20 اپریل 2024کو”ساکنان شہر قائد“ میں29ویں عالمی مشاعرے کا انعقاد ہوا۔یہ سالانہ عالمی مشاعرہ اب تک پاکستان کے کسی اور شہر میں نہیں ہوا کراچی کی پہچان بن گیا ہے۔ ایسا عظیم الشان مشاعرہ، اب تک پاکستان کے کسی اور شہر میں نہیں ہوا، جس میں سامعین کی تعداد، دس ہزار سے بھی تجاوز کر جائے۔ آج سے 28 برس پہلے اظہر عباس ہاشمی(مرحوم) نے جو پودا لگایا تھا، اب اس نے ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرلی ہے۔ دنیائے ادب کا کوئی ایسا اہم شاعر نہیں، جسے عالمی مشاعرے میں مدعو نہ کیا گیا ہو۔
شروع کے دس، بارہ عالمی مشاعروں تک، ان شعراء نے نظامت کی، جو خود بھی درجہ استادی پر فائز تھے۔ مثلاََ: راغب مراد آبادی، حمایت علی شاعر، امید فاضلی، شبنم رومانی، پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، نصیر ترابی، شاہدہ حسن اور نقاش کاظمی۔یہ شعراء سینیئر ہونے کے باوجود مشاعروں کی دیرینہ روایت کے مطابق، اپنے کلام سے محفل کا آغاز کرتے تھے، لیکن آج کے نظامت کار اپنے مقام کا تعین خود کرتے ہیں۔
پہلے کے مشاعروں میں اسٹیج پرسفید چادریں بچھائی جاتی تھیں اور شعراء کے لیے گاؤ تکیوں کا اہتمام کیا جاتا تھا، اب کرسیاں لگائی جاتی ہیں، برزگ شعراء کی مجبوری ہے کہ وہ نیچے نہیں بیٹھ سکتے۔اس سہولت کے باعث، جوان اور نوجوان شعراء بھی ”صاحبِ کرسی“ ہو جاتے ہیں۔ اب داد کی جگہ تالیوں نے لے لی ہے۔ یہ بھی شعراء کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا ایک انداز ہے۔ یعنی اب مشاعروں کا تسلسل اپنی تہذیبی روایات کو زندہ نہیں رکھے ہوئے ہے۔
”ساکنان شہر قائد“ کے عالمی مشاعروں کا تسلسل برقرار رکھنا محمود احمد خان کا تاریخی کارنامہ ہے۔ جیسے ہی عالمی مشاعرے کا دعوت نامہ فیس بُک پر لگا، مخالفتوں کا درباز ہو گیا ، یہ بات کتنی عجیب ہے کہ جن شعراء کو مشاعرے میں مدعو نہیں کیا جاتا وہ منتظمین کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں، اتنے بڑے شہر سے چند شعراء کا انتخاب کرناواقعی ایک مشکل مرحلہ ہے۔منتظمین کی بھی کچھ مجبوریاں اور ترجیحات ہوتی ہیں، مشاعرے کی تیاروں سے انعقاد تک بلا شبہ منتظمین کی خدمات لائق تحسین ہیں،جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جو آخری وقت تک مصروفِ عمل رہے۔
20اپریل کو منعقد ہونے والا ”ساکنان شہر قائد“ کا عالمی مشاعرہ کئی اعتبار سے اہم تھا، شہر کی کوئی شاہراہ ایسی نہیں تھی جہاں عالمی مشاعرے کے بینر آویزاں نہ کیے گئے ہوں۔ مشاعرے کی کامیابی کے لیے بڑے منظم انداز میں مہم چلائی گئی۔ٹی وی چیلنز اور اخبارات کے علاوہ سوشل میڈیا نے بھی اس سلسلے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ حسنِ انتظام کی جتنی داد دی جائے کم ہے۔
ایکسپو سینٹر میں کھلی جگہ پر وسیع و عریض پنڈال بنایا گیا تھا۔ اسٹیج زیادہ اونچا نہیں تھا، شاعر اور سامعین کے درمیان کم فاصلے کے باعث مشاعرہ بنتا چلا گیا۔ مشاعرہ گاہ میں قالین اور گاؤ تکیے، مہمانوں کے منتظر تھے۔ ایسے لوگوں کے لیے کرسیاں لگائی گئی تھیں جن کے لیے زمین پر بیٹھنا باعثِ تکلیف ہوتا ہے، اس دن ایکسپو سینٹر کا احاطہ کسی نئی بستی کا منظر پیش کررہا تھا۔
پنڈال میں کراچی کے معروف اشاعتی اداروں نے کتابوں کے اسٹال لگائے ہوئے تھے، جن پر لوگوں کا ہجوم اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ کراچی، لکھنے، پڑھنے والوں کا شہر ہے۔چائے اور اشیائے خورد نوش کے اسٹالوں پر عوام کی آمدو رفت کا سلسلہ آخری وقت تک جاری رہا۔گاڑیوں کی پارکنگ کا بھی معقول انتظام تھا، کوئی شکایت سامنے نہیں آئی۔خواتین و حضرات کے لیے ایمرجنسی بیت الخلاء، کی سہولت بھی فراہم کی گئی تھی۔
پنڈال میں داخل ہونے کے لیے جو راستہ بنایا گیا تھا اس کے ایک طرف ”ساکنان شہر قائد“ کے بنیاد گزاروں کی تصاویر، دوسری جانب ان شعرائے کرام کی تصاویر جو عالمی مشاعروں میں شریک ہوتے رہے۔ سامعین کی تعداد قابلِ رشک تھی ہر طرف سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ میلے کا سماں تھا۔ خوش گوار ماحول اور مسکراتے چہروں کی آمدو رفت سے پنڈال کی فضاء جگما رہی تھی۔ دورانِ مشاعرہ لوگوں کو ٹولیوں کی صورت میں بیٹھا دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، یوں لگا جیسے ایک ہی خاندان کے بچھڑے ہوئے لوگ یکجا ہو گئے ہوں۔بلا شبہ اس عالمی مشاعرے نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔
مشاعرے کی صدارت اردو کی معتبر شخصیت شاعر افتخار عارف نے کی جب کہ گورنر سندھ، کامران خان ٹیسوری بحیثیتِ مہمانِ خصوصی شریک ہوئے۔ ڈاکٹر عنبریں حسیب عنبر، وجیہ ثانی اور آغا شیرازی نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ ناظمین کے درمیان مقابلے کی فضاء آخری وقت تک قائم رہی ۔ اگر نظامت کار طویل گفتگو سے گریز کرتے تو مشاعرہ ایک گھنٹہ قبل ختم ہو جاتا، مشاعرے کا آغاز ساڑھے دس بجے شب کیا گیا، جو بغیر کسی وقفے کے صبح 5 بجے تک جاری رہا۔
تلاوتِ کلامِ پاک اور نعت کے بعد ”ساکنا ن شہر قائد“ کے منتظمِ اعلیٰ محمود احمد خان نے خطبئہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے بزرگوں کی روایتوں کا امین ہوں ان کے نام اور کام کو آگے بڑھانا میری اخلاقی ذمہ داری ہے جو میں ادا کر رہا ہوں۔ میں کبھی دلبرداشتہ نہیں ہوا اور نئے جذبوں کے ساتھ آگے بڑھتا رہا، خدا نے مجھے سرفرازی دی اور میں اپنے مشن میں کامیاب ہو گیا۔
انہوں نے کہا کہ میں گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی میرا مان رکھا اور آج ہمارے درمیان موجود ہیں۔میں ان سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کا بھی ممنون ہوں کہ جنہوں نے مشاعرے کے سلسلے میں بھرپور تعاون کیا۔ شعراء تو ہماری اس محفل کی جان ہیں، وہ نہ ہوں تو اس محفل کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، سامعین کے بغیر کوئی محفل اپنا جواز نہیں رکھتی۔
میں شعرائے کرام اور سامعین کا احسان مند ہوں کہ انہوں نے ہماری اس محفل کے وقار میں اضافہ کیا۔ مہمانِ خصوصی گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے اپنے خطاب میں کہا کہ کراچی ایک تہذیبی شہر ہے، جس کی تمام روایتیں زندہ دلی سے عبارت ہیں یہ شہر گہوارئہ علم و ادب تھا، ہے اور رہے گا۔جو ادارے اور شخصیات ہماری تہذیبی اقدار کوزندہ رکھے ہوئے ہیں ان میں ”ساکنان شہر قائد“ کا کردار لائقِ تحسین ہی نہیں قابلِ تقلید بھی ہے، کسی روایت کو جاری رکھنا کوئی معمولی بات نہیں میں ”ساکنان شہر قائد“ کے منتظمِ اعلیٰ اور ان کے رفقائے کار کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے اسلاف کی روایت کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
اس شہر میں عالمی مشاعرے کا نعقاد اردو زبان اور علم و ادب کے فروغ کا ایک وسیلہ ہے۔ یہ بات میرے لیے باعثِ اعزاز ہے کہ آج میں دنیائے ادب کے تابندہ ستاروںکے درمیان بیٹھا ہوں۔ مشاعرے میں سامعین کی اتنی بڑی تعداد اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ ہمارا کھویا ہوا وقار بحال ہو رہا ہے، نوجوانوں کا ذوقِ سماعت بھی دیدنی ہے۔ میں اس کامیاب مشاعرے کے انعقاد پر محمود احمد خان اور ان کی پوری ٹیم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اس موقع پر گورنر صاحب نے مختلف شعراء کے اشعار بھی سنائے۔
عالمی مشاعرے میں مقامی شعراء کے علاوہ چاروں صوبوں کے نمائندہ شعراء شریک ہوئے۔ امریکا، کینیڈا، بھارت، جرمنی، فرانس اور عرب امارات کے شعراء نے بھی کلام سنایا۔ ٹھیک 12بجے نہایت ادب و احترام سے پاکستان کا قومی ترانہ سنایا گیا اس گھڑی پورے پنڈال میں پاکستان کے قومی پرچم لہرا رہے تھے، یہ ایک اچھی روایت ہے جس کی تقلید کی جانی چاہیے، اس مشاعرے میں سامعین کا ذوقِ سماعت دیدنی تھا۔ ہر ایک شعر پر کُھل کر داد دی گئی، اور کمزور اشعار پر سکوت اختیار کر لیا گیا۔
بھارت سے آئے ہوئے شاعر راجیش ریڈّی کو کو جب کلام پیش کرنے کے لیے دعوت دی گئی تو سامعین سے کچھا کچھ بھرا پنڈال ان کے استقبال کے لیے اپنی نشستوں سے کھڑا ہو گیا اور کچھ دیر تک تالیاں بجا کر ان کی پہلی مرتبہ پاکستان آمد پر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
عموماََ دیکھا گیا ہے کہ جب سینیئر شعراء کی باری آتی ہے تو پنڈال تقریباََ خالی ہوچکا ہوتا ہے، اس مرتبہ آخر تک باذوق سامعین موجود رہے۔ اس عالمی مشاعرے میں جن شعراء کرام نے کلام سنایا ان میں خالد عرفان اور فرح اقبال (امریکا)، عاطف توقیر(جرمنی)، محبوب خان محبوب(امریکا)، راجیش ریڈّی (بھارت)، سمرین ندیم ثمر(قطر)، تابش زیدی(متحدہ عرب امارات)، افتخار عارف اور شکیل ضاذب (اسلام آباد)، ڈاکٹر خورشید رضوی، عباس تابش، وصی شاہ، رحمان فارس(لاہور)، احمد حسین مجاہد(بالاکوٹ)، احمد عطا اللہ(آزاد کشمیر)، احمد سولنگی (مورو سندھ)، منیر مومن(پسنی گوادر)، اظہر فراغ (بھاولپور)، وحید نور(تربت)، پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، انور شعور، ڈاکٹر جاوید منظر، جاوید صباء، اجمل سراج، اقبال خاور، ریحانہ روحی، اے ایچ خانزادہ، توقیر احمد خان، ناصرہ زبیری، نثار احمد نثار، محمد علی گوہر، فرخ اظہار صدیقی، ثبین سیف، شائستہ مفتی، مزمل اطہر، ڈاکٹر مانا عظیمی اور ولید احمد شامل تھے۔
اس عالمی مشاعرے میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی جن اہم شخصیات نے شرکت کی ان میں وفاقی وزیر قیصر احمد شیخ، کمشنر کراچی ڈویثرن حسن نقوی،میئر بلدیہ عظمیٰ کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب، ڈاکٹر فاروق ستار، حیدر عباس رضوی، اور کشور زہرا(ایم کیو ایم)، چیئرمین کے پی ٹی سید سیدین رضا زیدی، رکن قومی اسمبلی مزرا اختیار بیگ،سینیٹر نہال ہاشمی،سینیٹر عبدالحسیب خان، سینیٹر سرمد علی،واثق نعیم ،اخلاق احمد،احتشام الحق، مظہر ہانی کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔