آڈیو لیک کا دھماکہ

October 01, 2022

وزیراعظم کے دفتر میں ہونے والی گفتگو، جس میں کابینہ کے اراکین اور سینئر سرکاری افسران شریک تھے ، کے کثیر تعداد میں آڈیو لیک سامنے آئے ہیں۔ اوپن سورس انٹیلی جنس انسائیڈر (OSINT_Insider) کے مطابق لیک ہونے والے آڈیو ایک سو فائلوں پر مشتمل اس گفتگو کا حصہ ہیں جس کا دورانیہ 140 گھنٹے اور سائز آٹھ جی بی ہے۔ مبینہ ہیکر تمام ریکارڈنگ کو ختم کرنے کیلئے 3.45 ملین ڈالر کا مطالبہ کررہا ہے۔

یہ ریکارڈنگز بیس اگست سے برائے فروخت ہیں۔ اوپن سورس انٹیلی جنس انسائیڈر کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہ گفتگو ٹیلی فون سے حاصل نہیں کی گئی بلکہ وزیراعظم کے دفتر میں براہ راست ریکارڈ ہوئی ہے۔ ان میں سے کچھ ریکارڈنگ کو سوشل میڈیا پر جاری کیا گیا جہاں عام آدمی اسے سن سکتے ہیں۔ ہیکر کا مزید دعویٰ ہے کہ ملک کے حساس اداروں کے سربراہان کی گفتگو کی ریکارڈنگ بھی دستیاب ہے۔

اس واقعے نے وزیراعظم کے دفتر کی سکیورٹی کی بابت تشویش بڑھا دی ہے۔ نیز انٹیلی جنس اداروں کا کردار (یا عدم موجودگی) بھی کم تشویش ناک نہیں۔ اس سارے معاملے کی تحقیقات ازحد ضروری ہیں۔ یہ ریکارڈنگ ایک طرح سے نعمت غیرمترقبہ بھی ثابت ہوئی ۔ اس کی وجہ سے مجرموں کے اس ٹولے کو اقتدار پر مسلط کرنے والے ہاتھوں کی سازش بھی بے نقاب ہوگئی۔

افشا ہونے والی گفتگو کے کچھ موضوعات اسحاق ڈار کی ملک میں بطور وزیر خزانہ واپسی، اس کا طریقہ کار اور وجہ، سگریٹ سازی کی صنعت کو مراعات دینا جس کی وجہ کابینہ کی ایک وزیر کے شوہر کے مفادات ہیں، انڈیا سے صنعتی مشینری کی درآمد اور اس کے لیے مریم نواز کا اصرار کیوں کہ یہ ان کے داماد کی فیکٹری کے لیے چاہیے، تیل کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے کھلا تضاد، تحریک انصاف کے غریب افراد کے علاج کے لیے جاری کیے گئے صحت کارڈ کی بندش، میڈیا مینجمنٹ اورتحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کو قبول کرنے کی سازش اور اس حوالے سے چیف الیکشن کمشنر کا کردار۔

مجموعی طور پراب تک جو ٹیپس منظر عام پر آئی ہیں ان سے ملک میں مختلف جماعتوں، خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے چلائی جانے والی بدترین سیاسی مہم کا پتہ چلتا ہے۔ اس جماعت نے ہمیشہ سیاست کے نام پر اخلاقی، مادی یا مالی ترغیبات دیتے ہوئے انسانی ضمیر کی تجارت کی ہے۔ سیاست میں ان کے داخلے کا بنیادی مقصد خاندانی بادشاہت کو توانا کرنا تھا جو ملک کو اپنے تابع کرکے ہمیشہ کے لیے حکومت کرتا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی میدان میں روایتی طور پر غالب کھلاڑیوں نے بے دردی سے ایک ایسا نظام تیار کیا جو ان کے ذاتی مفادات سے مطابقت رکھتا ہو۔ ان کی اولاد کے سیاسی میدان میں قدم رکھنے سے اس ظالمانہ نظام کی زیادتیاں اوربڑھ گئی ہیں۔

کسی بھی مہذب جمہوریت میں یہ ٹیپ حکومت کے استعفیٰ دینے کے لیے کافی وجہ ہوتی ۔حکمران اتحاد میں سے کوئی اور حکومت بناتا یا عام انتخابات کا انعقاد ہوتا اورنئی حکومت کے لیے عوام سے تازہ مینڈیٹ لیا جاتا ۔لیکن ظاہر ہے کہ ان میں سے کسی بھی جمہوری آپشن پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

اس کے بجائے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جائے گی ۔متعدد مکروہ ہتھکنڈوں کا سہارا لے کر معاملے کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش ہوگی جو کحکم کے مطابق نتیجہ سنا دے گی۔ اس کاالزام وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کے ارکان کے علاوہ باقی سب پر عائد کیا جائے گا۔

یہ شرمناک واقعہ ہمیں اصل سوال کی طرف واپس لے جاتا ہے جو پچھلے ہفتوں میں لاکھوں مرتبہ اٹھایا گیا : وہ کون سی ناگہانی افتاد یا شدید ضرورت تھی جس کی وجہ سے عمران خان کی حکومت کو ہٹا کر اس ٹولے کو ملک پر مسلط کردیا گیا؟

فرض کرلیں اگر خان کو اسلئے جانا تھا کہ ان کی جنگ اسلئے تھی کہ پاکستان آزادی سے ایسی پالیسیاں بنائے جو اس کے مفادسے مطابقت رکھتی ہوں، اور یہ چیز ناقابل قبول تھی تو کیا قومی سیاسی دائرے میں کوئی ایسا مہذب آدمی نہیں بچا تھا جو قابل اعتبار ہو؟ وہ ٹولہ جسے اپنے مبینہ جرائم کا فیصلہ خود کرنے کا موقع مل گیا، اور جس نے نیب قوانین میں ہی ترمیم کر ڈالی جن کی رو سے وہ مبینہ مجرم قرار پائے تھے۔

اس مذموم منصوبے کی تکمیل کا جشن منانے کے پہلے قدم کے طور پرمفرور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار، جنھیں اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے سرکاری طیارے میں ملک سے فرار ہونے میں مدد دی تھی، بطور سینٹر اور وزیرخزانہ حلف اٹھانے کیلئے واپس آ گئے ہیں۔ کیا کبھی کسی جمہوری سیاست میں ایسا ظلم دیکھا گیا جہاں ایک مبینہ مجرم وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھا کر نظام کو یرغمال بنائے تاکہ اس کے تمام ساتھیوں کے گناہ دھل جائیں؟

اس وقت پاکستان میں یہی کچھ ہورہا ہے ، جب کہ مقتدرہ میں کسی کی پیشانی تک شکن آلود نہیں ہے۔

کیااب اس ملک میں جرم کرنا ہی واحد محفوظ چیز ہے۔ جو مرضی کر گزریں، کسی بھی الزام سے بچ نکلنے میں آپ کی مدد کی جائے گی، بلکہ ایک بار پھر اقتدار کی راہداریوں میں آپ کا راستہ ہموار کیا جائے گا تاکہ آپ اطاعت گزاری کے ساتھ یہاں لا بٹھانے والوں کی خدمات سرانجام دے سکیں۔ شکریہ اس نظام کا!