شاطرانہ چالیں

August 13, 2022

اصل کمال عمران خان کا تھا جب کہ نیوٹرلز نے اصل غلطی کا ارتکاب کیا۔ عمران خان بڑے چالاک، شاطر اور میکاولی کے پیروکار ہیں جب کہ نیوٹرلز طاقتور اور منظم ہونے کے باجود سیاست، صحافت اور سفارت کی چالوں کو نہیں سمجھتے۔

یہ تینوں گرے ایریاز کے شعبے ہیں اور یہاں کوئی بات بلیک اینڈ وائٹ میں نہیں ہوتی جب کہ نیوٹرلز کی تربیت بلیک اینڈ وائٹ میں کی جاتی ہے۔ ان کی زندگی منظم ہوتی ہے۔

وہ زیادہ محنت کرتے ہیں، زیادہ پڑھتے اور لکھتے ہیں لیکن بلیک اینڈ وائٹ انداز میں سوچتے ہیں۔

ڈسپلنڈ فورس ہونے کی وجہ سے وہ رائے پہلے بناتے ہیں اور پھر لکھتے پڑھتے وقت بھی اپنی رائے کے لئے دلائل تلاش کرتے ہیں، نہ کہ دلائل سن کر رائے قائم کر لیں۔

اب ایک طرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اپنی کارکردگی اور کرپشن کی وجہ سے نیوٹرلز کو بری طرح مایوس کیا تھا اور دوسری طرف عمران خان نے بڑی ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ نیوٹرلز کے سامنے اپنے آپ کو ایک ایسی متبادل فورس کے طور پر پیش کیا جو پاکستان کو کرپشن سے پاک کردے گی۔

دو خاندانوں کی سیاسی اجارہ داری ختم کردے گی اور عالمی برادری کو بھی پاکستان کے قدموں میں لا بٹھائےگی۔

چنانچہ 2010 سے نیوٹرلز، عمران خان کی محبت اور زرداری و نواز شریف کی مخالفت میں غیر جانبدار بن گئے۔

انہوں نے اپنے حلف کی بھی خلاف ورزی کی اور عمران خان کو لیڈر بنانے کے لئے غیرآئینی کردار بھی ادا کیا۔

پہلے زرداری کو ملک دشمن ثابت کیا گیا اور اس عمل میں نواز شریف کو بھی استعمال کیا گیا اور پھر نواز شریف کی باری آئی تو اس میں زرداری کو بھی استعمال کیا گیا۔

جنرل ظہیرالاسلام نے طاہرالقادری کو ساتھ ملاکر عمران خان سے ان کے خلاف دھرنے دلوائے۔

گزشتہ برسوں میں نیوٹرلز نے عمران خان کے ہر گناہ سے صرف نظر کیا اور اس کی سزا سے ان کو بچائے رکھا جب کہ ان کے سیاسی مخالفین کے ہر گناہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے رہے۔ نیوٹرلز نے جانبدار بن کر عمران کے حق میں اور ان کے مخالفین کے خلاف میڈیا کو استعمال کیا۔

عدلیہ کے وقار کو دائو پر لگا کر اس سے نواز شریف اور زرداری کے خلاف فیصلے کروائے گئے جب کہ دوسری طرف عمران خان کو صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ دلوایا گیا۔

میں نے 2013میں پہلی مرتبہ عمران خان کو لاڈلے کا خطاب دیا تھا لیکن یہ میری بھی توقع نہیں تھی کہ وہ اس قدر لاڈلے بن جائیں گے کہ پارٹی فنڈنگ کیس کے فیصلے کو برسوں تک لٹکایا جائے گا۔

ان کے سول نافرمانی کے اعلانات اور پی ٹی وی پر حملے تک کے جرائم سے چشم پوشی اختیار کی جائے گی اور ان کی کابینہ میں مغرب اور پڑوسی ملکوں کے ایجنٹوں کو برداشت کیا جائے گا۔ لیکن نیوٹرلز کی انوسٹمنٹ غالباً اتنے طویل عرصے پر ہی محیط تھی اور ان کی خاطر دشمنیاں اتنی لی گئی تھیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد بھی ان کے وہ وہ نخرے اور وہ وہ لاڈ نیوٹرلز نے برداشت کئے کہ دنیا حیران رہ گئی۔

یوں لاڈلے اور لاڈلے کے لاڈلوں شہباز گل، شبلی فراز، فواد چوہدری، فیصل جاوید، اعظم خان اور اسی طرح کے دیگر لاڈلوں کے نخرے بھی حد سے بڑھنے لگے۔

پی ٹی آئی نے کرپشن میں پیپلز پارٹی کو مات دی۔ نااہلی میں ایم ایم اے کو مات دی اور نیوٹرلز کے ساتھ چھیڑخانی میں مسلم لیگ (ن) کو مات دی۔ نیشنل سیکورٹی کے فیصلے بنی گالہ میں جادو ٹونے اور خوابوں سے ہونے لگے اور لاڈلا الٹا نیوٹرلز کے ادارے میں گھس کر اپنی من مانی کرنے لگا۔ دوسری طرف معیشت تباہ کردی۔

ناقص سفارت کاری سے پاکستان کو ہر دوست سے محروم کردیا۔ ان کی ناکامیوں کی وجہ سے فوج کو گالی پڑنے لگی۔

چنانچہ تنگ آکر فوج نے نیوٹرل بننے اور سیاست سے لاتعلق ہو کر آئینی رول تک محدود ہونے کا فیصلہ کیا لیکن لاڈلے کو فوج کی یہ ادا پسند نہ آئی۔ اب ایک طریقہ یہ ہوسکتا تھا کہ وہ جاکر اپنے محسنوں سے معافی تلافی کرتے لیکن اس کی بجائے انہوں نے بلیک میلنگ اور دبائو کا راستہ اختیار کیا۔ امریکی سازش کے جھوٹے بیانیےکا اصل مقصد بھی ریاست اور فوج کو آزمائش سے دوچار کرنا تھا۔

ماضی میں بھی کئی جماعتیں اور پی ٹی ایم جیسی تنظیمیں فوج پر تنقید کرتی رہی ہیں لیکن ان کی تنقید یہ رہی کہ آپ نیوٹرل ہوکر آئینی رول تک محدود کیوں نہیں ہوتے جب کہ عمران خان کی تنقید جہاں سخت تھی، وہاں ان کا اصل مطالبہ یہ تھا کہ نیوٹرل بننے کی بجائے غیر آئینی طور پر مجھے سپورٹ کیوں نہیں کرتے؟ پروپیگنڈے کے زور پر لاڈلا اپنا یہ جھوٹا بیانیہ عوام کی ایک بڑی تعداد میں راسخ کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ اسے سازش کے تحت نکالا گیا۔

دوسری طرف لاڈلے کی یہ خوش قسمتی تھی کہ ان کی متبادل جو حکومت آئی وہ چوں چوں کا مربہ تھی۔

پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور جے یو آئی اپنی بندربانٹ میں لگی رہیں۔ ان کی نفسا نفسی اور زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کا یہ عالم ہے کہ آج تک حکومت صوبوں کے گورنر نہیں لگا سکی نہ بیانیہ بنا سکی اور نہ اسے پھیلانے کے لئے موثر میڈیا ٹیم سامنے لا سکی۔

شہباز شریف کو مولانا ایک طرف کھینچتے ہیں، زرداری دوسری طرف، اپنی پارٹی کے لوگ تیسری طرف اور بیوروکریسی چوتھی طرف جس کی وجہ سے ان کی قوت فیصلہ ہی مفقود ہوتی جا رہی ہے۔

دوسری طرف نیوٹرل، واقعی نیوٹرل ہوگئے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ حکومت جانے، عمران خان جانے، نیب جانے اور عدالت جانے، جب کہ حکومت اس انتظار میں بیٹھی تھی کہ ان کے لئے اسی طرح مسائل حل کئے جائیں جس طرح لاڈلے کیلئے کئے جاتے تھے۔

اس صورتِ حال سے لاڈلے کو اور حوصلہ ملتا تھا۔ عدلیہ میں ان کی سپورٹ اور اداروں میں بعض لاڈلوں کے ان کے ساتھ اور ان کےحامی میڈیا کی درپردہ حوصلہ افزائی سے ان کا حوصلہ اور بڑھا اور یہاں تک بڑھا کہ جنرل سرفراز اور دیگر شہدا کی شہادت کی آڑ میں سوشل میڈیا کے ذریعے گندی سیاست کھیلی اور بعد میں بنی گالہ کے اندر کچھ سابق وزرا کے مشورے سےفوج میں پھوٹ ڈالنے کے لئے شہباز گل سے منصوبہ بندی کے ساتھ ایسا بیان دلوایا گیا کہ جس میں نچلے رینک کے لوگوں کو اپنی قیادت کے خلاف بغاوت پر اکسانے کی ناپاک کوشش کی گئی۔

چنانچہ نیوٹرلز کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا ۔ نیوٹرلز نے کسی حد تک اپنی نیوٹریلیٹی ختم کردی لیکن عمران خان کے لئے نہیں بلکہ اپنے ادارے کو بچانے کے لئے۔ جس کا آغاز شہباز گل سے ہوگیا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ نیوٹرلز کس حد تک غیرجانبدار بنتے ہیں اور کس حد تک متحرک ہوتے ہیں ۔ پھر دیکھنا ہوگا کہ ان کے متحرک ہونے کی صورت میں عمران خان کے ساتھ کون کون کھڑا رہتا ہے؟