محلاتی سازشیں

August 14, 2022

قیام پاکستان کے فوراً بعد کے دس گیارہ سال اس لحاظ سے بہت اہم ہیں کہ اسی دوران وہ فیصلے ہوئے جنہوں نے آنے والے عشروں میں پاکستان کے راستوں کا تعین کرنا تھا۔ ستم طریفی یہ ہے کہ اس تاریخ کو مطا لعۂ پاکستان کی کتابوں میں جگہ نہیں ملتی ۔زیرِ نظر مضمون میں 1947ء سے 1958ء تک کے اہم واقعات نذرِ قارئین ہیں۔

پندرہ اگست 1947؍ کو پاکستان کی پہلی کابینہ نے حلف اٹھایا جس میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کے علاوہ آئی آئی چندریگر، ملک غلام محمد، عبدالرب نشتر، غضنفر علی خان جو گیندر ناتھ منڈل اور فضل الرحمان وزیروں کے طور پر شامل تھے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ محمد علی جناح نے پاکستان کے پہلے وزیر قانون کے لئے ایک بندو جو گیندر ناتھ منڈل کو منتخب کیا۔ یعنی پاکستان کے پرچم لہرانے کی تقریب کا اعزاز دو دیوبندی علما کو سوپنا گیا تو اس کے ساتھ ہی ایک بندو کو پہلا وزیر قانون بنایا گیا۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جناح صاحب توازن قائم رکھنا چاہتے تھے جس کا اظہار انہوں نے اپنی گیارہ اگست 1947 کو اپنے خطاب میں کیا تھا۔ پندرہ اگست کو ہی محمد ایوب کھوڑو اور افتخار احمد ممدوٹ نے بالترتیب سندھ اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھائے اور اسی دن خان آف قلات نے قلات کی آزادی کا اعلان کیا۔

حالات و واقعات کو مجتمع کرتے 47 سے 58 تک کے سیاسی ادوار کی کہانی

ریڈ کلف ایوارڈ

قیام پاکستان کے بعد پہلے ہی ہفتے میں ریڈ کلف ایوارڈ کا اعلان کیا گیا۔ سیرل ریڈ کلف ایک برطانیہ کا ایک نامور وکیل تھا جو اس سے قبل کبھی ہندوستان نہیں آیا تھا شاید یہی وجہ تھی کہ اس کےفیصلےمیں چند اہم ترین باتوں کو نظر انداز کیا گیا تھا ۔ مثلاً پنجاب میں مسلم اکثریت کے کئی علاقے بھارت میں شامل کر دیئے گئے۔ گورداس پور اور لاہور دونوں اضلاع میں مسلمانوں کی اکثریت کے باوجود انہیں تقسیم کر دیا گیا۔ ضلع گورداس پور کی شکر گڑھ تحصیل جو دریائے راوی کے مغرب میں تھی اسے پاکستان میں شامل کیا گیا جب کہ گورداس پور کی مسلم اکثریتی تحصیل پٹھان کوٹ اور راوی کے مشرق میں بٹالہ تحصیل کو بھی بھارت کے حوالے کر دیا گیا جس سے بھارت کو ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ راہ داری مل گئی۔ ضلع امرت سرکی اجنالہ تحصیل جو ضلع لاہور سے ملی ہوئی تھی اور جس میں ساٹھ فی صد مسلمان آبادی تھی اسےبھی بھارت کے حوالے کیا گیا۔ اسی طرح فیروز پور اور زہرا کی تحصیلیں بھی جہاں مسلم اکثریت تھی بھارت میں شامل کر دی گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ ریڈ کلف نے مجموعی طور پر اٹھ مسلم اکثریتی تحصیلیں بھارت میں شامل کیں۔

پاکستان کے قیام کے صرف ایک ہفتے بعد ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کو جناح صاحب نے برطرف کر دیا۔ اس طرح یہ پہلی صوبائی حکومت تھی، جسے برخاست کیا گیا۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر خان صاحب صوبۂ سرحد کے منتخب وزیر اعلیٰ اور تحریک آزادی کے عظیم مجاہد خان عبدالغفار خان صاحب کے بڑے بھائی تھے۔ یہ دونوں بھائی کانگریس کے حامی تھے اور انہوں نے قیام پاکستان کے لئے ہونے والے ریفرنڈم کا بائی کاٹ کیا تھا۔

جناح صاحب اور مسلم لیگ کو ان دونوں برادران سے اصولی اختلاف تھا لیکن اس کے باوجود ایک منتخب صوبائی حکومت کا مرکزی قیادت کے ہاتھوں برطرف کیا جانا کسی طرح بھی احسن اقدام نہیں تھا۔ اس نےایک ایسی روایت قائم کی جس کے نتیجے میں پے در پے صوبائی حکومتیں توایک طرف مرکزی حکومتیں بھی برطرف کی جاتی رہیں۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جب اگست 1947 میں ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت برطرف کی گئی تو انہیں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکنے کے لئے ضلع بزارہ میں نظر بند کر دیا گیا اور چھے برس تک وہ امر ضلع میں نظر بند رہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ قیام پاکستان کے صرف ایک ماہ بعد سولہ ستمبر 1947 کو خان عبدالغفار خان کی سرخ پوش تنظیم پر بھی پابندی لگا دی گئی اور خان عبدالغفار خان بھی گرفتار کر لیے گئے۔

اکتوبر 1947میں کشمیر کے مسئلے کی بنیاد پڑی جب سترہ اکتوبر کو شمیر کے مہاراجا نے بھارت سے الحاق کا اعلان کیاجسے بھارت کے گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن نے اس شرط پر قبول کر لیا کہ آزادانہ اور غیر جانب دارانہ رائے شماری کے ذریعے ریاست کے لوگوں کی رائے معلوم کی جائے۔ بھارت نے فوری طور پر چھاتہ بردار فوج کشمیر میں اتار دی اور شیخ عبداللہ سے عبوری حکومت بنانے کا کہا گیا۔ رقبے کے اعتبار سے ریاست جموں و کشمیر ہند کی سب سے بڑی ریاست تھی اور ایک اندازے کے مطابق اس کی تقریباً پچتھر فی صد آبادی مسلمان تھی۔

گورداس پور اور بٹالے کی تحصیلیں بھارت کو ملنے سے ریاست تک اس کی رسائی ممکن ہو چکی تھی۔ مہاراجا ہری سنگھ کے اس اقدام سے صورت حال کشیدہ ہو گئی اور بائیس اکتوبر کو پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے کے قبائلی جنگ جو کشمیر پر حملہ آور ہو گئے اور خاصے بڑے حصے پر قبضہ کر کے24 اکتوبر 1947 کو آزاد جموں و کشمیر حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا۔

دوسری طرف ریاست کشمیر کے گلگت صوبے نے بھی ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف بغاوت کر دی اور ریاستی افواج کے مسلمان افسروں نے صوبائی حکومت قائم کر کے31اکتوبر 1947کو آزاد کشمیرحکومت سے الحاق کا اعلان کر دیا۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے چترال اور دیر کے حکمرانوں نے بھی پاکستان سے الحاق کی دستاویز پر دست خط کر دیئے۔ اسی دوران تیرہ نومبر کو جناح صاحب نے آف قلات سے ملاقات کی اور ان پر زور دیا کہ وہ بھی دیگر ریاستوں کی طرح پاکستان سے الحاق کا اعلان کریں مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔۔ 26 نومبر کو کشمیر میں لڑنے والے مسلمانوں نے میر پور پر بھی قبضہ کر لیا۔ اسی طرح 1947 کا ہنگامہ خیز سال جب ختم ہوا تو دنیا کا نقشہ بدل چکا تھا۔

1948سال شروع ہوا تو کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ پہنچ چکا تھا ۔20 جنوری کو سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر پر ایک قرارداد منظور کی جس کے تحت ایک تین رکنی کمیشن بنایا گیا ،جس کو سلامتی کونسل کے تحت کام کرتے ہوئے بات چیت آگے بڑھانی تھی۔18؍مارچ 48 کو بلوچستان کی ریاستوں خاران، لسبیلہ اور مکران نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا ۔ 27؍ مارچ کو ریاست قلات نے بھی پاکستان سے الحاق کر لیا۔20 مارچ 1948 کو جناح صاحب نے ڈھاکا یونی ورسٹی کے سالانہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ پاکستان میں صرف اور صرف ایک ہی قومی زبان ہو سکتی ہے اور وہ اردو کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں ہو سکتی۔ مشرقی بنگال تقریباً پچپن فی صد آبادی پر مشتمل تھا اور بنگالیوں کی اکثریت اردو کو اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔

دوسری طرف سندھ میں اپریل 1948میں وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو کی حکومت برخاست کر کے پیر الہٰی بخش کو سندھ کا نیا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ واضح رہے کہ پیر الہٰی بخش نے قیام پاکستان کے فوراً بعد یہ مشورہ دیا تھا کہ پاکستان کی تمام مساجد میں جمعہ کے خطبے میں قائد اعظم محمد علی جناح کا نام لیا جانا چاہیے۔ ایوب کھوڑو قیام پاکستان کے فوراً بعد اس وقت وزیر اعلیٰ بنے تھے جب آزادی سے پہلے سندھ کے وزیر اعظم غلام حسین ہدایت اللہ کو سندھ کا گورنر بنا دیا گیا۔ بحیثیت وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو مہاجرین کی سندھ میں آباد کاری کو محددو رکھنا چاہتے تھے جس پر مرکزی وزرا غلام محمد اور غضنفر علی خان ان سے نالاں تھے۔

پھر سندھ کے بعض وزرا بھی مثلاً غلام علی تالپور اور پیر الہٰی بحش ایوب کھوڑو کے خلاف سرگرم ہوگئے ۔ پہلے تو سندھ کے گورنر غلام حسین ہدایت اللہ نے ایوب کھوڑو سے وزارت داخلہ واپس لی جس پر ایوب کھوڑو نے جناح صاحب سے شکایت کی کہ غلام علی تالپور اور پیر الہٰی بخش کی برطرفی کے لئے ہدایت اللہ پر دبائو ڈالا جائے۔ لیکن ہوا اس کے برعکس 26 اپریل 1948کو ’’شدید بدانتظامی اور بدعنوانی‘‘ کے الزامات لگا کر ایوب کھوڑو فارغ کر دیے گئے اور ان کی جگہ پیر الہٰی بخش کو سندھ کا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ سرحد میں ڈاکٹر خان کی حکومت کے بعد یہ دوسری صوبائی حکومت تھی جو برطرف کی گئی۔

مئی 1948 کا ایک اور اہم واقعہ قیام پاکستان کے بعد پہلی سیاسی جماعت کا قیام تھا جو خان عبدالغفار خان اور سائیں جی ایم سید نے قائم کی تھی۔ اس سیاسی جماعت کا نام پیپلز پارٹی آف پاکستان رکھا گیا اور اس کے صدر غفار خان اور جنرل سیکریٹری جی ایم سید بنے مگر ایک ہفتے کے اندر ہی اس جماعت کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ اس سے قبل عبدالغفار خان کی سرخ پوش تحریک پر بھی پابندی لگائی جا چکی تھی۔ یعنی ابھی پاکستان کے قیام کو ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزیاں شروع ہوگئیں۔

گیارہ ستمبر 1948 کو بانی پاکستان اور پاکستان کے پہلے گونر جنرل محمد علی جناح وفات پا گئے۔ چودہ ستمبر کو خواجہ ناظم الدین پاکستان کے قائم مقام گورنر جنرل بن گئے اور نور الامین کو مشرقی بنگال کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ 1948 کا اہم واقعہ آئین ساز اسمبلی کا تیسرا اجلاس تھا جو چودہ دسمبر کو منعقد ہوا مولوی تمیز الدین اسمبلی کے صدر منتخب کئے گئے۔

1949 کے آغاز میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ افتخار ممدوٹ اور مسلم لیگ کے رہ نما ممتاز دولتانہ کے درمیان کش مکش شدت اختیار کر چکی تھی۔ اس کش مکش میں فیروز خان کبھی دولتانہ اور کبھی ممدوٹ کا ساتھ دیتے رہے ۔ بلا آخر لیاقت علی خان نے فیروز خان نون کو وزارت سے ہٹا کر مشرقی بنگال کا گورنر بنا کر بھیج دیا تھا اس صورت حال سے ممتاز دولتانہ نے فائدہ اٹھایا او رپنجاب مسلم لیگ کے صدر کا انتخاب جیت لیا ۔ یہ مسلم لیگ میں افتخار ممدوٹ کی شکت تھی۔ چناں چہ لیاقت علی خان نے جنوری 1949 میں آئین کی دفعہ 93 الف کے تحت وزارت اور اسمبلی کو مکمل طور پر مسنوخ کر کے گورنر راج کا اعلان کر دیا۔

یعنی ابھی قیام پاکستان کو ڈیڑھ برس بھی پورا نہیں ہوا تھا اور تین صوبائی حکومتوں کا خاتمہ مرکزی حکومت کے ہاتھوں کیا جا چکا تھا۔ سب سے پہلے صوبہ سرحد میں ڈاکٹر خان صاحب کی صوبائی حکومت کا خاتمہ، پھر صوبہ سندھ میں وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو کی حکومت کی برطرفی اور اب پنجاب میں گورنر راج کا قیام ان تینوں صوبوں میں کہیں بھی جمہوری طریقے سے صوبائی اسمبلی کے ارکان اسمبلی کی اکثریت کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی یعنی پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں اکھاڑنے کا عمل شروع ہو چکا تھا۔

فروری 1949 کا ایک اہم واقعہ پروڈا (PRODA) یعنی پبلک اینڈ ریپریز نیٹیو آفیسز ڈیس کوالیفکیشن کا منطور کیا جانا تھا۔ اس کے تحت ایسے تمام مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے وزرا اور پارلیمان سیکریٹریوں پر مقدمہ قائم کیا جا سکتا تھا جو دانستہ طور پر بدعنوانی کے مرتکب ہوئے ہوں اگرچہ یہ 1949 میں منطور کیا گیا تھا تاہم اس کا اطلاق 14؍ اگست 1947 سے ہوا۔ اس کے تحت سیاست دانوں کی دس سال تک ناہلی بھی شامل تھی۔ اسی کے تحت مارچ 1949 میں محمد ایوب کھوڑو کو تین سال کے لئے کسی بھی سرکاری عہدے کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا۔ بعد میں اسی ایکٹ کے تحت نواب افتخار حسین ممدوٹ اور حسین شہید سہروردی کے خلاف بھی کارروائی کی گئی ، حالانکہ محمد ایوب کھوڑو کو دسمبر1948 میں ہی سندھ مسلم لیگ نے اپنا صدر منتخب کیا تھا ۔

اسی دوران لیاقت علی خان نے سندھ کے وزیر اعلیٰ پیر الہٰی بخش کے خلاف بھی کارروائی شروع کی اور انہیں بدعنوانی کے الزامات کے تحت چھ سال کے لئے اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے نااہل قرار دے دیا گیا جس کی بنا پر پیر الہٰی بخش کو وزارت اعلیٰ اور اسمبلی کی رکنیت سے مکمل ہاتھ دھونا پڑے اور یوسف ہارون سندھ کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔یعنی 1947 سے 1949 تک سندھ نے چار وزرائے اعلیٰ دیکھ لیے تھے سرغلام حسین ہدایت اللہ، محمد ایوب کھوڑو، پیر الہیٰ بخش اور یوسف ہارون ۔ پاکستان کی سیاست میں آنے والے میوزیکل چیئر کے کھیل کا آغاز ہو چکا تھا جس میں سندھ سب سے آگے تھا۔

مارچ 1949 میں آئین ساز اسمبلی کا چوتھا اجلاس منعقد ہوا جس میں قرارداد مقاصد منظور کی گئی۔ اس قرارداد نے آنے والے عشروں میں پاکستان کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کئے۔1950 میں جنرل ایوب خان کی بحیثیت اولین پاکستانی کمانڈر ان چیف تقرری ہوئی۔

وزیراعظم لیاقت علی خان نے قرارداد مقاصد پاس کرانے کے بعد دستور کے بنیادی اصولوں کی تشکیل کے لئے کمیٹی بنائی جس کی پہلی سفارشات ستمبر 1950 میں پیش کی گئیں۔ اس سفارشات کی تین باتیں اہم تھیں۔

(1)اسلامی مملکت کا سربراہ غیر مسلم بھی ہو سکتا ہے۔

(2)صدر، وزیراعظم اور اراکین اسمبلی کو کوئی عدالت طلب نہیں کر سکتی۔

(3) عدلیہ اور انتظامیہ کو یک جا رکھا جائے گا۔

اس عبوری رپورٹ پر مذہبی حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل ہو اور مولانا مودودی نے تو اس حد تک کہہ دیا کہ کسی غیر مسلم کا سربراہ مملکت بننا ایسا ہی ہوگا جیسے کسی سکھ کو مسجد کا امام بنا دیا جائے۔لیاقت علی خان نے اس رپورٹ پر مزید تجاویز طلب کیں اور یہ عبوری رپورٹ واپس لے لی گئی۔1950 کی ایک اور اہم بات یہ تھی کہ لیاقت علی خان نے اقتدار اور مسلم لیگ پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے وزیراعظم رہتے ہوئے خود کو خلیق الزماں کی جگہ بلامقابلہ مسلم لیگ کا صدر منتخب کروالیا۔ اس طرح ایک اور تباہ کن روایت کو پروان چڑھایا گیا جس میں پارٹی صدر اور وزارت عظمیٰ یکجا ہونے سے آمرانہ رویئے کی ترویج ہوتی گئی۔

1950 کی ایک اور اہم بات یہ تھی کہ پنجاب کے چند سیاست دانوں نے جن میں میاں افتخار الدین، سردار شوکت حیات، محمود علی قصوری، شیخ محمد رشید وغیرہ شامل تھے مل کر ایک نئی سیاسی جماعت بنائی جس کا نام آزاد پاکستان پارٹی رکھا گیا۔ میاں افتخار الدین کو اپنی عوام دوست سرگرمیوں اور حکومت پر تنقید کی بناء پر سردار شوکت حیات کے ساتھ پانچ سال کے لئے مسلم لیگ سے نکال دیا گیا تھا۔ میاں افتخار الدین جاگیرداروں سے زمین چھین کر عوام میں تقسیم کرنا چاہتے تھے جس کے لئے مسلم لیگ کی قیادت ان کے خلاف ہو گئی۔

آزاد پاکستان پارٹی کا دستور مسلم لیگ کے مقابلے میں بہت زیادہ عوام دوست تھا جس میں زیادہ تر مسلم لیگ سے مایوس ہونے والے لوگ شامل تھے۔ 17جنوری 1951 کا پہلا اہم واقعہ یہ تھا کہ جنرل محمد ایوب خان نے کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے باقاعدہ طور پر پاکستانی افواج کی قیادت سنبھال لی جس کے لئے ان کی نامزدگی 1950 کے آواخر میں کی گئی تھی۔

جنوری 1951 میں ہی حسین شہید سہروردی اور افتخار ممدوٹ نے ’’آل پاکستان جناح عوامی مسلم لیگ (APJAML) تشکیل دی، اس سے قبل مسلم لیگ سے ناراض دھڑوں نے ہر صوبے میں مسلم لیگ سے ملتا جلتا نام رکھ کر سیاسی جماعتیں بنالی تھیں۔ سہروردی سمجھتے تھے کہ لیاقت علی خان مسلم لیگ کو ایک فرقہ وارانہ جماعت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ملک کو مذہبی انتہا پسندی کی طرف دھکیل رہے ہیں جس کی مثالیں قرارداد مقاصد اور مذہبی علماء کی طرف لیاقت علی خان کا معذرت خواہانہ رویہ تھا۔

سہروردی جن خدشات کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ آج بھی ہمارا ملک ان خدشات کی ایک چلتی پھرتی تصویر ہے۔ قیام پاکستان کے بعد مارچ 1948 میں وہ مطالبہ کر چکے تھے مسلم لیگ کو ختم کر کے ایک ’’پاکستان نیشنل لیگ‘‘ بنائی جائے جو غیر مذہبی بنیادوں پر کام کرے۔ سہروردی نے پروڈاکیس میں افتخار ممدوٹ کا دفاع کیا تھا اور وہ دوستی اب ایک نئی سیاسی جماعت کی شکل دھار چکی تھی۔

لیاقت علی خان کا قتل

سولہ اکتوبر1951کو وزیر اعظم لیاقت علی خان روال پنڈی کے کمپنی باغ میں ایک جلسے کے دوران گولی چلائی گئی جس سے وہ موقع پرہی جاں بحق ہوگئے۔ اس کارروائی سے پاکستان کی سیاست کے ایک خونی دور کا آغاز ہوا ۔ سیاست دانوں کو جمہوری طریقے سے مقابلہ کرنے کے بجائے پرتشدد طریقے سے ہٹانے کی روایت چل پڑی۔

لیاقت علی خان پہلے وزیر اعظم تھے اور انہیں اپنی مدت وزارت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔خواجہ ناظم الدین جواس وقت ملک کے گورنر جنرل تھے ،وزیر اعظم بن گئے اور وزیر مالیات غلام محمد کو گورنر جنرل بنادیا گیا۔ ملک غلام محمد بنیادی طور پر سیاست دان نہیں بلکہ ایک مالیاتی افسر تھے۔ تقسیم سے قبل وہ مملکت آصفیہ حیدرآباد دکن کے وزیر مالیات تھے۔ ملک غلام محمد کا گورنر جنرل بننا دراصل پاکستان میں افسر شاہی کی بالا دستی کا آغاز ثابت ہوا۔

خواجہ ناظم الدین ایک پرانے سیاست دان تھے، مگر وہ افسر شاہی کی چال بازیوں کے سامنے بے بس ہوتے چلے گئے اور پھر بالاخر غلام محمد نے انہیں برطرف کردیا۔ یعنی پہلا وزیر اعظم قتل اور دوسرا غیر جمہوری طریقے سے برطرف ۔1951کا آخری اہم واقعہ یہ تھا کہ گورنر جنرل غلام محمد نے29دسمبر سندھ کی صوبائی اسمبلی تحلیل کردی اور گورنر راج لگا دیا۔ایسا لگتا تھا ملک غلام محمد مرکزی حکومت پروار کرنے کی مشق کررہے تھے۔

1952 وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے لیے خاصا کڑا ثابت ہو۔ حالات کو سنبھال نہیں پارہے تھے کہ ملک کے دونوں حصوں میں فسادات پھوٹ پڑے ۔ طلبا نے بنگالی زبان کی حمایت میں مظاہرے شروع کئے جن کو تشدد سے کچلنے کی کوشش کی گئی،پھر قادیانیوں کے خلاف تحریک جو کافی عرصے سے چل رہی تھی ،اس میں خاصی تیزی آگئی۔ پنجاب میں یہ مسئلہ زیادہ شدت کے ساتھ اٹھا۔

میاں ممتاز محمد خان دولتانہ جو پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی تھے اور پنجاب مسلم لیگ کے صدر بھی انہوں نے اس تحریک کو بڑھاوا دیا۔ جنوری1953میں مولانا احتشام الحق تھانوی کی مسجد میں مرزائیوں کے سماجی بائیکاٹ کی قرارداد منظور کی اور خواجہ ناظم الدین کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ ان سب کے نتیجے میں لاہور میں مارشل لالگادیا گیا اور میجر جنرل اعظم خان مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنائے گئے۔ یہ پہلا مارشل لا بعد میں آنے والے ملک گیر مارشل لا کی مشق ثابت ہوا۔

وزیر اعظم کی برطرفی کی روایت کا آغاز

17اپریل1953کو گورنر جنرل غلام محمد نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کردیا۔ غلام محمد سیاست دان نہیں تھے اور نہ کبھی الیکشن لڑا تھا مگر وہ ملک کے فیصلے خود کرناچاہتے تھے انہوں نے ناظم الدین پر ناکامی اور نااہلی کے الزامات لگائے اور وزیر اعظم کو برطرف کرکے ایک ایسی روایت ڈالی جس کے نتیجے میں پاکستان کی تاریخ کا کوئی بھی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرکے جمہوری طور پر رخصت نہیں ہوا بلکہ ہر بار غیر جمہوری طریقوں سے نکالا گیا۔ غلام محمد نے محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم نام زد گیا جو اتنا غیر معروف تھا کہ کئی دن تک لوگ سمجھتے رہے کہ چودھری محمد علی کو وزیراعظم بنایا گیا ہے۔

محمد علی بوگرہ کی تقری پارلیمانی اصولوں کی خلاف ورزی تھی کیونکہ بوگرہ نہ تواسمبلی کے ممبر تھے اور نہ ہی انہیں قومی سطح پر کوئی مقام حاصل تھا۔ غلام محمد نے سازباز کرکے نئے وزیر اعظم کو جلد ہی مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا صدر بنوادیا اور ایوان سے بھی اعتماد کا ووٹ دلوایا۔1953کا ایک اور اہم واقعہ یہ تھا کہ اگست میں حکومت پاکستان نے جنرل محمد ایوب خان کے کمانڈو ان چیف کے عہدے کی مدت میں توسیع کردی ، اس طرح ایک طرف تو سیاست دانوں کو ان کے عہدوں سے قبل از وقت رخصت کیا جاتا رہا ،دوسری طرف ایوب خان کے عہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی توسیع کردی گئی۔

وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی غلام محمد کے ہاتھوں برطرفی سے مشترقی پاکستان میں خاصا غم وغصہ پیدا ہوا پھر مسلم لیگ نے بھی ناظم الدین کاساتھ دینے کے بجائے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا اور غلام محمد کے درآمد کردہ نئے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کو نہ صرف وزیر اعظم کے طور پر قبول کرلیا،بلکہ انہیں مسلم لیگ کا سربراہ بھی بنادیا۔ اس طرح مشرقی پاکستان کے کئی رہ نما مسلم لیگ سے بدظن ہوگئے ۔ دسمبر 1953میں انہوں نے مل کر جگتو فرنٹ تشکیل دیا۔

1954: کاسب سے پہلا اہم واقعہ یہ تھا کہ دستور ساز اسمبلی نے عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مارچ 1954میں پاکستان نے جنوب مشرقی ایشیا کی تنظیم(SEATO)میں شمولیت اختیار کی۔ اس شمولیت سے پاکستان نے خود کو امریکا کی جھولی میں ڈال دیا اور محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم بنائے جانے کی اصل وجو ہ سامنے آنے لگیں، کیونکہ ناظم الدین کا امریکا سےزیادہ برطانیہ کی طرف جھکاؤ تھا۔

مشرقی پاکستان کے انتخابات میں مسلم لیگ کی شکست

مشرقی پاکستان میں انتخابات کی تاریخ 16 فروری1954مقرر ہوئی تھی۔ مسلم لیگ کے مقابلے میں حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے جن میں عوامی لیگ، کرشک سرامک پارٹی وغیرہ )شامل تھے نے جگتو فرنٹ یا متحدہ محاذ بنا لیا تھا جس کے اہم قائدین میں مولانا عبدالحمید بھاشانی، حسین شہید سہروردی ،مولانا اطہر ،مولوی اے کے فضل الحق نمایاں تھے۔ یہ لوگ مختلف نظریات کے حامل تھے مگر مفادات کے تحت مل گئے تھے۔

جگتو فرنٹ کے اہم نکات میں بنگلہ کو قومی زبان بنانا، تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا، پٹ سن کے کاشت کاروں کو معقول قیمت کی ضمانت اور مشرقی پاکستان اور بھارت کے درمیان ویزا سسٹم کا خاتمہ تھا۔ مسلم لیگ کے مقابلے میں فضل الحق، سہروردی اور مولانا بھاشانی نے بہت مقبولیت حاصل کر لی تھی، محمد علی بوگرہ نےغلام محمد کے دبائو پر انہوں نے انتخابات 10مارچ 1954تک ملتوی کر دیئے۔

ان انتخابات میں مسلم لیگ کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس نے صرف نو نشستیں حاصل کیں۔ جبکہ متحدہ محاذ نے دو سو تئیس نشستیں جیتیں۔ ان انتخابات میں وزیر اعلیٰ نور الامین بھی ایک طالب علم سے شکست کھا گئے۔ کمیونسٹوں نے بائیس نشستیں حاصل کیں۔ اپریل1954میں جگتو فرنٹ کے قائد مولوی فضل الحق نے مشرقی پاکستان میں پہلی غیر مسلم لیگی حکومت قائم کی جس کے بعد بنگالیوں اور غیر بنگالیوں میں ہنگامے شروع ہو گئے۔ اور محمد علی بوگرہ نے ان ہنگاموں کی ذمہ داری شیخ مجیب الرحماٰن پر ڈالی جبکہ مولانا بھاشانی جیسے رہنما ان ہنگاموں کو گہری سازش قرار دیتے رہے۔ صرف ایک ماہ بعد ہی فضل حق اور مرکزی حکومت کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے جو مئی 1954 تک جاری رہے ان مذاکرات میں وزیر اعلیٰ محمد علی بوگرہ نے وزیر اعلیٰ فضل الحق پر الزام لگایا کہ وہ بھارت سے ساز باز کر کے اپنے صوبے کی خود مختاری کیلئے کام کر رہے ہیں۔ یہ مذاکرات ناکام ہوئے اور 29مئی1954کی جگتو فرنٹ کی بھرپور عوامی حمایت والی حکومت کو برطرف کر دیا گیا ۔

کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی

24جولائی 1954کو حکومت پاکستان نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر تمام صوبوں میں پابندی لگا دی۔ یاد رہے کہ کمیونسٹ پارٹی کے رہنما سجاد ظہیر، محمد حسین عطا وغیرہ راولپنڈی سازش کیس کے باعث پہلے ہی جیل میں تھے۔ اس پابندی کے ساتھ ہی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانش وروں، اساتذہ ،مزدور رہنمائوں، صحافیوں اور دیگر ترقی پسندوں کے خلاف عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ آنے والوں عشروں میں ریاست پاکستان نے ترقی پسندوں پر خوب ظلم ڈھائے یہ وہ تاریخ ہے جو مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں نہیں ہے۔

گورنر جنرل کے اختیارات میں کمی اور اسمبلی کی تحلیل

21ستمبر 1954 کو دستور ساز اسمبلی نے فیصلہ کیا کہ پارلیمینٹ بالا دست ہے ۔گورنر جنرل من مانی نہیں کر سکتا اور پارلیمینٹ کے فیصلوں کا پابند ہے۔ یہ بات گورنر جنرل غلام محمد کو پسند نہ آئی اور انہوں نے جوابی وار کرتے ہوئے دستور ساز اسمبلی کو ہی تحلیل کر دیا مگر محمد علی بوگرہ کو بحیثیت وزیر اعظم برقرار رکھا۔ واضح رہے کہ جب وزیر اعظم خواجہ ناظم کو برخاست کیا گیا تھا تو اس وقت اسمبلی نہیں توڑی گئی تھی۔ اسپیکر مولوی تمیز الدین نے ہائی کورٹ میں اپیل کی جس کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے اسمبلی کی تحلیل کالعدم قرار دے دی لیکن جسٹس منیر نے فیڈرل کورٹ میں غلام محمد کا فیصلہ برقرار رکھا۔

نظریہ ضرورت

1955: کا شاید سب سے اہم واقعہ نظریہ ضرورت کا استعمال تھا، 9فروری 1955کو سندھ چیف کورٹ نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ مولوی تمیز الدین خان جو دستور ساز اسمبلی کے صدر تھے۔ ان کی اپیل درست ہے، اور گورنر جنرل کے فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے دستور ساز اسمبلی بحال رکھی ، مگر دو ہفتے کے اندر ہی 22 فروری1955کو فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر نے سندھ چیف کورٹ کے فیصلے پر عملدر آمد روک دیا۔25مارچ 1955کو جسٹس منیر نے وہ تاریخ ساز فیصلہ سنایا جس نے آنے والے آمروں کا راستہ کھول دیا۔

انہوں نے اپنے فیصلے میں ’’نظریہ ضرورت ‘‘ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اگر ضرورت پڑے تو گورنر جنرل ملک وقوم کی بہتری کیلئے ماورا آئین کام کر سکتا ہے بشرطیکہ اس اقدام کا مقصد ملک میں بہتری لانا ہو۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی جسٹس منیر نے پہلی دستور ساز اسمبلی کے خاتمے اور نئی دستور ساز اسمبلی کیلئے انتخابات کی اجازت دے دی۔ اس فیصلے کے بعد گورنر جنرل غلام محمد کو من مانیاں کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی انہوں نے ملک میں ہنگامی حالات کے تحت فیصلے کرنے شروع کر دیئے۔ چار اپریل1955کو مشتاق گورمانی کو مغربی پاکستان کا گورنر اور ڈاکٹر خان صاحبہ کو وزیر اعلیٰ مقرر کر دیا۔

یاد رہے کہ یہ وہی ڈاکٹر خان صاحب تھے جن کی صوبائی حکومت کو خود قائد اعظم نے برطرف کیا تھا۔27 اپریل1955کو گورنر جنرل نے ایک آئینی کنونشن بنا کر اس کو دستور ساز اسمبلی کے تمام اختیارات دے دیئے یعنی وہ کنونشن نہ صرف دستور سازی بلکہ قانون سازی بھی کر سکتا تھا۔21 جون 1955 کو دوسری دستور ساز اسمبلی کیلئے انتخابات ہوئے ۔یہ عام انتخابات نہیں تھے یعنی عوام کو اس میں حق رائے دہی استعمال کرنے کا موقع نہیں ملا بلکہ نئی دستور ساز اسمبلی کے ارکان صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے منتخب ہوئے تھے۔ انتخابی ادارہ صوبائی اسمبلیوں کے ممبروں پر مشتمل تھا۔

ہر صوبائی اسمبلی کو اپنے اپنے کوٹے کے مطابق دستور ساز اسمبلی کے ممبر منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔دوسری دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس سات جولائی 1955کو مری میں ہو ا،اس اسمبلی میں مسلم لیگ کو پچیس نشستیں ملی تھیں یعنی وہ سب سے بڑی جماعت تو تھی لیکن اسی کے ایوان میں اسے سادہ اکثریت ملی تھی اور وہ بھی خود محمد علی بوگرہ کی۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی سربراہی میں مسلم لیگ اور کرشک سرامک پارٹی کی مخلوط حکومت بنے۔لیکن اس کیلئے انہیں مسلم لیگ کا پارٹی لیڈر منتخب ہونا تھا ،مگر وہ اکثریت حاصل نہ کر سکے اور امریکا میں پاکستانی سفیر بن کر ملک سے رخصت ہو گئے۔

دوسری آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کے نتیجے میں چوہدری محمد علی کو نیا وزیر اعظم مقرر کیا گیا مگر اس دوران ملک غلام محمد کی صحت خراب ہو گئی ،انہیںعلاج کیلئے سوئزر لینڈ بھیج دیا گیا جہاں سے واپسی پر وہ دو ماہ کی رخصت پر چلے گئے اور گیارہ ستمبر 1955کو قائم مقام گورنر جنرل اسکندر مرزا نے غلام محمد سے استعفیٰ لے کر خود گورنر جنرل بن گئے۔

1956:، نیا آئین

9 جنوری کو دستور ساز اسمبلی میں وزیر قانون آئی آئی چندریگر نے آئینی بل پیش کیا جس کے تحت پاکستان کو ایک اسلامی ری پبلک بننا تھا،جس کا صدر صرف مسلمان ہی ہو سکتا تھااورجسےمرکزی اور صوبائی مقننہ کے ذریعے منتخب کیا جانا تھا۔ 29فروری کو دستور ساز اسمبلی نے اسلامی ری پبلک آف پاکستان کا پہلا آئین باقاعدہ طور پر منظور کر لیا ۔مشرقی اور مغربی پاکستان کو آبادی سے قطع نظر برابر نمائندگی دی گئی ۔ 5 مارچ کو گورنر جنرل اسکندر مرزا بلا مقابلہ پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہو گئے اور مولوی فضل الحق کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنا دیا گیا۔

ری پبلکن پارٹی کا قیام

نیا آئین بننے کے بعد چودھری محمدعلی اپنی پارٹی مسلم لیگ کا اعتماد کھو بیٹھے جس میں سب سے بڑا اختلاف مغربی پاکستان کی وزارت پر ہوا۔مغربی پاکستان میں مسلم لیگ اکثریتی پارٹی تھی مگر صوبے کا وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب کو بنایا گیا تھا۔ مسلم لیگ چاہتی تھی کہ کوئی مسلم لیگی وزیر اعلیٰ بنے مگر اسکندر مرزا کو مسلم لیگ کی اکثریتی حکومت گوارا نہیں تھی وہ ڈاکٹر خان صاحب کو برقرار رکھنا چاہتے تھے ڈاکٹر خان صاحب نے ارکان اسمبلی کو رام کرنا شروع کیا اور صدر اسکندر مرزا اور مغربی پاکستان کے گورنر نواب مشتاق احمد گورمانی نے اپنے اثر و رسوخ سے مغربی پاکستان کے 72 ارکان اسمبلی سے ڈاکٹر خان صاحب کو حمایت دلا دی۔ اور23اپریل 1956کو ری پبلکن پارٹی کے نام سے ایک نئی سیاسی پارٹی بن گئی اس طرح چودھری محمد علی اپنی مقبولیت کھو بیٹھے۔ اور انہوں نے وزارت عظمیٰ اور مسلم لیگ کی رکنیت سے استعفا دے دیا۔

حسین شہید سہروردی

وزیر اعظم 1956-57

چودھری محمد علی کے مستعفی ہونے کے بعد حسین شہید سہروردی وزیر اعظم بن گئے جن کو ری پبلکن اور عوامی لیگ کی مخلوط حمایت حاصل تھی۔ اس مخلوط حکومت میں فیروز خان نون، سیدامجد علی، پیر غلام علی تالپور ،سردار امیر اعظم خان اور میاں جعفر شاہ کو ری پبلکن پارٹی کی طرف سے اور ابوالمنصور عبدالخالق اور دلدار احمد کو عوامی لیگ کی طرف سے وزیر بنایا گیا۔ وزارت دفاع اور وزارت مالیات سہروردی نے اپنے پاس رکھیں۔حسین شہید سہروردی وزیر اعظم بننے کے بعد خاصے بدل گئے اور اپنی خارجہ پالیسی کو بڑی حد تک مغربی ممالک کے قریب کر لیا ،جس سےخود عوامی لیگ خاصی مایوس ہوئی اور ان کی پارٹی کے رہنما مولانا عبد الحمید بھاشانی نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔

عوامی لیگ کے بعض رہنمائوں نے صلح کرانے کی کوشش کی مگر حسین شہید سہروردی نے بےنیازی دکھائی اور جون1957میں طویل دورے پر بیرون ملک چلے گئے۔دس اکتوبر1957کو سہروردی واپس آئے تو معلوم ہوا کہ ری پبلکن پارٹی نے سہروردی کی حمایت ختم کر دی ہے۔ اسکندر مرزا نے مطالبہ کیا کہ سہروردی استعفیٰ دے دیں لیکن سہروردی بضد رہے کہ اس کا فیصلہ جمہوری طریقے سے اسمبلی کے اندر ہونا چاہئے مگر اسکندر مرزا نے کہا کہ اگر استعفیٰ نہیں دیتے تو برطرفی کیلئے تیار رہیں جس پر سہروردی نے استعفیٰ دے دیا۔

پاکستان نیشنل پارٹی کا قیام

مغربی پاکستان کی چھوٹی صوبائی جماعتیں ون یونٹ کی بدستور مخالفت کر رہی تھیں کیونکہ اس سے انہیں اپنی قومی، لسانی اورصوبائی حقوق سلب ہونے کا خدشہ تھا، جس سے انہیں پہلے ہی مرکزی حکومت محروم کر رہی تھی۔عوامی محاذ ،سرخپوش تنظیم، سندھ ہاری کمیٹی، استمان گل اور آزاد پاکستان پارٹی اور ورور پختون ، ان چھ جماعتوں نے مل کر ستمبر 1956میں پاکستان نیشنل پارٹی کی بنیاد ڈالی ۔جس کا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ مغربی پاکستان میں چار صوبے ، صوبائی خود مختاری کی بنیاد پر قائم کئے جائیں اس کے علاوہ زرعی اصلاحات اور آزاد خارجہ پالیسی کے مطالبے بھی تھے۔

آئی آئی چندریگر کی ساٹھ روزہ

وزارت (اکتوبر تا دسمبر1957)

صدر اسکندر مرزا نے حسین شہید سہروردی کو فارغ کر کے قائد حزب اختلاف آئی آئی چندریگر کو وزارت بنانے کی دعوت دی جن کا تعلق مسلم لیگ سے تھا۔ اسکندر مرزا نے ری پبلکن پارٹی کو مجبور کیا کہ وہ مسلم لیگ اور کر شک سرامک پارٹی کے ساتھ مل کر اتحاد بنائے۔ چندریگر نے18اکتوبر 1957کو عہدے کا حلف اٹھایا مگر اگلے روز سے ہی مشکلات میں گھر گئے۔ مسلم لیگ کا موقف تھا اگلے انتخابات جداگانہ بنیادوں پر ہونے چاہیں۔ جداگانہ کا مطلب تھا کہ مذہبی اقلیتیں اپنے نمائندے الگ کھڑے کریں اور مسلمان امیدوار الگ ہوں کرشک سرامک پارٹی اس کی شدید مخالف تھی، کیونکہ اقلیتوں کو قومی دھارے سے الگ کیا جا رہا تھا وہ مخلوط طرز انتخاب چاہتے تھے۔ ان اختلافات کی بنا پر آئی آئی چندریگر نے دسمبر1957میں صرف دو ماہ وزیر اعظم رہنے کے بعد استعفی دے دیا۔

1957کا ایک اہم واقعہ یہ تھا کہ یکم مارچ کو لیفیٹینٹ جنرل محمد موسیٰ نے چیف آف آرمی اسٹاف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ ان سے پہلے لیفیٹینٹ جنرل ناصر علی خان اس عہدے پر فائز تھے۔ یاد رہے کہ جنرل ایوب خان کمانڈر ان چیف تھے یعنی تینوں مسلح افواج ان کی سپرداری میں تھیں۔ 23جولائی 1957کو ائر مارشل اصغر خان نے پاکستانی فضائیہ کے سربراہ کے عہدے کا حلف اٹھایا۔اصغر خان پاک فضائیہ کے پہلے پاکستانی سربراہ تھے۔

نیشنل عوامی پارٹی کا قیام:25جولائی 1957کو ڈھاکہ میں مولانا عبدالحمید خان بھاشانی نے عوامی لیگ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ،جس کی بنیادی وجہ حسین شہید سہروردی سے اختلافات تھے۔ انہوں نے پاکستان نیشنل پارٹی اور گنتا تری دل کے اشتراک سے ’’نیشنل عوامی پارٹی ‘‘ کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے مغربی پاکستان میں ون یونٹ نظام کو منسوخ کرنے سے متعلق دیگر پارٹیوں سے مشاورت کی اور حمایت حاصل کر کے 17 ستمبر 1957کو ون یونٹ کے خاتمے کی تجویز منظور کر الی۔

یہ قرارداد نیپ کے رکن غلام محمد بھرگڑی نے پیش کی جسے تین گھنٹے کی بحث کے بعد چار کے مقابلے میں 170سے منظور کر لیا گیا۔ حمایت کرنے والوں میں نیپ اور ری پبلکن پارٹی کے ارکان شامل تھے ۔ ری پبلکن پارٹی مغربی پاکستان میں نیپ کی مدد سے اپنی حکومت قائم رکھنا چاہتی تھی۔ مسلم لیگ اس عمل میں غیر جانب داررہی۔

عوامی لیگ کے سہروردی اور مجیب الرحمان اس قرار داد کے شدید مخالف تھے اور ون یونٹ کی حمایت کرتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے صدر اسکند ر مرزا اور وزیر اعظم سہروردی پر دبائو ڈالا کہ وہ ون یونٹ کی حمایت میں اور چار صوبوں کی قرار داد کی ۔مخالفت میں بیان جاری کریں جو23ستمبر کو جاری کیا گیا۔نتیجہ یہ ہواکہ اتنی بڑی اکثریت سےمغربی پاکستان کی اسمبلی سے منظور ہونے والی قرارداد سے بھی پاکستان کی مرکزی حکومت اور فوج کے کان پر جوںتک نہ رینگی اور ون یونٹ نہیں توڑا گیا۔

وزیر اعظم ملک فیروز خان نون

ملک فیروز خان نے نو دسمبر1957کو جو وزارت قائم کی وہ پاکستان کے ابتدائی پارلیمانی دور کی آخری وزارت تھی۔ یہ چھ مخلوط جماعتوں کی حکومت تھی،جسے چوں چوں کا مربہ کہا جاتا تھا۔ فیروز خان نون اپنی اکثریت کے لئے بنیادی طور پر عوام لیگ اور سہروردی کی حمایت کے محتاج تھے۔ دراصل اس وقت نیشنل عوامی پارٹی ایک بڑی طاقت بن کر ابھر رہی تھی۔ اور بین الاقوامی طاقتیں بھی نہیں چاہتی تھیں کہ عام انتخابات ہوں اور نیشنل عوامی پارٹی جیت کر حکومت بنا لے کیونکہ اس کے سارے رہنما ترقی پسند اور نسبتاً بائیں بازو کے تھے۔اس دوران 9مئی 1958کو ری پبلکن پارٹی کے بانی ڈاکٹر خان صاحب کو ایک شخص عطا محمد نے قتل کر دیا۔ اس وقت مغربی پاکستان میں ری پبلکن پارٹی کے مظفر علی قزلباش وزیر اعلیٰ تھے۔

حکومت نے نومبر 1958میں عام انتخابات کا اعلان کیا مگر سات اکتوبر کو صدر اسکندر مرزا نے مارشل لا لگا کر آئین معطل کر دیا اور جنرل ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا جنہوں نے بیس دن بعد صدر اسکندر مرزا کو گرفتار کر کے ملک بدر کر دیا اور خود اقتدار پر قابض ہو گئے۔مجموعی طور پر 1947سے1958تک کا دور پارلیمانی جمہوریت کی ابتدائی منزلوں کا دور تھا جس میں سیاست دان، وڈیرے، سول اور فوجی افسر شاہی مل کر جمہوریت کا ستیا ناس کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اگر 1956کے آئین کے تحت 1958میں انتخابات ہو جاتے اور نیشنل عوامی پارٹی جیت کر آ جاتی تو شاید اس ملک کی تاریخ بالکل مختلف راستے پر چل نکلتی۔