پنجاب کو چلنے دیں

July 04, 2022

گزشتہ چار سال کے دوران پنجاب کے ساتھ جو ظلم و زیادتی ہوئی ہےاس کی 75سالہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یہ پہلا موقع تھا جب پنجاب کی ہر طرح کی ترقی کے آگے بند باندھ دیئے گئے، جو کچھ موجود تھا اُسے بے دردی سے بانٹا اور ضائع کیا گیا۔ وہ صوبہ جو پورے ملک کی غذائی ضروریات پوری کرتا تھا ایسا مرجھایا کہ گندم، چینی اور تیل سمیت مختلف غذائی اشیاء درآمد کرنے کی نوبت آ گئی۔ سوائے (ممی ڈیڈی) کلاس کے کسان، تاجر، مزدور، سرکاری ملازمین اور سفید پوش سب پریشان تھے۔

میں ان تمام ناکامیوں کا ذمہ دار عثمان بزدار صاحب کو ہر گز نہیں سمجھتی اس لئے کہ انہوں نے نہ طاقت کے زور پر حکومت حاصل کی نہ ہی اپنے حامیوں کے ذریعے کسی طرح کی بلیک میلنگ کر کے اقتدار میں آئے۔ انہوں نے تو اپنی سادگی میں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ میں ابھی ٹریننگ لے رہا ہوں۔ قصور تو انہیں یہ نام کا عہدہ دینے والوں کا تھا جس کی الف، بے سے بھی وہ واقف نہیں تھے۔ ایک طرف سینئر صوبائی ارکان، اسمبلی ممبران سے ہچکچاہٹ تو دوسری طرف سرکاری کاموں سے عدم واقفیت نے ان کا مورال بلند ہونے ہی نہ دیا۔ بس اپنی مرضی کے شکار کے لئے ان کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی جا رہی تھی۔

کاغذوں پر ان کے دستخط ہوتے تھے مگر حکمت اور حکم کسی اور کا ہوتا تھا۔ ان پردہ نشین کرداروں نے جس بے دردی سے پنجاب کے ساتھ کھلواڑ کیا وہ سب پر عیاں ہو چکا ہے۔ 2013-18ء کے دوران شہباز شریف نے صوبے میں تعلیم، صحت و صفائی، اورنج ٹرین، میٹرو اور دیگر شعبوں میں جس رفتار کے ساتھ کام شروع اور پایۂ تکمیل کو پہنچایا تھا اُسے بریک لگا دی گئی۔ صوبے کا زیادہ تر بجٹ جنوبی پنجاب کے لئے مختص ہوتا رہا مگر وہاں بھی کوئی قابلِ ذکر کام اور تبدیلی نظر نہیں آئی۔ کاش جنوبی پنجاب کے لئے مختص رقوم وہاں حقیقی معنوں میں خرچ بھی کی جاتیں اور کاغذوں پر موجود منصوبے عملی طور پر دکھائی دیتے تو بھی غنیمت تھا تاہم مجموعی طور پر پنجاب جو پاکستان کا خوشحال ترین صوبہ تھا کنگال کر دیا گیا اور اس کی فصلوں اور کارخانوں کی پیداوار متاثر ہونے سے ملکی ترقی پر بھی منفی اثرات پڑے۔ سوال یہ ہے کہ آخر پنجاب کو کب تک مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کی سزا دی جاتی رہے گی؟ کب تک تیسری، چوتھی قوت کے ذریعے ترقی کے راستے مسدود کئے جاتے رہیں گے؟

وفاق کے علمبردار اسی پنجاب نے ذوالفقار علی بھٹو کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے میں اہم کردار ادا کیا اور پھر ان کی پھانسی کے بعد جو کوڑے سہے ان کی اذیت ابھی تک اس کی فضائوں میں آہ بن کر بین کر رہی ہے۔ پنجاب صوفیاء کی دھرتی ہے اور صوفیاء کی روایات اس کی مٹی، فضائوں اور یہاں کے باسیوں کے مزاج اور رویوں میں رچی ہوئی ہیں۔ فطرتاً اس دھرتی کا ہر فرد رواداری، خیر اور اخوت کے جذبات رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے دوسرے صوبوں کے افراد کے لئے ہمیشہ کشادگی کا ثبوت دیا ہے۔ ملک کے وسیع تر مفاد کے لئے بہت کچھ جھیلا اور برداشت کیا ہے لیکن کچھ گروہوں کی طرف سے پنجاب کو سخت ترین تنقید کا سامنا رہتا ہے۔ یہ لوگ صرف چند اعلیٰ عہدے داروں کو نظر میں رکھ کر بات کرتے ہیں۔ وہ ہزاروں نوجوانوں کی لاشیں وصول کرنے والی مائوں کے درد نہیں سمجھتے۔ وہ چند بڑے شہروں کی چمکتی سڑکوں اور پرتعیش زندگی سے کڑھتے ہیں۔مگر افسوس کہ انہیں یہاں کے دیہات، کچی آبادیاں، بھٹوں، کھیتوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی کسمپرسی کی خبر نہیں۔

پنجاب کو ایک مخلص، متحرک اور محنتی ٹیم کی ضرورت ہے۔ حمزہ شہباز اپنے والد کے ریکارڈ کو ضرور آگے لے جا سکتے ہیں، اگر انہیں پوری آزادی سے کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ ملک کی معاشی حالت کے پیش نظر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں جاری ڈرامہ اب ختم ہو جانا چاہئے۔ اس میں کسی رہنما کا نقصان نہیں ہو رہا صرف پنجاب اور یہاں بسنےوالوںکو کھڈے لائن لگایا جا رہا ہے اور اس کامنفی اثر پورے ملک کی معیشت جھیل رہی ہے۔ ضروری تھا کہ غیر یقینی پتھریلی ڈھلوانوں پر ڈانواں ڈول معیشت کی گاڑی کو سیدھی سڑک پر رواں دواں کرنے کے اقدامات کئے جاتے مگر مزید گڑھے کھودے جا رہے ہیں۔ اہم اور سنجیدہ معاملات پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے خواہ مخواہ کی الجھنوں میں سب کو الجھایا جا رہا ہے۔ یاد رہے پنجاب کے باسی بڑے عرصے سے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور امتیازی سلوک پر رنجیدہ ہیں اور جو بھی جماعتیں پنجاب کو اپنی ذات کے لئے انتقامی سیاست کا ہدف بنا رہی ہیں انہیں پذیرائی حاصل نہیں ہو گی۔ خدارا پنجاب کو چلنے دیں، پاکستان کو آگے بڑھنے دیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)