حب الوطنی کا پچھتر سالہ تقاضا؟

August 18, 2022

ان دنوں ہم مملکتِ خدا داد پاکستان میں اپنی آزادی کا پچھتر سالہ جشن منا رہے ہیں،یہ گاتے ہوئے کہ’’ اے قائداعظم تیرا احسان ہے احسان، یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران۔‘‘ سچ تو یہ ہے کہ دنیا آج بھی حیران و پریشان ہے کہ پون صدی گزرنے کے بعد بھی ہمارا جناح ثانی’’غلامی نہیں آزادی ‘‘کا نعرہ لیکر اٹھا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ پورے پچھتر برس گزارنے کے باوجود ہمیں حقیقی آزادی نصیب نہیں ہو سکی ۔ بیرونی طور پر ہم امریکہ کے غلام ہیں تو اندرونی طور پر نیوٹرلز کے۔ وہ بڑے بڑے عوامی جلسوں میں یہ نعرے لگواتاہے کہ اے میرے پاکستانیو! اب غلامی کی زنجیریں توڑ دو میں دوبارہ آ گیا ہوں تمہاری قیادت کرنے ۔

اگر غور کیا جائے تو ہمارے سابق کرکٹر کی بات اتنی غلط بھی نہیں ہے ،وہ اگرچہ اپناسیاسی الو سیدھا کرنے کیلئے اس نوع کی نعرے بازی کر رہا ہے لیکن سوچنے کیلئے یہ پوائنٹ اچھا ہے کہ کیا ہم واقعی آزاد قوم ہیں ؟ کیا ہمارے عوام آزاد ہیں ؟کیا یہاں آج بھی جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے بھینس اسی کی نہیں ہے ؟ وہ خود یہ کہہ رہا ہے کہ یہاں طاقتوروں کی مرضی کے بغیرپتہ تک نہیں ہلتا،جب تک وہ حکومت میں رہا بیساکھیوں کے سہارے چلتا رہا جب ان کو ناراض کر بیٹھا انہوں نے پلک جھپکتے ہی اس کی حکومت کا دھڑن تختہ کر ڈالا ۔

یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ جناب،اگر آپ اتنے ہی سچے ہیں تو آپ کسی کی کٹھ پتلی بنے ہی کیوں تھے ؟ جب اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنا تھا تب ان کا درباری بن کر ان کی چوکھٹ پہ حاضری جائز تھی اور اب جب انہوں نے نگاہیں پھیرلی ہیں تو یہ سب ریاضت آپ کی نظروں میںنا مسعود قرار پائی ہے ؟ آپ طاقتوروں پر تنقید ضرور کریں مگر’’ شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور‘‘ ہر چیز کی کچھ حدود وقیود ہوتی ہیں۔ آپ کے ایما و بیانیے پر آپ کا ایک ملازم آپ کی خوشنودی کیلئے ریڈ لائن کراس کرتے ہوئے اتنی دور تو نہ نکل جائے جو ادارے میں ماتحتوں کو اپنے افسرانِ بالا کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے زمرے میںشمارہو۔ہمارے محبان اکثر اس نوع کی تکرار کرتے پائے جاتے ہیں کہ ہمیں کچرے یا روڑی کے ڈھیر پر بھی کچھ ہری ٹہنیاں لگا کر پھول اور پودے دکھانے چاہئیں، حب الوطنی کا یہی تقاضا ہے کہ اپنے ملک کی گندگی کو بھی خوشنما بنا کر پیش کیا جائے۔ اس کے منفی پہلوئوں کو بھی مثبت لبادوں میں لپیٹ دیا جائے، پوچھا جائے کہ اس کا فائدہ کیا ہو گا تو جواب ملتا ہے کہ دنیا ہمارے ملک کو اچھا سمجھے گی، ہماری عزت کرے گی ۔

اسی مبارک سوچ کے زیر اثر درویش آج یہ تحریر کرنے پر مجبور ہے کہ اس عظیم مملکت پاکستان کا پچھتربرسوں پر محیط سفر ہمالیہ کے برابر بلندیوں تک پہنچا ہوا ہے، ہمارا یہ سفر جب شروع ہوا تو ہمارے پاس کاغذوں کو نتھی کرنے کیلئے سوئی تک نہ تھی ہم نے کانٹوں سے یہ کام لیا اور آج الحمدللہ ہم دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہیں ،ہمارے سونامی صاحب فرماتے ہیں کہ شروع میں ہم مرچوں کے ساتھ خشک روٹی کھاتے تھے اب ہم گائے اور بکرے کا گوشت بھون کر پراٹھوں کے ساتھ کھاتے ہیں ۔ترقی تو ہم نے بہت کی ہے کرکٹ کا ورلڈ کپ ہم نے جیتا اور جس ٹیم کے ذریعے جیتا اس کے کپتان کو ہم نے ملک کا وزیر اعظم بنا دیا کتنے فراخدل لوگ ہیں ہم ۔

ہمارے موجودہ وزیر اعظم فرما رہے ہیں کہ ہم بہت محنتی لوگ ہیں ،میں نے سعودی عرب، متحدہ امارات اور ترک دوستوں سے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ اے میرے بھائیو! ہم بھکاری نہیں ہیں ہم آپ کے پاس بھیک مانگنے نہیں آتے ،براہ کرم ہمیں اس نظر سے مت دیکھا کریں ،بات صرف اتنی ہے کہ ہمارے حالات ذرا خراب ہیں، ہماری معیشت اتنی اچھی نہیں رہی اسلئے ہم آپ کا صرف تعاون چاہتے ہیں تھوڑا قرضہ دے دیں ہم وہ محنت مزدوری کرکے آپ کو لوٹا دیں گے۔

ہم نے آزادی کے پچھتربرسوں کی تکمیل پر پچھتر روپے کا ایک نوٹ چھاپا ہے جس پر ہم نے آزاد اور دو قومی نظریہ کیلئے جدوجہد کرنے والے اپنے مشاہیر کی تصاویر لگوائی ہیں۔ جن منفی ذہنیت والوں کو ہر چیز میں برائی دکھائی دیتی ہے وہ اس پر طرح طرح کے سوالات اٹھا رہے ہیں انہیں اس سے احتراز کرنا چاہئے، یہ لوگ کھاتے پاکستان کا ہیں اور گن ہندوستان کےگاتے ہیں۔انہیں چاہئے کہ وہ ہر وقت پاکستان کی برائیاں تلاش کرنے یا بیان کرنے کی بجائے اس کی خوبیاں بیان کیا کریں ۔

حضور یہ ملک ہے تو آپ ہیں ورنہ اگر یہ ٹھکانہ آپ کو نہ ملتا تو آپ کا نام ونشان مٹ جاتا جس طرح ان دنوں انڈین مسلمانوں کا مٹ رہا ہے۔ یہ ساری ترقی ،یہ رونقیں آپ کو اپنے اس پیارے و آزاد ملک کی بدولت میسر ہیں اور اس اہم موقع پر اپنے ان طاقتوروں کی قدر افزائی کرنا بھی نہ بھولیں جن کی ہمت و طاقت سے آپ کو آزادی کی یہ نعمت حاصل ہے ، لہٰذا اپنا اور اپنی قوم کا پیٹ کاٹ کر بھی ان طاقتوروں کی خدمت کریں۔ اس سلسلے میں جو لوگ منفی باتیں پھیلاتے ہیں ان کے منہ بند کریں۔دو قومی نظریے کا مطلب یہی ہے کہ دو پاکستان نہیں ایک پاکستان ۔قائد کے اس فرمان کو پھیلایا جائے کہ یہاں مسلم ،غیر مسلم، امیر غریب یا طاقتور و کمزور میں کوئی فرق نہیں یہی حب الوطنی کا پچھتر سالہ تقاضا ہے۔