IMF کے دباؤ پر تابوت میں آخری کیل

July 04, 2022

ابھی اشرافیہ پر لگائے جانے والے نئے ٹیکسوں پر ماہرین مختلف رائے پیش کررہے تھے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے 13بڑی صنعتوں جن میں سیمنٹ، اسٹیل، شوگر انڈسٹری، آئل اینڈ گیس، فرٹیلائزر اور بینکنگ انڈسٹری، ٹیکسٹائل، موبائل، کیمیکل، بیوریج، ایئر لائن، ایل این جی ٹرمینل اور سگریٹ مینوفیکچرنگ انڈسٹریز شامل ہیں، پر 10فیصد ’’سپر ٹیکس‘‘ عائد کرنے کا اعلان کردیا جس کے بعد ان سیکٹرز پر ٹیکس کی شرح 29 فیصد سے بڑھ کر 39فیصد ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ رئیل اسٹیٹ بروکرز، کار ڈیلرز، ریسٹورنٹ، جیولرز اور چھوٹی دکانوں کو بھی ٹیکس اور سیلز ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے گا جبکہ بلڈرز اینڈ ڈویلپرز پر فکس ٹیکس اور رہائشی اور کمرشل پلاٹس پر 50فیصد گین ٹیکس بھی لگایا گیا ہے۔ انفرادی اور کمپنیوں کی 15سے 20کروڑ روپے کی آمدنی پر ایک فیصد، 20سے 25کروڑ روپے کی آمدنی پر 2فیصد اور 30کروڑ سے زائد کی آمدنی پر 4 فیصد سپر ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ اعلان کے فوراً بعد پاکستان اسٹاک ایکسچینج 2055 پوائنٹس کریش ہوا اور انڈیکس 40661کی سطح پر آگیا تھا اور چند گھنٹوں میں سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب گئے کیونکہ جن صنعتوں پر سپر ٹیکس عائد کیا ہے، وہ کمپنیاں اسٹاک ایکسچینج کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔

وفاقی حکومت نے بجٹ میں رواں مالی سال 7004ارب روپے ریونیو وصولی کا ہدف رکھا تھا جبکہ IMF کے مطالبے پر یہ ہدف بڑھاکر 7426ارب روپے کردیا گیا ہے اور اس طرح 422ارب روپے کا اضافی ٹیکس عوام سے ’’سپر ٹیکس‘‘ کے ذریعے وصول کیا جائے گا۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ اس سال ایف بی آر نے 6125 ارب روپے کا ہدف حاصل کرلیا ہے۔ آئی ایم ایف کے دبائو پر وزیر خزانہ نے پیٹرول پر 10روپے اور ڈیزل پر 5روپے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (PDL) عائد کردی ہے جس سے پیٹرول کی قیمت میں14.85روپے اور ڈیزل کی قیمت میں 13.23روپے اضافہ ہوگیا ہے اور یکم جولائی سے پیٹرول کی نئی قیمت 249 روپے اور ڈیزل کی 277روپے فی لیٹر ہوگئی ہے جس سے حکومت کا IMF سے پیٹرولیم مصنوعات امپورٹ پر مرحلہ وار 50روپے PDL اور 11فیصد سیلز ٹیکس لگانے سے 750ارب روپے کا پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (PDL) ہدف کی وصولی ہوگی۔ اس کے برعکس دنیا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ٹیکسوں کی شرح میں کمی کررہی ہے۔ آئی ایم ایف نے حکومت کی بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کی 12لاکھ روپے سالانہ آمدنی پر ٹیکس چھوٹ بھی کم کرکے 6لاکھ روپے سالانہ کردی ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس اس وقت صرف دو راستے تھے، پہلا نئے انتخابات کا اعلان اور دوسرا اضافی ٹیکس عائد کرکے نیوکلیئر اسٹیٹ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانا ، موجودہ حالات میں حکومت نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سپر ٹیکس کے ذریعے پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے ٹیکس دہندگان پر نئے ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔

ان کی آراء میں حکومت کو ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ، غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی، زرعی ٹیکس، ہول سیلرز اور ٹریڈرز کے شعبوں پر ٹیکس عائد کرکے معیشت کو دستاویزی شکل دینا چاہئے تھی جس کیلئے ایف بی آر میں ٹیکس نادہندگان کا ڈیٹا موجود ہے۔ آئی ایم ایف کے مطالبے پر حکومت نے صنعتی شعبے پر پہلے ہی گیس، بجلی کے نرخوں اور شرح سود میں اضافہ کیا ہوا ہے اور اب ان پر مزید نئے ٹیکس صنعتی شعبے کی ترقی کو متاثر اور ملک میں مہنگائی میں اضافہ کرینگے جبکہ عوام کی اکثریت سپر ٹیکس لگانے کے فیصلے کو خوش آئند قرار دے رہی ہے۔ IMF چاہتا ہے کہ حکومت اپنی آمدنی بڑھائے اور اخراجات اور مالیاتی خسارہ کم کرے جس کیلئے حکومت کو مختلف اہداف دیئے گئے ہیں اور ان کی بجٹ میں منظوری آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر کا سبب ہے۔ IMF پروگرام کی بحالی کے بغیر ورلڈ بینک (9ارب ڈالر)، ایشین ڈویلپمنٹ بینک (8ارب ڈالر) اور ایشین انفرااسٹرکچر بینک (2 ارب ڈالر) نے ہماری 19 ارب ڈالر کے قرضے کی سہولتیں روکی ہوئی ہیں جبکہ سعودی عرب (3 ارب ڈالر) اور متحدہ عرب امارات (2 ارب ڈالرز) نے بھی سافٹ ڈپازٹ کے رول اوور اور قطر سے قرضے پر ایل این جی کی سپلائی کو پاکستان کے آئی ایم ایف معاہدے کی بحالی سے مشروط کردیا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ چین نے حال ہی میں اپنے 2.3 ارب ڈالر کے کمرشل ڈپازٹ کو رول اوور جبکہ فرانس نے G-20گروپ کے 107 ملین ڈالر قرضے کی ادائیگی 6سال کیلئے موخر کردی ہے۔ پاکستان کو 2023-24ء میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے 23 ارب ڈالر کی فنانسنگ چاہئے جس کیلئے آئی ایم ایف کے پروگرام کا جلد از جلد بحال ہونا پاکستان کی ساکھ اور روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کیلئے نہایت ضروری ہے۔ گزشتہ ایک سال میں روپے کی قدر میں 30 فیصد کمی ہوئی اور پاکستانی روپیہ 158 سے 205 کی نچلی سطح تک پہنچ گیا ہے جو ملک میں مہنگائی کا سبب ہے۔

قارئین! اگر ہماری حکومت کو 100 روپے ملتے ہیں تو اس میں 42روپے سود کی ادائیگی، 16 روپے دفاع، 13روپے گرانٹس، 7.4 روپے سبسڈی، 8.4روپے ترقیاتی منصوبوں اور 5.8روپے حکومتی امور چلانے پرخرچ ہوجاتے ہیں جبکہ باقی امور چلانے کیلئے حکومت کو 47روپےکا قرض لینا پڑتا ہے۔ ہمارے قرضے ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکے ہیں جن کی ادائیگی کیلئے ہمیں نئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں جس کیلئے ہم نے اپنے زیادہ سے زیادہ قرضوں کے حد قانون FRDLA کو بھی نظر انداز کردیا ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)