سائنس ہی مستقل سچائی ہے

August 16, 2022

اگر آپ کو اپنا کوئی پسندیدہ فلمی ستارہ، کرکٹ کا کھلاڑی یا سیاستدان سڑک پر نظر آئے تو اسے آپ کو غور سے دیکھنا ہو گا کہ یہ اصل ہے یا نقل، یعنی یہ کہیں ’’جعلی‘‘ شخصیت تو نہیں؟ ابھی تک مداح اپنے ستاروں کے آٹوگراف، تصویر یا یاد گار نشانیاں ہی جمع کرتے رہے ہیں مگر اب وہ دن دور نہیں جب ایسا ممکن ہو گا کہ وہ ان شخصیات کے کلوننگ سے اس کے ہمزاد بنوالیں۔ ہالینڈ کے ایک جریدے کے مطابق اس اندیشے کے پیش نظر جب انسان کا کلون بنانے کی تکنیک کامیاب ہو جائے گی تو لوگ اپنے پسندیدہ قائدین کھلاڑی اورفلمی ستاروں کے کلون بنوا لیں گے، ایک امریکی کمپنی نے ڈی این اے (DNA) کا کاپی رائٹ کرنےکی پیشکش بھی ہے۔ سان فرانسسکو کے DNA کاپی رائٹ کے ادارے کے صدر آندرے کریپ نے کہا کہ بہت سارے لوگ اپنی پسندیدہ شخصیات کا کلون بنوانا چاہتے ہیں۔ مشہور شخصیات کے ذہنوں کو اس فکر سے بچانے کیلئےہم DNA کو ریکارڈ کرنے کی پیشکش کر رہے ہیں۔ جس پر کم از کم ڈھائی سوڈالر خرچ آئے گا۔ادھر قبرصی نژاد امریکی سائنس دان پینا یوئسن ریوس نے انکشاف کیا ہےکہ کلوننگ کے ذریعے انسانی جین تیارکرنے کے لئے کوششیں تیز کر دی گئی ہیں اور جلد ہی پہلا کلوننگ انسان تیار کر لیا جائے گا ۔برطانیہ کے نیو سائنٹسٹ میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ کلون شدہ انسانی جین کی تیاری رواں سال کے آخر یا نئے سال کے آغاز میں مکمل ہو جائےگی اس سلسلے میں دو ملکوں کی خفیہ لیبارٹریوں میں کام ہو رہا ہے اور تحقیق میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم جوڑے بھر پور تعاون کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کلون شدہ انسانی جین کے ذریعے دو سو خواتین کو مائیں بنائیں گے۔ واضح رہے کہ اس سےپیشتر اٹلی کےایک سائنس دان نے گزشتہ سال جولائی میں اعلان کیاتھا کہ وہ کلوننگ کے ذریعے انسان پیدا کرنے کے ایک منصوبے پر کام کر رہا ہے۔

بات ہو رہی تھی کہ وہ دن دور نہیں جب شخصیات کی کلوننگ سے ان کے ہمزاد بنوا لئے جائیں۔ اس سلسلےکی بہترین مثال ’’جراسک پارک‘‘ ہے۔ جی ہاں! اس فلم اور اس کے ’’ہیروز‘‘ کو آپ کیسے بھول سکتے ہیں۔ کروڑوں سال پہلے کی جناتی مخلوق جس کو معدوم ہوئے بھی کروڑوں سال ہو چکے ۔ اب اس کی صرف پتھرائی ہوئی باقیات ہی دستیاب ہیں اسی پتھر مخلوق کو سنیما کے پردے پر زندہ اور متحرک ہی نہیں ہر طرح کی نقل و حرکت کرتے دیکھنے کا تجربہ کیسا رہا؟ یہ فلم دیکھنے والے ہی بتا سکتے ہیں۔ آپ نے کسی وقت سوچا کہ یہ مخلوق جس کا وجود ہی نہیں اس طرح چلتی پھرتی، خوراک کھاتی اور انسانوں کے پیچھے دوڑتی کیسی نظر آ رہی ہے؟ مختصر الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب کمپیوٹرائز انسانی تصویریں، اصلی انسانوں کی طرح خدمات انجام دیا کریں گی اور یہ سب کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا کمال ہو گا۔ آپ کو یاد ہو گا کچھ عرصہ قبل خبر آئی تھی جس کے ساتھ ایک خوبرو حسینہ کی تصویر بھی تھی۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ آپ کو یہ خاتون 24گھنٹے خبریں سنایا کریں گی۔ کیا اس خبر پر آپ کو حیرت ہوئی کہ کون 24گھنٹے ڈیوٹی پر بیٹھا رہ سکتا ہے؟ لیکن یہ خبر بالکل درست ہے اور درست یوں ہے کہ اس خاتون کا بھی کوئی وجود نہیں صرف کمپیوٹر کے ایک ماہر کا کمال ہے کہ اس نے ایک ’’حسینہ‘‘ تخلیق کر دی اور کوئی تعجب نہیں کہ وہ وقت آجائے (جو کہ بہت جلد آنے والا ہے) جب آپ ٹی وی پر کوئی ایسا ڈرامہ دیکھیں جس کے سارے کردار کسی کمپیوٹر کے ماہر کی تخلیق ہوں۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں۔ ’’جراسک پارک‘‘ جیسی شاندار فلم اس کا ثبوت دے چکی ہے تو آئیے ذرا ایک اور بڑھتے قدم کی طرف… یہ آپ تصویر میں ایک بزرگ قسم کی خاتون کو دیکھ رہے ہیں؟ ان کا نام کیا ہے؟ اور یہ کہاں رہتی ہیں۔ہم ان کی کیا خدمت بجا لا سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ آپ کے سوالات تو آپ کو مہذب ثابت کرنےکے لئے کافی ہیں بات بس اتنی ہے کہ ان خاتون کا وجود گوشت پوست، خون اور ہڈیوں وغیرہ سے نہیں ہے بلکہ سائنس سے تشکیل شدہ ہے اور اس قدر مکمل اور جاذب نظر ہے کہ آپ خاتون کومسکرانے سے لے کر گفتگو کرتے ہوئے بالکل یوں دیکھ سکتے ہیں جیسے یہ سچ مچ آپ کے سامنے موجود ہوں اس قدر کے جب اسکرین پر ان کا چہرہ قریب سے دیکھا جائے تو آپ ان کے چہرے کے مسامات تک ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔کیا آپ کو یقین نہیں آ رہا؟ نیوٹن (میساچوسٹس) میں ایک چھوٹے سے ادارے نے یہ ’’خاتون‘‘ تخلیق کی ہے اور اس ادارے کے اس کارنامے نے ہالی ووڈ کے ماہرین کو چونکا کر رکھ دیا ہے ۔

آپ سوچیں گے کہ یہ کیونکر ممکن ہوا تو صاحب! کہتے ہیں کہ صرف سائنس ہی مستقل سچائی ہے اور یہ کہ امریکہ میں صرف تحقیق و تجربات کیلئے 220بلین ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں…

پابند مقدر ہو کر بھی ہرچیز پہ قادر ہے انساں

مجبور کا جب یہ عالم ہے مختار کا عالم کیا ہوگا