صاحب کے ساتھ عباسی کتب خانہ آتا تھا۔والد صاحب نے لی مارکیٹ کیا چھوڑی ھم نے بھی یہاں آنا بند کردیا،جب میں اپنی کتاب "کراچی سندھ جی مارئی"کے سیکنڈ ایڈیشن کی تیاری کر رہا تھا ،تو میرے ذہن میں عباسی کتب خانہ کا خیال آیا تو میں اپنے دوست نذیر کاکا کے ساتھ جونا مارکیٹ دودھ والی گلی (اب یہاں دودھ کی کوئی دوکان نہیں ہے)، عباسی کتب خانہ پہنچا وہاں حبیب صاحب سے ملاقات ہوئی تو ہم ماضی میں کھوگئے، ان کے ساتھ جو بات چیت ہوئی اس کا لب لباب کچھ یوں ہے۔
"1910 میں ایک ہندو نے اسی جگہ اسٹیشنری کی دوکان کھولی،وہ حبیب حسین کے نانا غلام عباس دائود کا مقروض ہوا،1920 میں،قرض کے عوض ہندو دکاندار نے دوکان غلام عباس کو دے دی۔ غلام عباس کی بیٹی کی شادی عبدالرسول گجراتی سے ہوئی تو یہ دوکان 1928 میں غلام عباس نے اپنے داماد عبدالرسول کے حوالے کردی ۔ عبدالرسول اصل میں گوالیار کے تھے، مزدوری کے لیئے کراچی کا رخ کیا۔1928 میں دوکان کا نام تبدیل کرکے "عباسی کتب خانہ “ رکھ دیا اور اسٹیشنری کے ساتھ ساتھ یہ دوکان کتب خانہ کے نام سے مشہور ہوگئی۔ عبدالرسول نے یہاں پر عباسی اسٹریم پریس کے نام سے ایک چھاپہ خانہ بھی کھولا ،اور اس کو ادبی بیٹھک بنا دیا۔
1988 میں عبدالرسول کے انتقال کے بعد ان کےبیٹے،حبیب حسین عباسی اس کتب خانہ کو چلا رہے ہیں۔ کتب خانہ کو شرف حاصل ہے کہ یہاں پر مرزا قلیچ بیگ، فیض احمد فیض،پیر حسام الدین راشدی،مجید لاھوری، ڈاکٹر عمر بن دائود پوتا، علام رشید ترابی، عقیل ترابی، حفیظ ہوشیارپوری، مولانا غلام مصطفی قاسمی، علی احمد بروھی، حاجی مولا بخش سومرو، علی احمد تالپور، مخدوم طالب المولی، دین محمد وفائی، اور بہت سارے ادیب، دانشور، تاریخ دان اکثر آتے تھے۔ یہ کراچی سمیت سندھ کے دوسرے اضلاع سے آئے ھوئے ادیبوں اور دانشوروں کا ایک مقبول بیٹھک تھا۔ چھپائی کا کام 1930 میں شروع کیا گیا، یہ سلسلہ اب تک جاری ھے،۔13 مارچ 1963 کو دمشق یونیورسٹی شام کے وائس چانسلر’’شیخ المنتصر الکتانی‘‘ بھی اس کتاب گھر میں تشریف لائے تھے۔"
جونا مارکیٹ سے متصل کھوڑی گارڈن ہے، جس کانام انگریز دور میں تبدیل کرکے “ارکسن گارڈن “رکھا گیا ،لیکن یہ نام چل نہیں سکا، اس کو کھوڑی میدان اس لیے کہتے ہیں کہ پرانے زمانوں میں جب تجارتی قافلے یہاں آتے تھے تو اونٹوں کو باندھنے کی جگہ تھی،جسے سندھی میں ’’ان جي کوي‘‘ کہتے ہیں۔ اردو بازار میں بک شاپ اور چھپائی کام شروع ہوا تو جونا مارکیٹ کی کتابوں کی دوکانوں کا کاروبار ماند پڑ گیا، مکتبہ اسحاقیہ اور دوسرے ادارے جونا مارکیٹ سے اردو بازار منتقل ہوگئے، یہ تاریخی ورثہ حبیب حسین عباسی کی وجہ سے یہیں رہا، بقول ان کے جب تک وہ زندہ ہیں یہ اسی جگہ رہے گا، جس جگہ 1910 میں قائم ہوا تھا۔ اب اس کتاب گھر کو قائم ہوئے 108 سال ہوچکے ہیں۔ دعا ہے کہ ہماری یہ تاریخ اور یہ تاریخی ورثہ ہمیشہ قائم رہے۔