75 سال بعد ہماری سمت کیا ہے؟

August 15, 2022

قیامِ پاکستان کے 75سال مکمل ہو چکے ہیں ۔ کسی قوم یا ملک کے لئے 75سال کا عرصہ بہت کافی ہوتا ہے ۔ اس عرصے میں اگر کچھ ہو سکے یا نہیں ، قومیں یا ملک اپنی سمت کا تعین ضرور کر لیتے ہیں لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہم ابھی تک ایسا نہیں کر سکے ۔ بڑی مشکل سے اور طویل جدوجہد کے بعد وفاقی پارلیمانی نظام حکومت پر سیاسی قوتوں کا وسیع تر اتفاق حاصل کیا گیا تھا اور1973 کے دستور میں اسے تحفظ دیا گیا تھا ۔ مگر اسی وفاقی پارلیمانی نظام حکومت پر وطن عزیز کے طاقتور حلقوں اور اشرافیہ کی طرف سے مسلسل حملے کئے جا رہے ہیں اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آگے کیا ہو ۔ ایک غیر یقینی کی کیفیت ہے ۔ 75سال بعد ملک میں کون سا نظام حکومت ہو ، اس پر آج بھی تنازع موجود ہے ۔

یہی تنازع یا مناقشہ پاکستان میں تمام مسائل اور بحرانوں کا بنیادی سبب ہے ۔ اس جھگڑے نے ہی ملک میں مستقل بنیادوں پر سیاسی عدم استحکام کو جنم دیا ۔مقتدر حلقوں نے قیام پاکستان کے 9سال تک آئین نہیں بننے دیا اور گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت نو آزاد مملکت خداداد کو چلایا کیوں کہ اس ایکٹ میں جو وائسرائے ہند کے پاس بے پناہ اختیارات تھے ، وہ برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان میں گورنر جنرل یا صدر کو منتقل ہو گئے ۔ اس طرح 1935 کا ایکٹ اپنے جوہر میں کمزور پارلیمنٹ والا دستور تھا ۔ 11 اگست 1947 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے دستور ساز اسمبلی سے جو خطاب کیا ، اس میں واضح طور پر یہ بتا دیا گیا تھا کہ پاکستان میں نظام حکومت وفاقی پارلیمانی جمہوری ہو گا ۔ سیاسی قیادت اسی پر اڑی ہوئی تھی ، جسے ایبڈو ، پروڈا اور احتساب کے دیگر کالے قوانین کے ذریعے نام نہاد احتساب کے نام پر راستے سے ہٹایا گیا اور مصنوعی سیاسی قیادت پیدا کر کے اس سے اپنی مرضی کے آئین بنوائے گئے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک پاکستان میں احتساب صرف اسی مخصوص مقصد کیلئےکیا جاتا ہے اور احتساب کا حقیقی نظام قائم نہیں ہو سکا ۔ پاکستان کی وفاقی اکائیوں یعنی صوبوں کی حیثیت ختم کرنے کیلئے 22 نومبر 1954کو وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے ملک میں ون یونٹ اسکیم نافذ کرنے کا اعلان کیا ۔5 اکتوبر 1955کو گورنر جنرل سکندر مرزا نے یہ اسکیم نافذ کر دی ، جسکے تحت مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں ، ریاستوں اور علاقہ جات کو ایک یونٹ بنا دیا گیا جب کہ مشرقی پاکستان دوسرا یونٹ قرار پایا ۔ 1956میں پاکستان کا جو پہلا آئین بنا ، 1935کے ایکٹ کے تحت اگرچہ وہ بھی وفاقی پارلیمانی تھا لیکن سارے اختیارات اس میں بھی صدر کے پاس تھے ۔ ون یونٹ اسکیم کے تحت 1956 کے آئین میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان برابری ( Parity ) سسٹم نافذ کیا گیا ، قومی اسمبلی میں آبادی کی بجائے دونوں یونٹس کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی دی گئی ۔ سیاسی قوتوں کی جدوجہد وفاقی پارلیمانی نظام کیلئے جاری رہی ۔ یہاں تک کہ پاکستان میں انقلاب کی صورت حال پیدا ہو گئی ۔ اکتوبر 1958ءمیں جنرل ایوب خان نے 1956 کا آئین معطل کرکے پاکستان میں مارشل لا نافذ کیا اور پھر چار سال بعد 1962 کا آئین دیا ، جس میں وفاقی پارلیمانی نظام حکومت کی بنیادی خصوصیات ختم کر دی گئیں ۔ یہ ایک صدارتی نظامِ حکومت تھا ۔ بنیادی جمہوریتوں کا نظام ’بی ڈی سسٹم‘ متعارف کرایا گیا ۔ صدر اور ارکان پارلیمنٹ کا الیکٹورل کالج لوکل کونسلزکے منتخب نمائندے تھے ۔ یہ آئین، پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشا کے مطابق تھا اور آج بھی شاید 1962والے دستور کی بحالی یا اس جیسے کسی دستور کی نئی منظوری کےلئے سارے بحران پیدا کئے جا رہے ہیں۔

پاکستان میں حقیقی وفاقی پارلیمانی نظام حکومت کا راستہ روکنے کی وجہ سے پاکستان دولخت ہو گیا اور آج بھی پاکستان کے چھوٹے صوبوں سے یہ آوازیں آ رہی ہیں کہ اگر 1973 کے دستور خصوصا ًاس کی 18ویں ترمیم کو رول بیک کیا گیا تو پھر اس بات کی کوئی ضمانت نہ ہو گی کہ چھوٹی وفاقی اکائیوں کے لوگ علیحدگی پسندوں کا ساتھ نہ دیں ۔ 1973 کے دستور میں حقیقی وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام حکومت کی ضمانت دی گئی ہے ۔ اس دستور کو دو بارمعطل کیا گیا، ایک دفعہ جنرل ضیا الحق نے اور دوسری بار جنرل پرویز مشرف نے ۔ دونوں نے دستور میں ترامیم کرکے پارلیمنٹ کو کمزور کیا اور اختیارات صدر کو منتقل کر دیے ۔ اس کے لئے غیر منتخب مجلس شوریٰ ، غیر جماعتی انتخابات کی بنیاد پر منتخب ہونے والی پارلیمنٹ اور دھاندلی سے بنائی جانے والی پارلیمنٹ کو استعمال کیا گیا،وفاقی پارلیمانی نظام حکومت کے لئےجدوجہد کرنے والی سیاسی قوتیں بھی اس لڑائی میں شعوری یا لاشعوری طور پر ٹریپ ہو رہی ہیں ۔ پارلیمنٹ کے فیصلے عدالتوں میں جانے سے پارلیمنٹ کی بالادستی خطرے میں پڑ گئی ہے ۔ عدالتی فیصلوں سے آئین کی وہ تشریح کی جا رہی ہے ، جو بعد ازاں خوفناک پیچیدگیاں پیدا کر سکتی ہے اور پارلیمنٹ کو مزید کمزور کر سکتی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کی وقتی اور مصنوعی مقبولیت کے دبائومیں بنیادی دھارے کی سیاسی قوتیں جس طرح ’’نیو ٹرلز ‘‘ کا سہارا لینے کی کوشش کر رہی ہیں اور ماضی کی ساری باتوں کو پس پشت ڈالنے کیلئے تیار ہیں ، یہ بھی سسٹم کے لئے نقصان دہ ہو گا ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ آئندہ انتخابات میں بھی ٹریپ ہو جائیں اور ایسی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو نمائندگی مل جائے ، جو کھلم کھلا 18ویں ترمیم کی مخالف ہیں ۔ ان جماعتوں میں تحریک انصاف اور ابھرتی ہوئی مذہبی جماعتیں بھی شامل ہو سکتی ہیں ۔

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں وفاقی پارلیمانی نظام حکومت فطری ہے ۔ اب 18 ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے یا 1973 کے دستور کی بجائے 1962جیسے دستور کے نفاذ کی کوششیں ترک کر دینی چاہئیں ۔ 75سال سے جاری اس کشمکش سے سبق سیکھ لینا چاہئے ۔اب اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ پاکستان کی وفاقی اکائیوں کی الگ الگ حیثیت ہے ۔ وفاق کا بنیادی جوہر سیاسی اقتصادی اور ثقافتی تنوع ہے ۔ پاکستان کے لوگوں نے وفاقی پارلیمانی نظام حکومت کی شدید مخالفت کے باوجود اسے نافذ کرکے دکھادیا ہے۔ انہوں نے سمت کا تعین کر دیا ہے ۔ اب پاکستان کو اسی سمت میں چلنے دیا جائے۔ سیاسی قوتیں بھی پارلیمنٹ کی بالادستی کو خود خطرے میں نہ ڈالیں اور اس کا تحفظ کریں ورنہ بحیثیت قوم ہم آگے بھی بھٹکتے ہی رہیں گے۔