لائیڈ جارج کا ’’فولادی ڈھانچا‘‘ نسلہ ٹاور کیسے بنا؟

July 02, 2022

بات ہے 1922ء کی۔ لائیڈ جارج برطانیہ کے وزیر اعظم تھے۔ فیصلہ ہوا کہ انڈین سول سروس کیلئے مقابلے کا امتحان انگلستان کے علاوہ ہندوستان میں لیا جائے گا۔ اِس موقع پر اُنہوں نے آئی سی ایس کے بارے میں کہا، ’’ہم اِس ادارے میں نہ دخل اندازی کریں گے ، نہ اِس کے عمل میں رکاوٹ ڈالیں گے اور نہ اِسے مفلوج ہونے دیں گے، کیونکہ یہ ہماری انتظامیہ کا فولادی ڈھانچا ہے۔‘‘ انگریز بجا طور پر ہندوستان کو ایک مؤثر انتظامی نظام دینے پر نازاں تھے۔ اُنہیں اِس کام کو سر انجام دینے میں سو سال لگے، مگر ہم نے چند برسوں میں اِس فولادی ڈھانچے کو نسلہ ٹاور کی طرح زمین بوس کر دیا۔ ہندوستان میں معمولی ردو بدل کے ساتھ یہی فولادی ڈھانچہ آج بھی اُسی طرح قائم ہے جیسے انگریز چھوڑ کر گئے تھے۔ دونوں ملکوں میں مختلف اندازِ فکر اپنایا گیا۔ اِس تبدیلی کو سمجھنے کے لیے تاریخی پس منظر کا ذکر ضروری ہے۔

جب ہندوستان کی حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ آئی تو انتظامی عہدوں پر صرف یورپین نسل کے افراد نامزد ہوتے۔اِن منصب داروں کی ذمے داریاں، مغلیہ سلطنت کے حسنِ انتظام سے زیادہ مختلف نہ تھیں۔ جب برطانوی پارلیمنٹ کی قانون سازی سے، کمپنی کو اختیار ملا کہ وہ کم اہلیت کے عہدوں پر مقامی لوگوں کو تعینات کر سکتی ہے تو لارڈ میکالے 1834ء میں ہندوستان آیا۔ وہ ایک متعصب دانش ور اور نام نہاد تاریخ دان تھا جس نے ہندوستان میں عربی، فارسی اور سنسکرت کی کتابوں کا جائزہ لیا۔ مقامی دانش وروں کے دلوں میں یہ کہہ کر آگ لگائی کہ پورے ہندوستان میں دستیاب علم، یورپ کی کسی لائبریری کے ایک شیلف میں رکھی کتابوں سے زیادہ نہیں۔ اُس نے مقامی لوگوں کیلئے، انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے اور ہندوستان میں انتظامی عہدوں کے اُمیدواروں کو بہترین اور مفید تعلیم دے کر، صرف قابلیت کی بنا پر چُنائو کی سفارش کی۔ انگلستان کی اشرافیہ اِس تجویز کی مخالف تھی کیونکہ انگلستان میں اُس وقت، سرکاری عہدوں پر نامزدگیوں کا نظام رائج تھا۔ 1861ء میں انڈین سول سروس ایکٹ منظور ہوا۔ لارڈ میکالے کی وفات ہو چکی تھی، مگر اُس کی کوشش سے ہندوستان میں، برطانیہ سے بھی بیس سال پہلے بیورو کریسی کی سلیکشن کے لیے میرٹ کا نظام رائج ہوا۔

سیتندرا ناتھ ٹیگور، پہلا ہندوستانی تھا جو 1864ء میں برطانیہ میں امتحان دے کر، آئی سی ایس کا رُکن بنا۔ انگریز حکومت انڈین پینل کوڈ 1860)ء)، کریمنل پروسیجرکوڈ1872)ء) اور سول پروسیجر کوڈ 1908)ء)کے نفاذ سے بتدریج حکمرانوں اور رعایا کے تعلق کو ایک قانونی ڈھانچے سے منسلک کرتی رہی۔ بدیسی حکمران جانتے تھے کہ ہندوستانی، مختلف مذاہب، رنگ و نسل، ذات برادری اور لسانی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور اُن کے درمیان انصاف کا نظام ہی حکمرانی کیلئے ساز گار ماحول قائم رکھ سکتا ہے۔

آئی سی ایس افسران فخرکرتے کہ اُن کا انتخاب صرف قابلیت کی بنا پر ہوتا ہے۔ اُنہیں پُر کشش تنخواہ ملتی اور تربیت کی خاطر انگلستان کی مشہور یونیورسٹیوں،آکسفورڈ یا کیمبرج بھیجا جاتاہے۔ مقصد حصول تعلیم سے زیادہ گہرا تھا۔ مختلف تفریقات میں بٹے ہندوستانی افسران کے خیالات میں وُسعت اور روشن خیالی کو پنپنے کا موقع دے کر اُنہیں ایک آزاد خیال (Liberal) سوچ کا حامل بنانے کی ضرورت تھی۔ مقامی تعصبات، مذہبی، لسانی، ذات برادری، رنگ و نسل اور علاقائی وابستگیوں کی آلائشوں سے علیحدہ کرکے اُنہیں غیر جانب دار منتظم کے سانچے میں ڈھالنا، انگریز حکومت کا کارنامہ تھا۔ 1935ء میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کا نفاذ ہوا تو سیکشن 240-243اور 276کے تحت سول سروس کو آنے والے دور کی سیاسی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے، آئینی تحفظ دیاگیا۔

جب برصغیر، پاک و ہند کی آزادی قریب آئی تو ہندوستانی بری فوج ، فضائیہ اور سول انتظامیہ کے بہت سے افسران نے اپنی خدمات پیش کرنے کیلئے قائد اعظم سے ملاقاتیں کیں۔ جنرل شاہد حامد ، (فیلڈ مارشل آکن لیک کے اسٹاف افسر) نے اپنی کتاب (دُنیا بدل گئی)، ایئر مارشل اصغر خان کی خود نوشت اور قُدرت اللہ شہاب کی آپ بیتی میں ذکر ہے کہ ملاقات تو ہوئی، مگر قائد اعظم نے حوصلہ شکنی کرتے ہوئے، اُنہیں غیر جانبدار رہنے اور ہر صورت، قانون کے دائرے سے تجاوز نہ کرنے کا سبق دیا۔ آزادی کے بعد بھی قائد اعظم نے بارہا سول سروس کے اراکین کو واضح پیغام دیا ’’آپ نے فرائض منصبی ایمانداری اور بلا خوف ادا کرنے میں، عوام اور ریاست کی خدمت کے علاوہ کسی اور دبائو کا شکار نہیں ہونا۔‘‘ پاکستان بننے پر انتظامی ڈھانچے میں شامل افسران کو آئینی تحفظ حاصل رہا۔ اُن کی غیر جانب دارانہ تربیت کے نظام کو قائم رکھنے کے لیے ایک برطانوی افسر جیفری برگس، 1960ء تک سول سروس اکیڈمی کے سربراہ رہے۔ سی سی اے رولز 1930 کے تحت انتظامیہ کے لیے خود احتسابی کا نظام موجود تھا۔ مثال کے طور پر، لیاقت علی خان کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ایک افسر خواجہ عبدالرحیم (آئی سی ایس 1939ء) نوکری سے برطرف ہوئے۔ابتدائی دور میں پاکستانی ریاست شدید مالی مشکلات کا شکار رہی۔ سول انتظامیہ کیلئے دفاتر تو ایک طرف، اسٹیشنری تک موجود نہ تھی۔ سیاست کی بنیاد مضبوط نہ ہونے پر گیارہ سال حکومتیں تیزی سے بدلتی رہیں، مگر اِس مشکل دور میں سول انتظامیہ کے ’’فولادی ڈھانچے‘‘ نے پاکستان کو استحکام دیے رکھا۔ رُڈ یارڈ کپلنگ نے ایک دفعہ آئی سی ایس افسران کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا’’یہ ایسے آقا ہیں جو اپنے غلاموں سے زیادہ محنت کرتے ہیں۔‘‘

آزادی کے بعد، ایک طرف حکمرانوں کی آنکھوں میں توقعات کے الائو جل رہے تھے۔ ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کو املاک کی الاٹمنٹ میں کچھ افسران ملوث ہوئے، مگر قائد اعظم کی تربیت کا اثر تھا یا آئینی تحفظ کا اعتماد کہ بیشتر سول سروس اراکین نہ صرف ایماندار رہے بلکہ مقتدر حلقوں کی حکم عدولی کرتے رہے۔ اِن افسران کو بے لچک رویے کی سزا دینے میں تطہیری عمل سے کام لیا گیا۔ اور وہ ’’فولادی ڈھانچہ‘‘ جو سو سال کی محنت سے قائم ہوا تھا، صرف چند برسوں میں زمین بوس ہو گیا۔