مسلسل تھکاوٹ، صحت کی دشمن

July 14, 2022

کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ مسلسل تھکاوٹ کا شکار ہونے کے خطرے میں ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ مضمون آپ کے بہت کام آ سکتا ہے۔

مسلسل تھکاوٹ کیوں محسوس ہوتی ہے؟

ذہنی دباؤ: ریٹا نامی 21سالہ لڑکی کہتی ہے، ’’ہم پر اکثر اس بات کا دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ ہم ہر کام اچھے سے اچھے طریقے سے کریں، خود کو اور بہتر بنائیں، اپنے لیے بڑے بڑے منصوبے ترتیب دیں اور کامیابی کی بلندیوں کو چھوئیں۔ ہر وقت اس دباؤ میں رہنا آسان نہیں‘‘۔

ٹیکنالوجی: موبائل فون، ٹیبلٹ وغیرہ کی وجہ سے آج لوگ 24 گھنٹے ایک دوسرے سے رابطے میں رہ سکتے ہیں۔ یہ بات ذہنی دباؤ اور الجھن کا باعث بن سکتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک شخص کو مسلسل تھکاوٹ میں مبتلا کر سکتی ہے۔

نیند کی کمی: مرینڈا نامی 24 سالہ لڑکی کہتی ہے، ’’اسکول، کام اور تفریح کی وجہ سے بہت سے نوجوان صبح سویرے اُٹھتے ہیں اور رات دیر تک جاگتے رہتے ہیں جو کہ ان کے لیے کافی نقصان دہ ہے۔ نیند کا پورا نہ ہونا اکثر مسلسل تھکاوٹ کا باعث بنتا ہے‘‘۔

مسئلے کی سنجیدگی

یہ بات درست ہے کہ انسان کو سستی چھوڑ کر محنتی ہونا چاہیے۔ محنت کرکے ہی ایک شخص اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کو یقینی بنا سکتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کام میں اس قدر مگن ہو جائیں کہ اس کا اثر ہماری زندگی، یہاں تک کہ ہماری صحت پر پڑنے لگے۔ نِک جانسن نامی نوجوان ایک مالیاتی ادارے میں کام کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ’’مالیاتی شعبہ میں کام کرنا آسان نہیں۔ کام کا دباؤ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ اگر آپ دھیان نہ رکھیں تو صبح سے شام ہوجائے گی اور کام ختم نہیں ہوگا۔ ابتدائی دنوں میں مجھے یہ احساس ہی نہیںہوا، میں اپنی ذمےداریوں کو نبھانے میں اتنا گم ہو گیا تھاکہ میں نے دوپہر کا کھانا ہی چھوڑ دیا تھا۔ پھر میں نے سیکھا کہ اپنی صحت کو نظرانداز کر کے ہر کام کرنے کی ہامی بھرنا اچھا نہیں ہوتا‘‘۔

کہتے ہیں کہ زندہ بلی مُردہ شیر سے بہتر ہے۔ شاید آپ کو لگے کہ آپ میں شیروں جیسی طاقت ہے اور آپ ہر اس کام کو کر لیں گے جو آپ کو دیا جائے گا۔ لیکن اگر آپ خود کو تھکن سے چُور کر لیں گے تو آپ کی صحت پر بہت بُرا اثر پڑ سکتا ہے۔

آپ کو کیا کرنا چاہیے؟

نہ کہنا سیکھیں: آپ یہ مت سوچیں کہ آپ ہر کام کرسکتے ہیں۔ اگر آپ کو کوئی ایسا کام دیا جاتا ہے جو آپ کی ذمہ داری نہیں ہے تو یہ سوچ کر وہ ذمہ داری مت لے لیں کہ اس سے آپ کی واہ واہ ہوگی۔ آپ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ آپ صرف وہی کام اچھی طرح کرسکتے ہیںجو آپ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ادھر ادھر کے کاموں کی ذمہ داری لینے کے بجائے اپنے کام میں مزید مہارت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

اسی میں سب کی بہتری ہے۔ آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کون سے کام کرنا آپ کے بس میں ہے اور کون سے کام آپ نہیں کرسکتے۔ جب آپ یہ بات سمجھ لیں گے تو اس کے بعد آپ اتنے ہی کام کرنے کی ہامی بھریں گے جتنے آپ کرسکتے ہیں۔ عام طور پر وہی شخص مسلسل تھکاوٹ کا شکار ہوتا ہے، جسے نہ کہنا نہیں آتا اور جو ہر کام کو قبول کر لیتا ہے۔ ایسا شخص حقیقت پسندی سے کام نہیں لے رہا ہوتا اور کبھی نہ کبھی تھکاوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔

آرام کریں: کہتے ہیں کہ مٹھی بھر آرام ، ہوا کے تعاقب سے بھری ہوئی دو مٹھیوں سے بہتر ہے۔ نیند کو’’دماغ کی غذا‘‘ کہا جاتا ہے لیکن زیادہ تر نوجوان رات کو آٹھ گھنٹے کی نیند نہیں لیتے جو کہ ان کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ رچرڈ سن نامی نوجوان اپنا تجربہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’جب مجھے بہت سے کام نپٹانے ہوتے ہیں تو میں پوری نیند نہیں لیتا۔ لیکن ایک دو گھنٹے زیادہ سو جانے سے اگلے دن میں اکثر اور اچھی طرح سے کاموں کو کر پاتا ہوں اور میرا موڈ اچھا رہتا ہے‘‘۔

منصوبہ بندی کریں: محنتی شخص کے منصوبے منافع بخش ہوتے ہیں۔ پہلے سے یہ طے کرنا سیکھیں کہ آپ ایک دن میں کتنے کام کریں گے اور انہیں کب کریں گے۔ یہ بات سیکھنے سے آپ کو زندگی بھر فائدہ ہوگا۔

رچرڈ مائیکل لوگوں کو ٹائم مینجمنٹ سکھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر آپ ایک شیڈول بنائیں گے تو آپ بلاوجہ کی ٹینشن سے بچ جائیں گے۔ جب آپ اپنے شیڈول کو سامنے رکھ کر کوئی کام کریں گے تو آپ کے لیے اندازہ لگانا آسان ہوگا کہ کن کاموں میں ردوبدل کیا جا سکتا ہے تاکہ آپ مسلسل تھکاوٹ کا شکار نہ ہو جائیں‘‘۔

مطمئن رہیں: کچھ لوگ زیادہ پیسہ کمانے کی وجہ سے مسلسل تھکاوٹ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ لیکن دھیان رہے کہ دنیا کی محبت میں انسان مزید سے مزیدتر کی جستجو میں رہتا ہے۔ اگر آپ کے پاس ضرورت کی چیزیں موجود ہیں تو اُنہی پر مطمئن رہنے کی کوشش کریں۔ اس بات سے ہمیں یہ ترغیب ملتی ہے کہ ہم سادہ زندگی گزاریں اور ان چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے دن رات کام نہ کریں، جن کی ہمیں ضرورت نہیں۔

شیڈول بنائیں: روزانہ یا ہفتہ وار بنیاد پر ایک شیڈول بنائیں، جس میں آپ اپنی ترجیحات اور ضروریات کے مطابق مختلف کاموں کے لیے اپنے دن کے اوقاتِ کار متعین کریں۔ اس سے آپ کو یہ پتہ چلے گا کہ آپ کن کاموں میں اپنا وقت خرچ کررہے ہیں اور آپ ان میں سے کون سے کاموں کو کم وقت میں پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں یا یہ بھی ممکن ہے کہ دیگر اہم کاموں کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے آپ غیراہم کاموں کو اپنے شیڈول میں سے نکال دیں اور وہ وقت خود کو اور اپنے خاندان کو دیں۔