ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

September 30, 2022

میں نے کہیں جی سی یونیورسٹی لاہور کے میگزین راوی کے حوالے سے لکھا تھا۔ ’’ایک تو وہ راوی ہے جو شاہی قلعہ کی دیواروں کے ساتھ بہتا ہےلیکن ایک اس سے بھی عظیم تر راوی ہے جس کی روایت گورنمنٹ کالج لاہور سے منسوب ہےجس نے علم و ادب کے اتنے بڑے بڑے میناروں کو جنم دیا ہے ۔جن کا سایہ نہ صرف پاکستان پر بلکہ علم و ادب کی پوری دنیا پر محیط ہے ۔علامہ اقبال ،پطرس بخاری ، فیض احمد فیض ،امتیاز علی تاج جیسی طوفان بخش لہریں اِسی راوی سے اٹھیں اور غیر ملکی ادب کی تلاطم خیزیوں کو شرما گئیں‘‘۔ایک طویل عرصہ کے بعد ادب کے ساتھ جی سی یونیورسٹی کے تعلق کا دوبارہ احساس مجھے اس وقت ہوا۔ جب جناب سہیل وڑائچ نےگورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر ڈاکٹراصغر زیدی کے ساتھ اپنے پروگرام ’’ایک دن جیو کے ساتھ ‘‘ کی ریکارڈنگ کی اوراس میں اس دن مجلس ترقی ادب اور جی سی یونیورسٹی کے درمیان ہونے والے ایم او یو کی تقریب کو بھی شامل کیا گیا۔ یہ ادب کے ساتھ ڈاکٹر اصغر زیدی کی گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ میری ان کے ساتھ بہت سی ملاقاتیں ہوئیں ۔ جن میں مختلف موضوع پر لمبی گفتگوئیں بھی شامل ہیں انہوں نے جنوبی کوریا کی سیول نیشنل یونیورسٹی میں سوشل جیرونٹولوجی کے پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دی ہیں ۔وہ ایک بڑے معیشت دان ہیں ۔انہوں نے یونیورسٹی آف آکسفورڈ، یو کے سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی جس میں ٹونی اٹکنسن ان کے گائیڈ تھے۔انہوں نے کئی موضوعات پر تحقیقی کام کیا جن میں آبادی کی عمر بڑھنے اور اس کے سماجی اور معاشی نتائج، پنشن پالیسی اور فلاحی ریاستوں کے مالیاتی اور سماجی استحکام پر اس کے اثرات، لیبر مارکیٹ کی حیثیت اور معذور افراد کی فلاح و بہبود، معمر افراد میں غربت ، سماجی اخراج اور متحرک مائیکرو سمولیشن وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تحقیقی کام انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی، ایراسمس یونیورسٹی روٹرڈیم، لندن اسکول آف اکنامکس اور بہت سے دیگر اداروں میں کیا۔ ان کے تحقیقی منصوبوں نے بہت سے ایوارڈز اور گرانٹس حاصل کیں ۔ان تحقیقی موضوعات پر ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔

عمران خان کی جی سی یونیورسٹی میں آمد کے بعد ان کے خلاف شروع کی جانے والی مہم میرے لئے بہت تکلیف دہ تھی ۔جی سی یونیورسٹی میں کونسی بڑی سیاسی شخصیت ہے جو عمران خان سے پہلے نہیں آ چکی ۔وہاں ہلیری کلنٹن ، نواز شریف ، بےنظیر بھٹو، پرویز مشرف ، ظفراللہ جمالی ، یوسف رضا گیلانی آئے مگر کسی نے کبھی کوئی اعتراض نہ کیا ۔ یہاں نواز شریف کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی گئی مگر کسی نے کچھ نہیں کہا ۔عمران خان نے وہاں تقریر کردی تو قیامت آگئی ۔وائس چانسلر کے خلاف طوفان ِ بدتمیزی شروع ہوگیا حالانکہ یہ پروگرام پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے زیر اہتمام منعقد ہوااور محکمہ ہائر ایجوکیشن حکومت پنجاب کی ہدایت پرسابق وزیر اعظم عمران خان کو بلایا گیا ۔یونیورسٹی کا اس سلسلے میں یہ موقف ہے کہ ’’ مہمان خصوصی بنانےکی 157 سالہ تاریخی نشست میں ایک تکثیری نقطہ نظر کے ذریعے لبرل تعلیم دینے کی دیرینہ روایت ہے۔ ہم اپنے طالب علموں کو مختلف فکری نظریات سے روشناس کراتے ہیں اور ان پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے ان میں سے کسی ایک کو بھی اپنا لیں۔ فکری، سماجی، ثقافتی، مذہبی اور سیاسی زاویوں سے ان کا تعارف کرانے کیلئے، ہم مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے شعبوں کے نامور لوگوں کوگفتگو کیلئےبلاتے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ مختلف رجحانات کے سیاست دانوں کو اپنے طلباکے ساتھ بامعنی مکالمے میں مشغول ہونے کی دعوت دی ہے تاکہ وہ پالیسیوں، منشوروں اور ان کے نفاذ کی حیثیت کو سننے اور ان پر سوال کرنے کا پہلا تجربہ حاصل کر سکیں۔ یہ ان بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ہے جس پر پوری دنیا کی یونیورسٹیاں عمل پیرا ہیں۔ جب سے جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی نے چارج سنبھالا ہے ۔سرگرمیوں کی ایک نئی لہر کا آغاز ہوا ہے۔بین الاقوامی اورقومی شخصیات کو طلبا کے ساتھ بات چیت کیلئے مدعو کیا گیا۔ اس روایت نے طالب علموں کو باخبر کیا۔ صاحب ِرائے بنایا ۔ان میں روادار ی اور نرم مزاجی آئی ‘‘۔

بے شک یہ بات درست نہیں کہ عمران خان کوبلانے پریونیورسٹی اور وائس چانسلر کوالیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ۔ یونیورسٹیوں میں خطاب کی روایت بہت پرانی ہےقائداعظم محمد علی جناح نے بھی ڈھاکہ یونیورسٹی ، علی گڑھ یونیورسٹی ، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، پشاور یونیورسٹی اور کئی اور یونیورسٹیوں میں خطاب کیا تھا۔یونیورسٹیوں میں سیاسی عمل قوموں کی ترقی کےلئے انتہائی ضروری ہوتا ہے ۔یہ بات بہت تکلیف دہ ہے کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں سیاسی عمل کو مسلسل کئی دہائیوں سے روکا گیا ہے جس کی وجہ سے ملک کو اعلیٰ درجہ کی قیادت نصیب نہیں ہورہی ۔انگریزوں کے دور میں یونیوسٹیوں او ر کالجوں میں طلبہ تنظیموں پر پابندی نہیں لگائی گئی تھی مگرجنرل ضیا کے دور سے شروع ہونے والی ان پابندیوں کی بدولت یہ دن دیکھنا پڑا ہے کہ گورنر پنجاب ،جو انتہائی پڑھے لکھے آدمی ہیں ،نے بھی یہ کہہ دیا کہ ’’نامور تعلیمی ادارے کو سیاسی اکھاڑہ بناناافسوس ناک ہے‘‘بہرحال ڈاکٹر اصغر زیدی جب سے آئے ہیں جی سی یونیورسٹی ایک نئے دور میں داخل ہوئی ہے ۔انہوں نے وہاں بڑے بڑے یادگار کام کئے ہیں ۔ ہیری پوٹر فیسٹیول کو کون بھول سکتا ہے جس نے جی سی یونیورسٹی کو جادو نگری میں بدل دیا تھا۔بیرونی دنیا کے ساتھ یونیورسٹی کو اس سطح پر منسلک کرنا کوئی چھوٹا کام نہیں ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)