چار آدمی کی تقریب رونمائی

June 15, 2022

گزشتہ ہفتے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب ”چار آدمی“ کی تقریب رونمائی حسینہ معین ہال میں منعقد ہوئی ، تقریب سے ممتاز صحافی محمود شام، مظہر عباس، سید ایاز محمود، شاہین عزیز ، نذیر تنیو ، مصنفف ڈاکٹر امجد ثاقب اور صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے اظہارِ خیال کیا ، نظامت کے فرائض شکیل خان نے انجام دیے۔ ا

س موقع پر محمد احمد شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہاہم نے ہمیشہ آرٹس کونسل کو ایک کنبہ کی شکل دی ہے، میں تمام شاعروں، ادیب، فنکاروں، اراکین گورننگ باڈی اور پورے سماج کی طرف سے آپ کا(ڈاکٹر ثاقب) شکرگزار ہوں کہ آپ نے اپنی زندگی جس راستے پر گزاری وہ دوسروں کے لیے عملی نمونہ ہے، آرٹس کونسل کراچی نے انڈوومنٹ فنڈ کے ذریعے مستحق فنکاروں کی مالی معاونت کے لیے دائرہ وسیع کردیا ہے تاکہ تعلیم، بچیوں کی شادی، فنکاروں کے علاج ومعالجہ اور دیگر مسائل پر قابو پاسکیں۔

محمود شام نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج ہمارے بیچ ایک ایسا شخص موجود ہے جوہر زمانے کو اپنا کر دیتا ہے، امجد ثاقب نے جس اخوت کی بنیاد رکھی اس سے ماں کی دعائیں، بزرگوں کی شفقت ملی، اب وہ بات کرتے ہیں تو پھول جھڑتے ہیں ان کے کام نے بہت لوگوں کا ساتھ دیا ہے ’مجھے نہیں یاد کہ وہ کونسی گھڑی تھی ۔ اور اللہ تعالیٰ نے کیوں یہ لازوال مہربانی کی کہ میرا رابطہ اکیسویں صدی کے اس درویش امجد ثاقب سے استوار ہوا۔ وہ دن اور آج کا دن۔ ہم حلقۂ امجد ثاقب کے رضاکارانہ اسیر ہیں۔

تقریب سے مقررین خطاب کررہے ہیں

دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ زندگی کی سات سے آٹھ دہائیوں میں کتنے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ کیسے کیسے دعوے سنے۔ انقلاب برپا کرنے کے عزائم۔ سرخ اور سبز انقلاب کے نعرے۔ گفتار کے غازی تو ہزاروں کی تعداد میں تھے۔ کردار کے غازی خال خال۔ اخوت نے جس ہمہ گیر تبدیلی کی بنیاد رکھی ہے۔ اس کی گواہی پنجاب کے بیلے۔ سندھ کی کیٹیاں۔ کے پی کے کے ڈیرے۔ بلوچستان کی وادیاں دے رہی ہیں۔ مائوں کی دعائیں ۔ نوجوانوں کی نیک خواہشیں۔ بزرگوں کی شفقت امجد ثاقب کو میسر آرہی ہے۔

ان کی گفتگو میں مامتا۔ خیالات میں مہربانی۔ عمل میں دستگیری رفاقت کرتی ہے۔ صرف تقریر نہیں تحریر بھی کہتی ہے کہ گویا کہ یہ بھی میرے دل میں ہے۔ ذہن رسا اور دل درد مند اللہ تعالیٰ جن بندوں کو عطا کرتا ہے انہیں بازوئے حیدر بھی عنایت کرتا ہے۔ ’فائونٹین ہائوس‘۔ روشنی کا سر چشمہ ہے۔ آگہی کا جزیرہ ہے۔

بیسویں صدی کے آغاز سے جنم لینے والی مہرباں رت اب اکیسویں صدی کی دہائی میں داخل ہورہی ہے۔ سرگنگا رام۔ ملک معراج خالد۔ اور رشید چوہدری کے ہاتھوں سے روشن ہوتی مشعل اب ڈاکٹر امجد ثاقب کی مضبوط مگر مشفق گرفت میں ہے۔ انسانیت کو وقار مل رہا ہے۔ اقدار کو تحفظ۔ درد دل کی میراث نسل در نسل منتقل ہورہی ہے۔

زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ

کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک

فاؤنٹین ہائوس میں جنوں خرد افروزی میں مصروف ہے۔ عقل لب بام محو تماشا رہتی ہے۔ عشق بے خطر آتش نمرود میں کود پڑتا ہے۔ مجھے رشک آتا ہے درویش خدا مست امجد ثاقب کی خوش نصیبیوں پر کہ وہ زمان و مکاں میں رہتے ہوئے زمان و مکاں سے ماورا مظاہر بھی نظارہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کا دل عرفان کی کتنی منزلیں عبور کرتا ہے۔ ذہن جذب کی کیسی کیسی کیفیات سے دوچار ہوتا ہے۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ‘‘

سید ایاز محمودنے کہا کہ ڈاکٹر امجد ثاقب اور اخوت کا ذکر ایک دوسرے کے بغیر ادھورا ہے، ڈاکٹر صاحب نے امریکا سے تعلیم حاصل کی اور انہیں نوبل انعام سے بھی نوازا گیا، اتنی شاندار سوانح لکھنے پر میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں، شاہین عزیزنیازی نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے ”چار آدمی “میں اپنا کلیجہ نکال کر رکھ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ میں بغیر سود کے کام کرنا چاہتا ہوں، انہوں نے نیک نیتی سے یہ کام کیا جس میں وہ کامیاب ہوئے ، انہوں نے کہاکہ حکومت نے بھی اس کام میں حصہ لیا اور اگر کوئی غریب قرضہ لے تو اس کا فائدہ وہ خود لے، تمام عمر اپنے رب کی راہ میں نثار کردیے جس میں وہ چار آدمی اچھے انسان بنے ۔

صاحب کتاب ڈاکٹر امجد ثاقب نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ کراچی میں جو عزت افزائی ہوئی وہ میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے، کتاب کی کہانی سر گنگا رام، ملک معراج خالد اور ڈاکٹر رشید چوہدری سمیت ڈاکٹر امجد ثاقب کے گرد گھومتی ہے، اس میں بتایا گیا کہ یہ تینوں لوگ غربت سے کیسے نکلتے ہیں ایک بہترین ڈاکٹر اور ایک سیاستدان ایسا بنتا ہے جس کی مثال بہت کم ملے گی، سیاسی ورکر کو سیاست سے دور رہنا چاہیے لیکن سیاستدانوں سے دور نہیں رہنا چاہیے۔