تحریک انصاف مقبولیت کو کھونے کیلئے گڑھے خود کھود رہی ہے

August 12, 2022

اسلام آباد (فاروق اقدس/ تجزیاتی رپورٹ) ایک ایسی صورتحال میں جب تحریک انصاف اور چیئرمین کو متعدد مشکلات اور ایسے خدشات کا سامنا ہے جس سے انکی اور سیاسی جماعت کی بقاء خطرے میں دکھائی دیتی ہے ایسے میں خود انکے پیدا کردہ حالات مسلسل نہ صرف انکی مقبولیت کیلئے نئے نئے گڑھے کھود رہے ہیں بلکہ کارکنوں اور حامیوں کو بھی ان سے وابستگی برقرار رکھنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں، ابھی عمران خان کے چیف آف سٹاف کے بیان کا تنازعہ پوری شدت کیساتھ موجود ہے اور نئے نئے انکشافات اور تنازعات سامنے آرہے ہیں ایسے میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم اور عمران خان کے ٹیلیفونک رابطے کی خبریں سامنے آگئی ہیں .

بیان کیا جارہا ہے ٹیلیفونک رابطہ گزشتہ دنوں اسوقت ہوا جب امریکی سفیر خیبرپختونخوا کے آفیشل وزٹ پر تھے ، گوکہ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے نے سفیر اور عمران خان کے درمیان مبینہ طور پر ہونیوالے ٹیلیفونک رابطے کی تصدیق نہیں کی اور اس حوالے سے سفارتخانے کے ترجمان یا کسی دوسرے ذمہ دار سے تصدیق کرنے کی کوشش میں ایک رابطہ کار نے پشاور میں سفیر کی مصروفیات کے حوالے سے بات کرنے کی کوشش کے حوالے سے پشاور میں جنگ کے نمائندے کو ترجمان کا جواب یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ترجمان اس نوعیت کے سوالوں کا جواب نہیں دیتا تاہم اس حوالے سے سامنے آنیوالی خبروں کے مطابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے وزیراعلیٰ ہائوس کے سائیڈ روم میں تنہا لے جاکر امریکی سفیر اور سابق وزیراعظم عمران خان کی بات کرائی تھی عمران خان اور ڈونلڈ بلوم کے درمیان ہونیوالی مبینہ گفتگو کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ عمران خان نے جہاں سفیر سے شکوہ کیا کہ امریکی حکومت کو اپنے انڈر سیکرٹری دونلڈ لو کے پاکستان اور میری حکومت کے بارے میں خیالات کو امریکی حکومت کا موقف نہیں بنانا چاہئے تھا کیونکہ پاکستان کے عوام نے اسی لئے امریکہ کیخلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا ان خبروں کے مطابق امریکی سفیر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ۔ مجھے بطور امریکی سفیر اپنی ذمہ داریاں سنبھالے محض دو ماہ کا عرصہ ہوا ہے بہرکیف میں آپکے خیالات اور موقف سے اپنی حکومت کو آگاہ کروں گا اب ایک طرف تو عمران خان تحریک عدم اعتماد سے ختم کی جانیوالی اپنی حکومت کو امریکی سازش قرار دیتے ہیں اور اس میں قومی اداروں کو بھی ملوث کرنے کے الزامات عائد کرتے ہیں اور یہ بات بھی وضاحت طلب ہے کہ انکی حکومت کے خاتمے پر پاکستان میں کب اور کہاں امریکہ کیخلاف عوامی سطح پر ردعمل دیکھنے میں آیا تھا، دوسری طرف اپنی خواہش پر اپنی حکومت کیخلاف سازش کرنیوالے ملک کے سفیر سے راز ونیاز بھی کرتے ہیں کیونکہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بنی گالہ سے ہونیوالی خواہش کے پیش نظر ہی امریکی سفیر سے گفتگو کا اہتمام کیا گیا تھا پھر ایک سابق وزیر اعظم کا کسی غیر ملکی سفیر سے اس طرح فون پر گفتگو کرنا اور وہ بھی ایسے ملک کے سفیر سے جس پر وہ خود اسکی حکومت ختم کرنے کا الزام عائد کرتا ہو، کسی طرح سابق وزیراعظم کے شایان شان اور سفارتی آداب کے منافی ہے، مزید تفصیلات منظرعام پر آنے سے تحریک انصاف اور چیئرمین کے بارے میں پیدا ہونیوالا تاثر انکی حمایت میں ہرگز نہیں جائیگا گوکہ کے پی کی حکومتی شخصیات ٹیلیفونک گفتگو کے بارے میں تصدیق کرنے سے گریزاں ہیں اور انکا موقف ہے کہ اگر عمران خان نے سفیر سے ٹیلیفون پر گفتگو کرنی تھی تو وہ سفیر سے اسلام آباد میں بھی کرسکتے تھے لیکن اسلام آباد میں موجود ایک قابل اعتماد ذریعے کا کہنا ہے کہ عمران خان کے پاس امریکی سفیر سے اعلانیہ طور پر ملنے کا کوئی جواز نہیں تھا اور اگر وہ اسلام آباد میں امریکی سفیر سے ٹیلیفون پر بات کرتے تو انکی ٹیلیفونک گفتگو محفوظ نہیں رہتی کیونکہ وفاقی دارالحکومت میں سیاستدانوں اور اہم شخصیات کے فون ٹیپ کرنے کے اختیارات اور ذمہ داری شروع سے ہی ان ایجنسیوں اور اداروں کے پاس ہیں جنہیں وفاق کنٹرول کرتا ہے اور جہاں مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کی حکومت ہے جبکہ کے پی میں خود تحریک انصاف کی حکومت ہے اسلئے وہاں صوبائی انتظامیہ یہ عمل ناممکن بناسکتی ہے۔