1907ء سائنسی تاریخ کا اہم سال تھا۔ اس سال بیلجیم نژاد امریکی کیمیا دان لیؤ بیکے لینڈ نے ’’بیکے لائٹ‘‘ ایجاد کیا۔ بیکے لائٹ کیمیائی فارمولے کے تحت بڑے پیمانے پر تیار کیا جانے والا دنیا کا پہلا اصلی پلاسٹک تھا، جو ابھی تک اسی حالت میں استعمال ہوتا ہے۔
دنیا نے اس ایجاد کو ایک بڑا انقلاب قرار دیا تھا۔ تاہم افسوس کہ آج ایک صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد وہی پلاسٹک دنیا کے لیے وَبالِ جان بن چکا ہے۔ کرہ ارض سے لے کر سمندر کی گہرائیوں تک آج شاید ہی کوئی ایسا جگہ باقی رہ گئی ہو، جہاں پلاسٹک سے بنی اشیا سفر کرکے نہ پہنچی ہوں۔
جب سے پلاسٹک کی ڈسپوزیبل بوتلوں میں پانی ملنا شروع ہوا ہے تو عام خیال یہی ہے کہ پینے کو صاف و شفاف پانی مل رہا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ منرل واٹر فراہم کرنے والی کمپنیاں کس قدر ایمانداری سے کام کررہی ہیں، ہم پلاسٹک کی بوتلوں کے استعمال اور ان سے ہونے والی زمینی اور سمندری آلودگی کے بارے میں بات کریں گے کیونکہ یہ ایک ہولناک صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے۔
پلاسٹک کی بوتلوں کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر بوتلوں میں BPAیعنی کاربن پر بنیاد کردہ سنتھیٹک مادہ بائی اسفینول اے(Bisphenol A) ہوتاہے، جو پانی کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی متاثر کرتاہے۔ اس پانی سے مردوں اور عورتوں میں ماں بننے کی صلاحیت میں کمی کے ساتھ ساتھ وٹامن ڈی کی کمی اوردل کی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں۔ چین میں جب طلبا کا یورین ٹیسٹ کیا گیا تو ان کا BPAزیادہ نکلا اور وہ موٹاپے کا بھی شکار ہورہے تھے۔
جرمنی میں جب پانی کی بوتلوں کو ٹیسٹ کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس پانی میں کئی قسم کے کیمیکلز جیسے کہ فرٹیلائزر، بیکٹیریا، کلورینیشن، بائی پروڈکٹس، بینزین، آرسینک یہاں تک کہ ٹائلینو پایا گیا، جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ پانی اتنا بھی محفوظ نہیں جتنا کہ آپ کے گھر میں موجود پانی ہوتا ہے، جو ROپلانٹ سے ٹریٹ کیا گیا یا دو بارہ اُبالا گیا ہوتاہے۔ حقیقت تو یہ ہےکہ پانی کی ایک بوتل میں24ہزار سے زائد کیمیکلز ہوسکتے ہیں او ر ان کے مضر اثرات کی وجہ سے کینسر، ہارمونز یا خون کی خرابی کا خطر ہ ہوسکتا ہے۔
پلاسٹک کی بوتلیں عام طور پرری سائیکل نہیں ہوتیں، انہیں پھینک دیا جاتاہے یا پھر یہ سمندر برد ہو جاتی ہیں۔ پلاسٹک کی بوتلیں سمندری مخلوق کی غذا بنتی ہیں، جس سے سمندری حیات خطرے میں پڑنے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سمندری اور زمینی آلودگی کی وجہ سے ارضیاتی اور موسمی تبدیلیوں میں شدت آتی جارہی ہے۔ سمندری آلودگی سے مچھلیاں اور دیگر سمندری مخلوقات کی نسلیں خطرے میں ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تین ارب آبادی سمندری غذا سے حاصل ہونے والی پروٹین پر انحصار کرتی ہے۔ جس ہوا میں ہم سانس لیتے ہیں اس کا 70فیصد سمندری نباتات کے ذریعے آتا ہے جبکہ دنیا کو مہیا کیے جانے والا 97فیصد پانی سمندروں سے آتا ہے۔
اب آپ خود سوچیں جب سمندر پلاسٹک سے بھر جائے گا اور پانی گرم ہونے کی وجہ سے آئس کیپس یا آئس برگ پگھلنے لگ جائیں گے تو سمند ری حیات کے معدوم ہونے کا خطرہ گہرا ہوتاچلا جائے گا۔
اس سلسلے میں اقوام متحدہ اور بہت سی این جی اوز کام کررہی ہیں، اہداف مقرر کررہی ہیں جبکہ آگاہی کے پروگرام بھی جاری ہیں اور ڈاکیومینٹریز بھی بن رہی ہیں۔ 1982ء میں Law of the Seaکے نام سے ایک قانو ن بھی وضع کیا گیا تھا، جس کے تحت دنیا کے سمندروں کا مستقبل بشمول اس کی معاشی ترقی اور انسانی صحت پر اثرات کے حوالے سے مختلف ملکوں کے سربراہوں نے بھی مباحثے کیے تھے۔
ان تمام تر کاوشوں کے علاوہ بحیثیت زمینی باشندہ ہونے کے ہمیں انفرادی طور پر بھی عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری استعمال کردہ ڈسپوزیبل بوتلوں کا جب ڈھیر لگتا ہے تو سمندر تک پہنچتے ہوئے یہ تعداد 8 ملین ٹن سالانہ تک پہنچ جاتی ہے۔ ان بوتلوں میں موجود کیمیکلز سمندری حیات کیلئے زہر قاتل ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم اور ایلان میک کرتھر فائونڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق 2050ءتک سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک ہوگا۔
دنیا میں ہر سال300ملین ٹن پلاسٹک تیار کیا جاتاہے اور اس کا50فیصد یعنی 150ملین ٹن ایک بار استعمال کرکے پھینک دیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں سالانہ500 بلین پلاسٹک بیگس تیار ہوتے ہیں، جن کے استعمال کی اوسط مدت15منٹ ہوتی ہے، اس کےبعد وہ انسانی ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ دنیا بھر کے کچرے کا14فیصد پلاسٹک کنٹینرز ہیں جبکہ ایک لیٹر پلاسٹک بوتل کی تیاری میں0.25 لیٹر آئل اور 6لیٹر پانی خرچ ہوتا ہے۔
پلاسٹک کی بوتلیں ایک بار استعمال کرلی جائیں تو پھر دوبارہ استعمال نہیں کی جاسکتیں کیونکہ ایسا کرنا مضرِ صحت ہے، صرف مخصوص پلاسٹک کی بوتلیں ہی دوبارہ استعمال کے قابل ہوتی ہیں، جن پر مخصوص نمبر درج ہوتا ہے۔
ناقابلِ استعمال بوتلوں کو استعمال کرنے کا مطلب ہے کہ آپ کیمیکلز کو اپنے اندر اُتار رہے ہوں گے۔ ایسی بوتلو ں کی قیمت کم ہوتی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ بچت کرنے کے چکر میں آپ کو زیادہ ادائیگی کرنی پڑجائے۔
جہاں تک ممکن ہوپلاسٹک بیگ کی جگہ پیپربیگ استعمال کریں اور پلاسٹک کی بوتلوں، ڈسپوزیبل کپ، کٹلری، اسٹرا اور کافی پوڈز کے استعمال سے گریز کریں۔ اپنا پانی شیشے کے فلاسک یا اسٹین لیس اسٹیل بوتل میں ساتھ رکھیں۔ آپ کو اس بات کا یقین رہے گا کہ آپ کیمیکلز سے پاک پانی پی رہے ہیں۔ ایسا کرنے سے آپ ڈسپوزیبل بوتل کو تلف کرنے کی جھنجٹ اور آلودگی میں اضافہ کرنے کے افسوس سے بچ جائیں گے۔