• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی ،جغرافیائی اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے شہروں میں شمار کیا جاتا ہے، یہ پاکستان کا اکنامک حب بھی ہے، تجارت، اقتصادیات اور معیشت کے لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے، قومی خزانے میں یہ شہر 67 فیصد ڈالتا ہے، اسے روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ آبادی میں مسلسل اضافے کے باعث اس شہر پر بے انتہا دباؤ ہے، آیئے دیکھتے ہیں کہ 2022 ء اس شہر کو کیا دے کر گیا اور کیا اس سے لے گیا۔

کراچی کی سڑکیں

کراچی میں سڑکوں کی تعمیر، تزئین و آرائش کا عمل سارا سال جاری رہتا ہے لیکن اس سال مون سون کی بارشوں نے، سڑکوں کو شدید نقصان پہنچایا، کم و بیش تمام علاقوں میں ہی سڑکیں بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں، مختلف محکموں نے سڑکیں تعمیر کرنا شروع کیں اورکچھ وہ سڑکیں جو ایک عرصے سے تعمیر کی منتظر تھیں ان پر بھی کام کا آغاز کیا گیا، ان میں، ممتاز حسن اور حسرت موہانی روڈ، ڈاکیارڈ اور جیکسن روڈ، پی این ٹی کالونی روڈ، کالا بورڈ تا سعود آباد چورنگی روڈ، سیفی روڈ، ضلع غربی میں تین کلو میٹر کی سڑک، دو تلوار چورنگی اور دیگر شامل ہیں، اسی طرح انڈرپاسز جس میں محسن بھوپالی انڈرپاس، امجد صابری انڈرپاس، غریب آباد انڈر پاس سمیت مختلف انڈرپاسز کی تعمیر و مرمت کا کام بھی کیا گیا، مختلف فلائی اوورز کے ایکسپینشن جوائنٹس بھی تبدیل کئے گئے ،جس سے صورتحال میں خاصی بہتری آئی، سڑکوں کی تعمیر و مرمت کا کام تاحال جاری ہے۔

2022 ء میں کراچی کی مختلف سڑکوں، پارکوں اور پلوں کو ملک و قوم کے لئے خدمات انجام دینے والی شخصیات کے نام سے منسوب کیا گیا۔ بلدیہ کراچی نے 5 فروری کو یوم کشمیر کے موقع پر عسکری پارک پرانی سبزی منڈی کا نام کشمیر پارک رکھنے کی منظوری دی، جبکہ ڈالمیا روڈ نیشنل اسٹیڈیم کا نام ایئر کموڈور Wladyslaw Turowicz سے منسوب کیا گیا، یہ ایک پولش آفیسر تھے جنہوں نے 50 کی دہائی میں آر ایف اے ایف میں شمولیت اختیار کی، انہوں نے پاکستان ایئر فورس کے ابتدائی سالوں میں اس کی بنیادیں رکھنے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔

سابق ناظم کراچی نعمت اللہ ایڈوکیٹ، عالمی شہرت یافتہ امجد صابری اور ماہر تعلیم مسز دینا مستری کی اپنے اپنے شعبوں میں شاندار خدمات کے اعتراف میں، سخی حسن پل، غریب آباد انڈر پاس اور اربن فاریسٹ کلفٹن کو ان شخصیات کے نام سے منسوب کردیا گیا۔26 مئی کو ضلع وسطی کو شرقی سے جوڑنے والے فلائی اوور کو نامور مصور اقبال مہدی کے نام سے منسوب کیا گیا، جبکہ سینئر صحافی طلعت اسلم کے نام خیابان اقبال پر گرین بیلٹ تعمیر کرکے انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

29 جولائی کو دو مختلف قراردوں کے ذریعے شاہراہ ایران پر واقع پارک کو حضرت سلمان فارسی اور بوٹ بیسن کلفٹن پر واقع گوشہ فن کو معروف موسیقار سہیل رعنا کے نام سے منسوب کرنے کی منظوری دی گئی۔ خیابان سعدی سے شاہراہ بیدل براہ راست چائنا ٹاؤن بلاک۔2 کلفٹن کی سڑک کا نام فضل کریم دادا بھائی رکھا دیا گیا، اسی طرح معروف سیاسی و سماجی شخصیت عبدالرحیم بلوچ کی گرانقدر خدمات کے اعتراف میں لیاری ٹاؤن میں واقع چاکیواڑہ روڈ کا نام عبدالرحیم بلوچ روڈ رکھا گیا۔بلدیہ عظمیٰ کراچی کی تاریخی عمارت، کے ایم سی بلڈنگ کو کراچی کے پہلے منتخب میئر جمشید نسروانجی کے نام منسوب کیا گیا۔

پبلک ٹرانسپورٹ کے منصوبے

پبلک ٹرانسپورٹ کے جو منصوبے جاری ہیں ان میں گرین لائن، ریڈ لائن، اورنج لائن، یلو لائن کے علاوہ پیپلز بس سروس اور الیکٹرک بس سروس شامل ہیں، ان منصوبوں کے تعمیراتی کام مختلف مراحل میں ہیں۔ گرین لائن، سرجانی سے نمائش تک چلائی جاچکی ہے، اسی طرح پیپلز بس سروس اور الیکٹرک بسیں بھی شروع ہوگئی ہیں۔28 جون کراچی والوں کے لئے یہ خبر لے کر آیا تھا کہ شہر قائد کے لئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے پیپلز بس سروس منصوبے کا افتتاح کیا تھا، یہ بسیں سات مختلف روٹس پر چلائی گئی اور اس میں 240 بسیں شامل ہیں۔ 

منصوبے کے پہلے مرحلے میں ماڈل کالونی، ملیر سے ٹاور کے لئے بس چلا کر منصوبے کا آغاز کیا گیا، منصوبے کا پہلا روٹ ماڈل کالونی ملیر سے براستہ شارع فیصل، میٹروپول آئی آئی چندریگر روڈ ٹاور تک 29 کلو میٹر طویل ہے ، یہ بسیں سات بجے سے بارہ بجے تک چلائی جا رہی ہیں، ریڈ لائن پروجیکٹ پر کام جاری ہے، ملیر ہالٹ سے موسمیات تک لاٹ ون کنسٹرکیشن زون انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لئے کنٹریکٹر کے حوالے کردیا ہے، ٹینک چوک سے چیک پوسٹ نمبر 6 تک تین کلو میٹر اسٹروم واٹر ڈرین کا کام مکمل ہوچکا ہے، ٹیپو سلطان سوسائٹی پر انڈرپاس کی تعمیر کے لئے کھدائی مکمل ہوچکی ہے، حکومت کی کوشش ہے کہ یلو لائن پروجیکٹ پر بھی کام تیزی سے کیا جائے، بی آر ٹی یلو لائن کے نئے پلان میں فیڈر سروس کو بھی شامل کیا گیا ہے، تاکہ کراچی کے زیادہ سے زیادہ شہری اس جدید ٹرانسپورٹ سے استفادہ کرسکیں۔اسی طرح اورنج لائن جسے عبدالستار ایدھی کا نام دیا گیا ہے ، 10 ستمبر سے عوام کے لئے کھولی گئی ہے، جو اورنگی ٹاؤن 5 نمبر سے میٹرک بورڈ آفس تک چلائی جا رہی ہے، الیکٹرک بسوں کا بھی آغاز کردیا گیا ہے۔

نئے پارک

کراچی کے ضلع وسطی میں سو پارکوں کی بحالی مہم کے سلسلے میں 2022ء میں 35 پارکس تزئین و آرائش کے بعد شہریوں کے لئے کھول دیئے گئے، یہ پارک ضلع وسطی کے مختلف علاقوں میں واقع ہیں، اسی طرح تاریخی برنس گارڈن کی تزئین و آرائش کرکے اسے بھی شہریوں کے لئے کھولا گیا، اس کے ساتھ ساتھ پارک میں دو نئے گیٹس کا بھی اضافہ کیا گیا ۔ یہ پارک 1927 ء میں تعمیر کیا گیا تھا ،اس وقت یہ شہر کے مرکز میں واقع تھا ،جہاں شہری اپنے اہل خانہ کے ہمراہ آیا کرتے تھے، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ باغ اجڑتا گیا اور شہریوں نے یہاں کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔ 

اس کے علاوہ کلفٹن میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان پارک، راشد ربانی پارک، کلفٹن میں اربن فاریسٹ، اورنگی ٹاؤن میں تین نئے پارکس تعمیر کیے گیے، اسی طرح کڈنی ہل پارک کی تعمیر مکمل کی گئی، کڈنی ہل میں فوزیہ وہاب گارڈن بھی تعمیر کیاگیا۔ پولو گراؤنڈ میں ایک برڈ آوری بنائی گئی ،جس میں مختلف اقسام کے پرندے رکھے گئے ہیں، یہ برڈ آوری بھی کسی پبلک پارک میں پہلی مرتبہ تعمیر کی گئی ہے ۔

میری گولڈ فیسٹیول کا انعقاد

کراچی میں اس سال سات مقامات پر میری گولڈ فیسٹیول اور پھولوں کی نمائش کا انعقاد کیا گیا ،جس میں ہزاروں کی تعداد میں مختلف رنگوں کے پھول نمائش کے لئے پیش کئے گئے، 7 سے 9 جنوری کے درمیان فریئر ہال میں دوسرے تین روزہ میری گولڈ فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا جس میں ہزاروں شہریوں نے شرکت کی اور اس اقدامات کو سراہا، اسی طرح تعلیمی باغ فیڈرل بی ایریا میں بھی میری گولڈ فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا،اس نمائش میں پچاس ہزار سے زائد گیندے کے پھول رکھے گئے اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے اس نمائش کا باقاعدہ افتتاح کیا اور کراچی کے شہریوں کو یہ نمائش دیکھنے کی درخواست کی، اسی طرح کراچی چڑیا گھر میں بھی تین روزہ فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا اور تاریخی فوارے کوشہریوں کے لئے کھولا گیا۔

سرسید پارک میں بھی میری گولڈ فیسٹیول منعقد ہوا ،یہاں بھی گیندے کے پھولوں کے ساتھ ساتھ دوسرے خوشنماپھول بھی نمائش کے لئے رکھے گئے تھے، شہریوں نے اس نمائش کو انتہائی دلچسپی سے دیکھا اور اس کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کیا۔ شاہ فیصل کالونی میں 5 مارچ کو فلاور شو کا انعقاد کیا گیا، جبکہ 20مارچ کو ہل پارک پر پھولوں اور پودوں کی نمائش منعقد کی گئی۔ کراچی پریس کلب میں 12 فروری کو پھولوں کی ایک نمائش ہوئی، جس میں صحافی اور ان کے خاندان کے افراد نے شرکت کی۔

کراچی کی پہلی آبشار

کڈنی ہل پر کراچی کی پہلی آبشار تعمیر کی گئی ہے جو 20 فٹ بلند اور 120 فٹ لمبی ہے، اس آبشار کو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، اس سے قبل کراچی میں کوئی بھی آبشار نہیں تھی، یہ کراچی کے بلند ترین مقام پر واقع ہے، شہریوں کی بڑی تعداد اس آبشار سے لطف اندوز ہونے کے لئے کڈنی ہل جاتی ہے۔ 3 دسمبر کو اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر، کے ایم سی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے ایک تقریب میں اس کا باقاعدہ افتتاح کرتے ہوےکہا کہ، یہ میری خواہش تھی کہ کراچی میں بھی آبشار بننی چاہئے اور یہ جگہ انتہائی مناسب تھی ۔کراچی کا یہ نیا پارک جسے احمد علی پارک کہا جاتا ہے کڈنی ہل کے نام سے مشہور ہے اور 62 ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے۔

بلدیاتی انتخابات بار بار ملتوی کئے گئے

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تین بار اعلانات کے باوجود کراچی میں پورے سال بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں ہوسکا، پہلی مرتبہ بلدیاتی انتخابات 26 جولائی 2022 ء کو ہونا تھے لیکن بعض وجوہ کی بناء پر ملتوی کردیئے گئے پھر 28 اگست کو منعقد کرانے کا اعلان کیا گیا لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ حکومت نے سیلاب اور خراب موسم کی صورتحال اس کی وجہ بتائی، تیسری مرتبہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 23 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی لیکن حکومت کی جانب سے سیکورٹی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات کو ایک بار پھر ملتوی کردیا گیا اور کراچی کے شہری اس بات کے منتظر ہی ر ہے کہ وہ اپنے ووٹوں کے ذریعے بلدیاتی نمائندے منتخب کریں تاکہ، ان کے مسائل حل ہونا شروع ہوں،اب امید کی جا رہی ہے کہ یہ انتخابات نئے سال کے پہلے مہینے کی 15 تاریخ کو منعقد کئے جائیں گے۔

پاکستان کے پہلے ڈیجیٹل اسپتال کا آغاز

20 اکتوبر 2022 ء کو کراچی میں پاکستان کے پہلے ڈیجیٹل اسپتال کی بنیاد رکھی گئی، نیوچالی پر سرفراز رفیقی شہید اسپتال کو یہ اعزاز حاصل ہوا ، وہاں اسپتال کا آغاز کیا گیا، اس اسپتال میں مختلف بیماریوں کے ماہرین واٹس اپ کال کے ذریعے مفت کنسلٹنسی فراہم کرتے ہیں اور یہ سہولت ملک کے تمام شہروں اور بیرون ملک میں مقیم افراد کو بھی حاصل ہے، اس کے ساتھ ساتھ گھروں تک پندرہ فیصد رعایت کے ساتھ ادویات کی فراہمی اور لیبارٹری ٹیسٹ کے لئے 30 فیصد رعایت کے ساتھ ٹیسٹوں کے لئے نمونے حاصل کرنے کی سہولت بھی موجود ہے جبکہاسپتال میں مختلف بیماریوں سے متعلق ڈیٹا بھی جمع کیا جا رہا ہے، تاکہ مختلف علاقوں میں پھیلنے والی بیماریوں سے متعلق مفید معلومات جمع ہوسکیں۔

عربین سی واٹر اسپورٹس کا آغاز

ہاکس بے پر پہلی مرتبہ عربین واٹر اسپورٹس پروجیکٹ کا آغاز کیا گیا اب تک یہ سہولت دوسروں ممالک میں لوگوں کو حاصل تھی لیکن وسیع اور بہترین ساحل ہونے کے باوجود کراچی واٹر اسپورٹس کی سہولت موجود نہیں تھی، 10 فروری 2022 ء کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت واٹر اسپورٹس کا آغاز کیا گیا، جس سے کراچی کے شہری اپنے خاندان کے ہمراہ لطف اندوز ہوسکتے ہیں، یہ سہولت سینڈزپٹ ہٹ نمبر35 کے قریب موجود ہے۔

ریکارڈ بارشیں

کراچی میں اس سال ریکارڈ بارشیں ہوئیں اور پورے دو ماہ تک کراچی کو جل تھل کئے رکھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک ہزار ایک سو پچاس ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، جس کے باعث کراچی کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں، برساتی نالے بھر گئے اور شہریوں کو مشکلات پیش آئیں۔ کراچی کے مضافاتی اور نشیبی علاقوں کے ساتھ ساتھ کراچی کے پوش علاقوں ڈیفنس، کلفٹن، کے ڈی اے اسکیم 1، نارتھ ناظم آباد، پی ای سی ایچ ایس اور بحریہ ٹاؤن بھی بارشوں سے شدید متاثر ہوئے اور شہریوں کو آمدورفت میں تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، ڈیفنس کے کئی گھروں میں نہ صرف برساتی پانی داخل ہوا بلکہ وہاں کی کئی سڑکیں بھی زیر آب آگئیں، اسی طرح کے ڈی اے چورنگی، فائیو اسٹار چورنگی، نرسری، یونیورسٹی روڈ، شاہراہ لیاقت، سعدی ٹاؤن، سرجانی، محمود آباد، منظور کالونی، صفورہ گوٹھ اور کیماڑی کی سڑکوں پر پانی جمع ہوا جسے مختلف بھاری مشینری کے ذریعے برساتی نالوں میں نکاسی کی اور یوں شہر کم و بیش دو ماہ تک برسات کے زیر اثر رہا۔

بارشیں ختم ہوجانے کے بعد مختلف بلدیاتی اداروں نے ان سڑکوں کی تعمیر و مرمت شروع کی جو تاحال جاری ہے۔ برسات سے قبل بلدیاتی اداروں نے 41 برساتی نالوں اور 500 سے زائد چھوٹے نالوں کو صاف کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ اس صفائی کے نتیجے میں صورتحال بہتر رہے گی، ان نالوں کی صفائی کا کام 26 فروری سے شرو ع کیا گیا اور 16 جون تک یہ عمل جاری رہا۔

ضلع کیماڑی اور غربی میں گھروں سے کچرا اٹھانے کی مہم 

سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ نے ضلع کیماڑی اور غربی سے سو فیصد گھر سے کچرا اٹھانے کے لئے 12 جنوری سےآپریشن کا آغاز کیا، اس موقع پر ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں بتایا گیا کہ ضلع جنوبی، شرقی، ملیر، غربی اور ضلع کیماڑی میں موجود کچرا کنڈیوں سے لوگوں کی جان چھوٹ گئی ہے، جس سے کراچی صاف ہوگا اور ماحول میں بہتری آئے گی، اب کہیں بھی کچرا نظر نہیں آئے گا اور آئندہ کچرے سے بجلی پیدا کرنے اور بائیو گیس پلانٹ کی تنصیب کی طرف جائیں گے، یہ آپریشن چینی کمپنی کے تعاون سے شروع کیا گیا ہے۔

9 مئی کو پاپوش نگر ضلع وسطی میں نارتھ ناظم آباد زون، ضلع کورنگی، ماڈل کالونی اور لانڈھی زون سے کچرا اٹھانے کی تقریب کا آغاز کیا گیا اور اس ضلع میں بھی صفائی ستھرائی کے آپریشن کا آغاز کیا گیا، اس طرح کراچی کے مختلف اضلاع سے کچرا اٹھانے اور کراچی کو صاف ستھرا کرنے کی تمام تر ذمہ داری سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ نے اپنے ذمے لے لی ہے ،اب یہ کراچی کے شہری ہی فیصلہ کریں گے کہ یہ محکمہ کس حد تک کراچی کو صاف ستھرا کرنے میں کامیابی حاصل کرسکا ہے۔

میٹروپولیٹن یونیورسٹی کا قیام

سندھ کابینہ نے کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کو کراچی میٹروپولیٹن یونیورسٹی بنانے کی منظوری دی تاکہ یہ ایک مکمل یونیورسٹی کے طور پر کام کرسکے، کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کو پبلک یونیورسٹی کا درجہ دینے کا مقصد مقامی طلبا و طالبات کو تحقیق کے شعبوں میں خاطر خواہ مدد فراہم کرنا ہے، سندھ کابینہ نے اس بات کا اظہار کیا کہ میٹروپولیٹن یونیورسٹی کا درجہ ملنے کے بعد مزید بہتر معیار حاصل ہوگا اور یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ طبی کے شعبے میں ملک و قوم کی گرانقدر خدمات انجام دیں گے، بعدازاں یونیورسٹی قائم کرنے کا بل سندھ اسمبلی سے بھی پیش کیا گیا جس کی سندھ اسمبلی نے باقاعدہ منظوری دے دی ہے۔

پولی تھین بیگز پر پابندی

کراچی کی حدود میں پولی تھین بیگز پر 15 مئی سے مکمل پابندی عائد کردی گئی اور ایک قرارداد کے ذریعے انتظامیہ نے اس کی باقاعدہ منظوری دی جس کے تحت شہر میں پولی تھین بیگز کی تیاری، خرید و فروخت اور استعمال پر مکمل پابندی عائد کی گئی۔ پولی تھین بیگز ایسے مٹیریل سے تیار کیا جاتا ہے جو پانی میں گلتا نہیں ہے جس کے باعث سیوریج کی لائنیں بند ہوجاتی ہیں اور شہر میں کوڑا کرکٹ میں اضافے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ 

بیگز کو جلانے سے زہریلی گیس فضاء میں شامل ہو کر انسانی صحت پر مضر اثرات بھی مرتب کرتی ہے۔ ہر سال برسات سے قبل ندی نالوں کی صفائی میں مشاہدہ کیا گیاکہ، شہر کے ندی نالے پلاسٹک شاپرز سے بھرے ہوتے ہیں جس کے باعث ذرا سی برسات میں شہر سیلابی صورتحال کا نقشہ پیش کرنے لگتا ہے، اس سلسلے میں کمشنر کراچی اقبال میمن نے بھی باقاعدہ احکامات جاری کئے۔

نئے سال کے آغاز پر کراچی کے شہری ایک بار پھر نئی امیدوں، امنگوں اور خوابوں کے ساتھ داخل ہوں گے، خدا کرے کہ نیا سال ہم سب کو راس آئے اور شہر کے لئے جو خوا ب ہم سب نے دیکھے ہیں ان کو تعبیر ملے۔

شہری پانی کو ترستے رہے

ادارہ فراہمی و نکاسی آب کے دعوں کے باوجود کراچی کے کئی علاقے پانی کی بوند بوند کو ترستے رہے اور ان علاقوں میں پانی فراہم نہیں کیا جاسکا، کراچی کو پانی فراہم کرنے کا کوئی بڑا منصوبہ سامنے نہیں آیا اور نہ ہی پانی کی فراہمی کے کسی بڑے منصوبے کا آغاز ہوا، بلدیہ ٹاؤن، اورنگی ٹاؤن، لانڈھی، نصرت بھٹو کالونی، مچھر کالونی، ماڈل کالونی، شاہ فیصل کالونی، چنیسر گوٹھ اور کیماڑی وہ علاقے ہیں جہاں پورے سال لوگ اپنی کی کمی کا شکار رہے اسی طرح ڈیفنس میں پانی کی شدید قلت رہی اور پورا ڈیفنس ٹینکرز مافیا کے رحم و کرم پر رہا اور اس سا ل ٹینکرز مافیا نے پانی فراہم کرنے کے نرخوں میں زبردست اضافہ کردیا جس کے باعث شہریوں کا بجٹ آؤٹ ہوگیا، آنے والے سال میں شہری امید رکھتے ہیں کہ ان کا یہ اہم ترین مسئلہ حل ہوگا۔ 

کراچی میں کچرے کے مسائل بدستور جاری رہے

اس سال بھی شہر میں جگہ جگہ کچرا نظر آیا اور حکومتی اداروں کے باوجود کراچی صاف ستھرا منظر پیش نہیں کرسکا، کئی علاقے میں کچروں کے ڈھیرے دیکھے گئے، متعدد علاقوں سے سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ نے گھر گھر سے کچرا جمع کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن ایسا نہیں ہوسکا، آج بھی کراچی اس بات کا منتظر ہے کہ وہ صاف ستھرا نظر آئے اور روانہ کی بنیاد پر کچرا اٹھایا جائے اسی طرح کراچی کا ساحل سمندر بھی کچرے سے اٹا رہا اس جانب توجہ نہیں دی گئی، دنیا کے مختلف ملکوں میں سمندر وں کے ساحل انتہائی خوبصورت اور دلکش ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کراچی ان شہروں میں شامل ہے جہاں ساحلوں پر کسی قسم کی کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور یہ اپنی کشش کھو بیٹھتے ہیں، شہری کچرے اور گند کے باعث اس طرح سمندر سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے جس طرح دنیا میں واقع ساحلوں سے ہوتے ہیں۔

مون سون کی بارشوں میں کراچی جل تھل ہوگیا 

اس سال مون سون کی بارشوں میں کراچی جل تھل ہوگیا، سڑکیں تالاب کا منظر پیش کرتی رہیں، ایک ہزار ایک سو پچاس ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی جو معمول سے زیادہ تھی جس کے باعث شہریوں کو شدید تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، پانی اترنے کے بعد تمام سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئیں جس کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل درپیش رہے، ڈیفنس میں خیابان بحریہ، خیابان شجاعت، خیابان بخاری، خیابان حافظ میں واقع گھروں میں پانی داخل ہوگیا اور لوگوں کا قیمتی سامان ضائع ہوا، گاڑیاں پانی میں ڈوبی رہیں اس طرح اس سال بارش کے باعث شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، سال کے اختتام پر بھی بہت سی سڑکیں تعمیر و مرمت کی منتظر ہیں۔

شہر میں تجاوزات کی بھرمار

 گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی تجاوزات کی بھر مار رہی، فٹ پاتھ، ٹھیلوں، پتھاروں سے بھرے رہے، ہوٹلوں نے فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر کرسیاں اور میزیں بچھائے رکھیں اور اس سے کوئی بھی علاقہ محفوظ نہیں رہا جس کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہا، بعض جگہ پختہ کرلی گئیں، بعض مقامات پر تو شہری سڑکوں پر چلنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے حادثات بھی رونما ہوئے ہیں، صدر، ایمپریس مارکیٹ، سپر مارکیٹ لیاقت آباد، حیدری، برنس روڈ، حسین آباد، اورنگی ٹاؤن کے مختلف علاقوں،بابر مارکیٹ، کریم آباد مینا بازار، پاپوش نگر مارکیٹ، گول مارکیٹ ناظم آباد میں بے انتہا تجاوزات دیکھنے میں آئیں۔