وقت کی اہم ضرورت۔ گرینڈ ڈائیلاگ

September 24, 2022

پاکستان میںجاری سیاسی عدم استحکام کی موجودہ لہر نے پاکستانی معیشت کا بھرکس تو پہلے ہی نکال دیا ہےاور لوگ محض دو وقت کی روٹی کے لیے دھکّے کھا رہے ہیں۔ مہنگائی کا جو عالم ہے اس کا پہلے کبھی تصّور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ اس سیاسی عدم استحکام کی بنیادی وجہ تو ہر شخص جانتا ہے کہ پاکستان کو ہمیشہ غیر آئینی طریقے سے چلانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ جسکی وجہ سے 75سال گزرنے کے باوجود آج تک کسی جائز یا ناجائز طریقے سے منتخب ہونے والے وزیرِ اعظم نے اپنی آئینی مدّت پوری نہیں کی ۔جسکی وجہ سے ملک میں سیاسی استحکام نہیں آسکا جو معاشی ترقی اور استحکام کی شرط ِ اوّلین ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور سوویت یونین کی 1991میں شکست وریخت تک پاکستان کو امریکہ اور اس کے مغربی حلیفوں نے دل کھول کر امداد دی اور فوجی جرنیلوں کے ذریعے پاکستان میں جمہوریت اور سیاستدانوں کو بدنام کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر فوجی حکومت کے دوران ملک کی جی ڈی پی کی شرح زیادہ رہی ۔ اس عمل نے تین منفی کردار ادا کئے۔ بعض جرنیلوں نے خود کو قوم کا نجات دہندہ سمجھ لیا اور جنرل ضیاء نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ چاہے یہ بات کسی کو پسند ہو یا نہ ہو، پاکستان میں اقتدار اس کے پاس رہے گا جو فوج کے کمانڈر انچیف کی کرسی پر بیٹھے گا۔ دوم ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی ختم ہوگئی۔ جنرل ضیاالحق نے آئین کو بارہ صفحے کی کتاب قرار دے دیا جسے کسی وقت بھی پھاڑ کر پھینکا جا سکتا تھا۔ اس سے پہلے جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ بھی آئین کے ساتھ یہی کھلواڑ کر چکے تھے۔ جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ، بنگلہ دیش بن گیا۔ سوم اپنے اقتدار کو زیادہ سے زیادہ طویل اور مضبوط بنانے کے لیے فوجی ڈکٹیٹر وں نے جمہوریت کا نام لینے والے ہر سیاستدان کو یا تو نا اہل کردیا یا جلا وطن اور ایک کو تو پھانسی پر لٹکا دیا۔ اس ضمن میں ’’ کرپشن ‘‘ کو سب سے بڑا ہتھیار بنایا گیا جوان لوگوں کے ہاتھ میں تھا، اس کے بعد سیاست دانوں کی ایک ایسی کھیپ تیا رکی گئی ، جن کی واحد قابلیت جی حضوری تھی اور وہ اسٹیبلشمنٹ کی غیبی امداد کے عادی ہو چکے تھے۔ اس پس منظر کا اس وقت ڈراپ سین ہو گیا جب سوویت یونین کے زوال اور طالبان کے عروج نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پالیسیاں تبدیل کردیں اور انہوں نے پاکستان سے منہ موڑ لیا۔ اس وقت ضرورت تھی کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی بدلتے ہوئے حالات کا ادراک کرکے سیاسی مداخلت کا راستہ بند کردیتی کیونکہ اب انہیں اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی مالی امداد بند ہو چکی تھی۔ لیکن برسوں تک اقتدار میں رہنے والی اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار سے علیحدہ ہونے کی بجائے صرف اپنا طریقہ کار بدل لیا اور براہِ راست اقتدار میں آنے کی بجائے ایک پراکسی یا ہائبرڈ نظام آزمانے کا فیصلہ کیا۔ جس کا آغاز 2011میں عمران خان کے ذریعے کیا گیا۔ جس میں 2014میں دھرنوں کے ذریعے سیاسی عدم استحکام پیدا کیا گیا۔ اس کے باوجود کہ عمران خان نے حکومت کو ایک دن چین سے کام نہیں کرنے دیا۔ 2018کے الیکشنوں تک ملک نے تقریباََ 6جی ڈی پی کی شرح سے ترقی کی ۔ بجلی کے نئے کارخانے لگائے گئے، سڑکوں کا جال بچھایا گیا، افراطِ زر صرف 4فیصد تھا۔ آٹا 35روپے، چینی 50روپے اور گھی 150روپے کلو تھا۔ لیکن عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے ’’پروجیکٹ عمران‘‘ پر عمل کرتے ہوئے ہر اصول کو تہس نہس کر دیا گیا۔ لیکن یہ ہائبرڈ نظام اس بری طرح ناکام ہوا کہ لانے والوں کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ نہ صرف معیشت تباہ ہوگئی بلکہ ’’ لاڈلے‘‘ نے اپنے تخلیق کاروں کے خلاف بھی گھمسان کی جنگ شروع کردی۔ جنہوں نے اپنے غیر سیاسی اور نیوٹرل ہونے کا اعلان کردیا۔ جو دیر آید درست آید کے مترادف ہے لیکن برسوں سے برسرِ اقتدار طبقے کی سیاست سے اچانک اور بغیر پلاننگ دستبردار ی نئے اور خوفناک بحران پیدا کر سکتی ہے۔ اس سے ایک ایسا خلاپیدا ہونے کا اندیشہ ہے جو ملک کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ۔ کیونکہ تاریخ کے خوفناک ترین سیلاب کی تباہ کاریوں نے اس خطرے کو بڑھا دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نازک موقع پر اپنی انا اور ضد کو ایک طرف رکھ کر تمام اسٹیک ہولڈ ر ز جس میں تمام سیاسی و مذہبی پارٹیاں اور اسٹیبلشمنٹ شامل ہیں۔ ایک گرینڈ ڈائیلاگ کا اہتمام کریں۔ جس میں اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی امور سے باہر نکلنے میں مدد دی جائے۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے طویل ترین اقتدار کی وجہ سے زندگی کے ہر شعبے میں انکی موجودگی اور مداخلت اتنی زیادہ ہے کہ اسے بہ یک جنبش ِ قلم ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بڑی سیاسی مہارت کا کام ہے کہ دفاعی اداروں کی عزت و تکریم پر بھی حرف نہ آئے اور انہیں ان کے آئینی کردار تک محدود بھی کر دیا جائے۔ تاکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے۔ ورنہ ملک میں جو معاشی انحطاط اور اس کے ساتھ جو قیامت خیز سیلاب آگیا ہے۔ اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے۔

کچھ تو جلا کے راکھ کیا گھر کو آگ نے

باقی بچا تھا جو اسے سیلاب لے گیا