موت کے درندے میں کشش

July 01, 2022

لاہور ویمن یونیورسٹی کی طالبہ نے مبینہ طور پر خودکشی کی کوشش میں تیسری منزل سے چھلانگ لگائی۔ وہ شدید زخمی ہوئی ۔اسے سروسز اسپتال منتقل کردیا گیا۔لڑکی بی ایس فزکس کی طالبہ ہے اور اس نے شعبہ سوشل سائنسزکی تیسری منزل سےچھلانگ لگائی۔وائس چانسلر نے انکوائری کےلیے 4 رکنی کمیٹی بنا دی ہے کہ چھٹیوں کی وجہ سےیونیورسٹی بند ہے تو طالبہ وہاں کیوں موجود تھی ۔

یہ خبر مجھے کوئی اٹھارہ بیس سال پچھلے لے گئی ۔برطانوی نیشنل ہیلتھ سروس نے ڈپریشن کے متعلق ایشیائی کمیونٹی کیلئےایک میڈیا کمپین لانچ کی تھی۔ اتفاق سے یہ کام میری فرم کو مل گیا۔سو اس کےلئے ایک ڈرامہ بنوایا۔ایک ڈاکو مینٹری بنوائی ۔ کتابچے وغیرہ تیار کرائے ۔اس کمپین کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ برطانیہ کی مقامی آبادی میں اس وقت ہر پانچواں آدمی ڈپریشن کا مریض ہے مگر ایشیائی کمیونٹی میں ہر چوتھا آدمی اس مرض میں مبتلا ہے۔ جس کی وجہ سےخود کشی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔یہ مرض اتنے خفیہ انداز میں مریض پر حملہ کرتا ہے کہ گھر والوں کو جس وقت علم ہوتا ہے مریض خودکشی کر چکا ہوتا ہے ۔ میرے جاننے والے ذہنی امراض کے ایک ڈاکٹر کے والد نے خود کشی کرلی تو میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ ڈاکٹر ہوتے ہوئے بھی یہ بات نہ سمجھ سکے کہ آپ کے والد محترم کس کیفیت سے گزر رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا مجھے شک تھا مگر اتنا نہیں کہ ابو خود کشی کرلیں گے ۔نوجوانوں میں بوڑھوں کی نسبت اس مرض کا رجحان بہت زیادہ ہے ۔خیر برطانوی حکومت نے بہت حد تک اس مرض کو کنٹرول کرلیا ہے اور اب وہاں ڈپریشن کے سبب ہونے والی خود کشی کی شرح خاصی کم ہے ۔ پاکستان میں اس حوالے سے صورتحال انتہائی نا گفتہ بہ ہے۔مگر اس سے پہلے دنیا پر ایک نظر ڈال لیں ۔

عالمی ادارۂ صحت(ڈبلیو ایچ او)کے مطابق :اس وقت دنیا میں ہر 40سیکنڈ میں ایک شخص خودکشی کر رہا ہے ۔ہر سال تقریباً آٹھ لاکھ افراد خودکشی سے مرتے ہیں۔دنیا بھر میں15-29سال کے درمیان مرنے والوں کی دوسری بڑی وجہ ڈپریشن کے سبب خودکشی ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ’’پاکستان میں خودکشی کے بارے میں سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر اعدادوشمار موجود نہیں ہیں تاہم ایک اندازے کے مطابق ملک میں روزانہ 15سے 35 افراد خودکشی کرتے ہیں یعنی تقریباً ہر گھنٹے میں ایک شخص اپنی جان لے رہا ہے۔‘‘عالمی ادارہِ صحت کے 2012میں لگائے گئے تخمینے کے مطابق اُس سال تقریباً 13ہزار پاکستانیوں نے خودکشی کی جبکہ 2016میں یہ تعداد پانچ ہزار کے قریب رہی۔ چترال میں خودکشی کرنے والوں کی شرح بہت زیادہ رہی ۔اس کی خبر مجھے نیویارک میں ہونےوالے انٹرنیشنل فلم فیسٹیول سے ہوئی جس میں چترال میں خواتین کی خودکشیوں اور نفسیاتی مسائل کے حوالے سے آگاہی پر مبنی مختصر دورانیے کی فلم ’’دریا کے اس پار‘‘ کو تین ایوارڈ ملے ۔

ڈاکٹرز کے مطابق ڈپریشن کی کئی اقسام ہیں۔ زیادہ تر اقسام ایسی ہیں جس کا اندازہ گھروالوں کو ہوجاتا ہے مگر کچھ ایسی اقسام بھی ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا ۔ سب سے خطرناک قسم فنکشنگ ڈپریشن کی ہے، جس میں پتہ ہی نہیں چلتا ۔ مریض بظاہر ایک ہنستا مُسکراتا، خوش باش نوجوان دکھائی دیتا ہے ۔کوئی کہہ ہی نہیں سکتا کہ اسے ڈپریشن ہو سکتا ہے۔وہ اپنی خودکشی سے چند گھنٹے پہلے تک اپنے دوستوں اور گھر والوں کو شائبہ تک نہیں ہونے دیتا کہ وہ خود کشی کرنے والا ہے ۔دوہزار اٹھارہ میں ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کی طالبہ نے خود کشی کرلی تھی۔اس وقت ڈپریشن کے حوالے سے میڈیا میں خاصی بحث ہوئی تھی مگر حکومتی سطح پر اس مرض پر بالکل توجہ نہ دی گئی ۔اس بات سے آگاہی کی اشد ضرورت ہے کہ ڈپریشن وہ مرض نہیں جس کی علامات کو نظر انداز کیا جا سکے ۔ ضروری ہے کہ ڈپریشن کے مریض کو فوری طور پر معالج کے پاس پہنچایا جائے ۔

ایک اور سروے بھی میڈیا پر میری نظر سے گزرا جس کے تحت ہر تیسرا پاکستانی ڈپریشن کا مریض ہے مگر میں اس سے اتفاق نہیں کر سکا ،میرے نزدیک پاکستان میں ہر پانچواں آدمی ڈپریشن کا مریض ہے لیکن توجہ نہ ہونے سےاس کی شرح بڑھ رہی ہے۔ ہمارے یہاں اور مسئلہ بھی ہے کہ ڈپریشن کے مرض کو لوگ چھپاتے ہیں کہ کہیں ہمیں کوئی پاگل نہ سمجھ لے ۔ حالانکہ پاگل پن کا ڈپریشن سے کوئی تعلق نہیں۔

میرے ایک شاعر دوست جاوید انورآسٹریا میں ذہنی امراض کے ڈاکٹر تھے۔ فیس بک پر ہم بہت سے شاعر دوستوں نے مل کر ایک گروپ بنایا ہوا تھا ۔ وہ اکثر دوسرے کے کومنٹس پڑھ کر مجھے کہتا کہ اس آدمی کو فلاں قسم کاڈپریشن ہے۔ اس کو فلاں قسم کاہے اور میں اس کا مذاق اڑایا کرتا تھا مگر جب اس کے تشخیص کردہ دوچار لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں تو میں حیران ہوا کہ اس کی تشخیص بالکل درست تھی۔ شاعروں میں ڈپریشن عام لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ شاید اس لئے کہ یہ لوگ زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ خود کشی کرنے والے ناموں میں شکیب جلالی، سارا شگفتہ ، انس معین اور ثروت حسین کے نام بہت معروف ہیں ۔ثروت حسین کاخودکشی کے حوالے سے ایک شعر بھی بہت معروف ہوا،

موت کےدرندے میں اک کشش تو ہے ثروتؔ

لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خودکشی کے بارے میں

ڈپریشن بالکل اسی طرح کی بیماری ہے جیسے بخار۔ یہ مرض جین میں بھی ہوتا ہے اور آدمی اس کا شکار بھی ہو جاتا ہے۔ دراصل انسانی دماغ میں کچھ کیمیکل ہوتے ہیں، انکے کم ہونے سے ڈپریشن شروع ہوتا ہے۔ انہیں ادویات کی مدد سے بہتر کیا جا سکتا ہے اور گفتگو سے بھی۔ اس کیلئے اس وقت دنیابھر میں کونسلنگ کا طریقہ وضع کیا گیا ہے۔ جو مریض کے مسلسل مکالمے سے ان کیمیکلز میں بہتری لاتے ہیں۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر کونسلنگ کا سلسلہ شروع ہونا چاہئے۔