’’اتحاد‘‘ سے نکلا انتشار اور بدترین مہنگائی

July 02, 2022

قارئین کرام! رات گھر جاتے ہوئے پٹرول اسٹیشنز پر کاروں، موٹر سائیکلوں کی لمبی قطاریں دیکھیں، خبر تھی کہ رات بارہ بجے پھر ایک ہفتے بعد پٹرول کے نرخ میں 15-20 روپے لیٹر کا مزید اضافہ ہونے والا ہے اور غریب تو غریب متوسط اور اچھی بھلی تنخواہ والے مڈل کلاسیئے بھی سو دو سو سے اڑھائی تین سو بچانے کے لئے قطاروں میں منتظر ہیں۔ رات بستر پر دراز ہوا تو بس یہ ہی سوچتے سو گیا کہ ....الیکشن 70 ءکے نتیجے میں بننے والی قومی اسمبلی کے ڈھاکہ میں بلائے گئے اجلاس کے انعقاد کے خلاف بھٹو صاحب کی مزاحمت اور مارشل لائی حکومت (جس نے اجلاس طلب کیا تھا) کو بھی مسلسل دبائو سے اپنا ہمنوا بنا کر اجلاس ملتوی اور ملٹری آپریشن کا آغاز کرنا ہماری 75 سالہ سیاسی تاریخی کا بدترین سیاسی فیصلہ تھا جو تباہ کن ثابت ہو کر ملک کے دو لخت ہونے کا باعث بنا۔ آج حالات حاضرہ کے تناظر میں بچے پاکستان کی 50 سالہ ملکی تاریخ میں 13جماعتی حکمران اتحاد پی ڈی ایم کا قابل مذمت غیر جمہوری ہتھکنڈوں اور سخت متنازعہ آئینی فیصلے سے جاری سیاسی و آئینی عمل میں رکاوٹ ڈال کر اقتدار کی 3 سال اور دس ماہی مدت مکمل کرنے والی حکومت کو ختم کرکے بغیر کسی عقلی جواز کے جوگھمبیر جاری آئینی و سیاسی اور تباہ کن سیاسی و اقتصادی بحران پیدا کیا ہے، وہ باقی ماندہ پاکستان کی 50 سالہ سیاسی تاریخ کا بدترین سیاسی فیصلہ ہے۔ یہ ’’اتحادی‘‘ فیصلہ بہت جلد مکمل ڈیزاسٹر اور عوام دشمن ثابت ہوا ہے اتنا ہی جلد پی ڈی ایم خصوصاً فیصلے کی تین بڑی محرک جماعتوں ن لیگ، پی پی اور جمعیت علمائے اسلام کیلئے سخت منفی نتائج کا حامل بن چکا ہے۔ اب آج کا کالم تو یہ ہی بنتا ہے کہ:پہلے سے ہی پریشان حال عوام اچھے مستقبل کی امید تو چھوڑ گئے اور شدید دبائو کی موجودہ حالت میں گزر بسر کرنے والے ادھ موئے عوام سخت ہراساں ہوگئے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں اور ریاستی اداروں اور پورے معاشرے میں گھر گھر اس سے جو انتشار پیدا ہوا ہے، اس کے لئے ’’تشویشناک‘‘ اور ’’پریشان حال‘‘ جیسے الفاظ جو اپنی حساسیت سے بہت کچھ واضح کرتے تھے، اپنے معنی کھو بیٹھے ہیں۔ بے بسی، غربت، مفلسی، نیم فاقہ کشی، ٹھپ چولہے جیسے مایوسی پھیلانے والے لیکن غربا کی تلخ ترین حقیقت کو واضح کرنے اور اپنا اثر چھوڑنے والے حساس الفاظ بھی بے قابو مہنگائی کی دہشت سے عوام کو ہفتہ وار بنیاد پر ہراساں کررہے اور دبائو میں لا رہے ہیں۔ پھر چمک دمک میں ملبوس حکمرانوں کی مسلسل خوف پیدا کرنے والی گفتگو کہ ابھی تو پٹرول اور بجلی کی قیمت اور بڑھے گی اللہ خیر۔نئے ٹیکسوں کی اصل حقیقت کہ یہ واقعی امیروں پر ہی لگائے جا رہے ہیں ؟ اس سوال پر تجربہ کار اور اقتصادی ماہرین اصل حقائق کو واضح کرکے عوام کے ساتھ جو کیا جا رہا ہے اور جو مزید ہونے والا ہے اسے انتباہ یا آنے والے خطرے کے طور واضح کردیتے ہیں۔ عوام پر جو بیت رہی ہے وہ ان ہی تجزیوں کے مطابق ہے اور حکمران جو کہہ رہے ہیں ، عوام اسے مکمل جھوٹ ہی سمجھ رہے ہیں کیونکہ ان پر اس حقیقت کا پردہ چاک ہوگیا۔

وہ جو ’’سلیکٹڈ‘‘ اور نااہل حکومت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی مہم جوئی میں ایک سال سے دن رات ایک کئے ہوئے تھے، وہ اصل میں پریشان عوام کو بڑھتی مہنگائی سے نجات دلانے کے لئے یہ پاپڑ بیل رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کے اس کھلواڑ کا اتنا اثر ضرور ہو رہا تھا کہ عوام عمران خان سے مایوس اور خان صاحب اپنی مقبولیت کھوتے جا رہے تھے۔ لیکن ہم سب اپنے اپنے تجزیے اپنی اپنی گرائونڈ رئیلٹیز پر ہی کرتے رہتے ہیں۔ قدرت کی حقیقت اپنی اور اٹل ہے۔ کس تجزیے میں تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی بذریعہ سوداگروں کی جانب سے ہی تسلیم شدہ ہارس ٹریڈنگ اور چمکتے ہوٹلوں میں مقفل منحرفین اور پھر زیر بحث بیرونی مداخلت، پی ڈی ایم کو دو ہفتے میں ہی گڑھے میں گرا اور ’’سلیکٹڈ وزیر اعظم‘‘ کو دیکھتے دیکھتے دنوں میں مقبول ترین اور مکمل وفاقی سیاست دان بنا دے گی۔ کیا کمایا پی ڈی ایم نے 20 سال بعد غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے، دوبارہ اچھے بھلے جاری و ساری سیاسی و آئینی عمل کو بری طرح ڈسٹرب کرکے؟ گزشتہ رات مشکل ترین فیصلوں کا اعلان کرتے وزیر خارجہ اور پٹرولیم پہلی مرتبہ خود بھی عوام کی طرح ہراسا ں ہونے کا تاثر دیتے معلوم ہوئے۔ مسلسل عشائیوں، ظہرانوں کی خبروں اور ہنستی مسکراتی تصویروں کے گناہ کاکفارہ ادا کرتے معلوم دیئے، لیکن اس سے قبل بھی پٹرول کے نرخ میں کھانے پینے کو کم کرنے والا اضافہ کر چکے تھے۔ یہ بدترین اور عوام کو پسماندگیوں کے ساتھ امکانی خوف میں مبتلا کرنا پی ڈی ایم کی ’’فتح‘‘ کا پہلا فوری نتیجہ ہے۔ واضح رہے کہ وزیر پٹرولیم نے ہراسگی میں یہ اعلان بھی کیا ہے کہ مشکل فیصلوں کا دورانیہ چھ سات ماہ کا ہےجب کہ کروڑوں غربا اور متوسط گھرانوں کیلئے پانچ سات دن کاٹنا مشکل ہیں۔ ٹیلر میڈ قانون سازی کرکے خود ہی مستقل این آر او اور آئندہ کیلئے بھی کرپشن جاری رکھنے کا مکمل پارلیمانی انتظام کرلیا۔ شہزادوں، شہزادیوں کی عملی سیاست میں اعلیٰ مناصب پر رونمائی ہوگئی۔ مولانا فضل الرحمٰن کے صاحبزادے کی بطور وزیر رونمائی ہوگئی۔ اسلم بھوتانی خوش نہیں، خالد مگسی بھی نہیں اور سب سے بڑھ کر ایم کیو ایم کو بھی عمران کا ساتھ چھوڑ کر پی ڈی ایم کے جھانسے میں آنے کا پچھتاوا ایسا کہ اجڑی پارلیمان کے اجڑے ہی بجٹ اجلاس میں پھٹ پڑے۔ بیرونی سازش ہوئی نہیں ہوئی، پر ریاستی اداروں اور جماعتوں میں اختلاف، ہمارا قومی انتشار بن گیا۔ بس پی ڈی ایم کا اتحاد اپنے بڑے بڑے خواص کے ساتھ تو محدود ترین ٹولہ لامحدود فوائد، آئینی غیر آئینی کھیل کھلواڑ کے ساتھ بینی فشری بنا اور عوام تاریکی اور بھوک کے سپرد کردیئے گئے۔ بلاشبہ انسان خسارے میں ہے۔