ایک طرف جدید سائنس نے انسان کے لیے جہاں کئی آسائشیں پیدا کردی ہیں تو وہیں دورِ جدید کی تیز رفتار زندگی نے انسان کو فطرت سے بھی دور کردیا ہے۔ آج کے زمانے میں انسان ’’اِن ڈور‘‘ کا ہوکر رہ گیا ہے۔ ہم اپنے اِرد گِرد پر بھی اگر ایک نظر دوڑا کر دیکھ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ گھر میں چھت کے نیچے اور کام کی جگہ پر بھی ایک چھت تلے اپنا زیادہ تر وقت گزارتے ہیں۔ دورانِ سفر بھی زیادہ تر لوگ ایک طرح سے ’’اِن ڈور‘‘ ہی رہتے ہیں۔
ہمارا یہ ’’لائف اسٹائل‘‘ دیکھنے میں تو ہمیں بہت ہی سہل اور پُرآسائش معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے ہم سست پڑنے کے ساتھ ساتھ ہماری صحت بھی کمزور پڑتی جارہی ہے، کیونکہ سہل پسندی کے باعث ہمارا جسمانی مدافعتی نظام ’’کمزور‘‘ اور ’’نازک‘‘ بنتا جارہا ہے۔
ماہرین کے مطابق، آج کے تیز رفتار دور میں، فطرت سے جُڑے رہنے اور اچھی صحت کو قائم رکھنے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی روز مرہ کے معمولات میں روزانہ کی بنیاد پر ورزش کے لیے وقت مختص کردے۔
ورزش کا اوسط یومیہ دورانیہ 30منٹ سے کم نہیں ہونا چاہیے، تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ہر شخص کو روزانہ ایک گھنٹے تک ورزش کرنی چاہیے۔ تاہم بدقسمتی سے دنیا بھر کے نوجوانوں کو اس اہم روزمرہ کی سرگرمی کے لیےنہ تو فرصت ہے اور نہ ہی انھیں ضروری وسائل دستیاب ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کیا کہتا ہے؟
صحت کے عالمی ادارے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں 11 سے 17 سال کی عمر کے ہر 5میں سے 4بچے صحت مند اندازِ زندگی کے لیے درکار ورزش نہیں کر رہے۔
ڈبلیو ایچ او کی جانب سے کیا جانے والا یہ اپنی نوعیت کا ایسا پہلا جائزہ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ درکار ورزش نہ کرنے کی وجہ سے بچوں کی ذہنی نشوونما اور معاشرتی صلاحیتیں متاثر ہو رہی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ ایک گھنٹے کی ورزش نہ کرنے کا مسئلہ غریب اور امیر دونوں ممالک میں موجود ہے۔
ورزش اور صنفی فرق
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے یہ جائزہ 146ممالک میں لیا گیا ہے۔ان میں سے چار ممالک ایسے ہیں، جہاں لڑکیاں، لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ورزش کرتی ہیں، ان میں ٹونگا، ساموئا، افغانستان اور زامبیا شامل ہیں۔ باقی 142 ملکوں میں لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کے ورزش کرنے کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق ورزش میں سب سے آگے بنگلہ دیشی بچے ہیں مگر وہاں بھی 66 فیصد بچے ایک گھنٹے کی ورزش نہیں کر رہے۔ فلپائن میں لڑکے (93 فیصد) اور جنوبی کوریا میں لڑکیاں (97 فیصد) سب سے کم ورزش کر رہے ہیں۔ برطانیہ میں 75 فیصد لڑکے اور 85 فیصد لڑکیاں مجوزہ ہدف تک ورزش نہیں کر رہے۔ تحقیق کے مطابق عالمی سطح پر 85 فیصد لڑکیاں مجوزہ ورزش نہیں کر پا رہیں اور 78 فیصد لڑکے ایسا نہیں کر پا رہے۔
ورزش کسے کہتے ہیں؟
بنیادی طور پر ورزش ہر اس جسمانی سرگرمی کو کہا جاسکتا ہے، جس سے انسان کے دل کی دھڑکن کی رفتار تیز ہواور پھیپھڑوں کو زور سے سانس لینا پڑے۔ اس سرگرمیوں میں بھاگنا، سائیکلنگ، تیراکی، فٹ بال اور دیگر تمام ایسی چیزیں شامل ہیں۔ ایک دن کے لیے درمیانی سے شدید ورزش کا ہدف 60 منٹ کا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ایک گھنٹے کی ورزش کوئی ’’بہت مشکل ہدف نہیں ہے‘‘۔
اگر آپ کو اچھی صحت چاہیے اور نوجوانوں کو اچھی صحت کے ساتھ اچھا ذہن اور نشونما چاہیے تو انھیں روزانہ ایک گھنٹے کی ورزش کرنی چاہیے۔ روزانہ باقاعدگی سے ورزش کرنے کے قلیل مدتی سے لے کر طویل مدتی فوائد ہیں۔
انسان ورزش کرکے فوری طور پر جو فوائد حاصل کرسکتا ہے، ان میں بہتر ذہنی صحت، متعدل وزن، مضبوط پٹھے اور ہڈیاں، اور صحت مند دل اور پھیپھڑے شامل ہیں۔ جبکہ طویل مدت میں ورزش کرنے والا شخص زیادہ دیر تک توانا، صحت مند اور جوان رہنا اور بوڑھاپے کی بیماریوں جیسے الزائمر، ہڈیوں کا بھربھراپن وغیرہ سے محفوظ رہتا ہے۔
مزید برآں، عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ’صحت مند بچوں کے صحت مند نوجوان بننے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اور عمر بھر میں دیکھیں تو ان کے دل کے امراض اور ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے امکانات بھی کم ہوتے ہیں۔ اس بات کے بھی زیادہ سے زیادہ شواہد مل رہے ہیں کہ ورزش ذہنی نشوونما کے لیے بھی اہم ہے۔انھیں چیزیں سیکھنے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے، ان کا معاشرتی برتاؤ بہتر ہوتا ہے اور ان کا ذہن زیادہ تیز ہوتا ہے‘‘۔
نوجوانوں میں کم ورزش کے رجحان کی وجوہات
ماہرین کے مطابق، ورزش کرنا نہ کرنا درحقیقت ترجیحات کی بات ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے جائزے میں کم ورزش کرنے کی وجوہات کو تو شامل نہیں کیا گیا، تاہم کچھ باتیں عام رجحان معلوم ہوتی ہیں۔ ایک وجہ جسمانی صحت کے مقابلے میں تعلیمی کارکردگی پر توجہ ہے۔ رپورٹ کی مصنفین میں سے ایک لیئین رائلی کہتی ہیں، ’’اس عمر کے بچوں کو پڑھائی پر زور دینے کے لیے بہت کہا جاتا ہے۔
وہ اکثر دن کا ایک بڑا حصہ بیٹھ کر پڑھنے میں گزار دیتے ہیں، اسی لیے انھیں ورزش کے مواقع کم ملتے ہیں‘‘۔ محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کھیلوں کی سہولیات کے محفوظ ہونے، ان تک رسائی ہونے اور ان کی لاگت کم ہونے کے حوالے سے بھی خدشات سامنے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ، خطرناک سڑکوں کا مطلب ہے کہ کسی دوست کے گھر یا اسکول تک سائیکل پر یا پیدل جانا اب آپشن نہیں ہے۔
محققین کے مطابق، نوجوانوں میں کم ورزش کی ایک وجہ اسمارٹ گیجٹس کا عام ہونا بھی ہے۔ ویڈیو گیمز، انٹرٹینمنٹ کے فون، ٹیبلٹ یا کمپیوٹر ز کے ہونے کی وجہ سے بھی بچوں کے پاس ورزش کے لیے وقت نکالنا ممکن نہیں رہتا۔