امریکہ کا سفر1-

October 02, 2022

پاکستان سے امریکہ کیلئے عازم سفر ہوئے تو ملک میں مہنگائی، بے روزگاری، سیلاب کے بعدکی تباہی، سیاسی محاذ آرائی اور کرکٹ کی ٹی ٹوینٹی سیریز کے میچ عروج پر تھے اور لگ رہا تھا کہ مرکز اور صوبوں میں قائم حکومتیں تمام تر مشکلات کے باوجودمزید چندمہینے قائم رہیں گی۔ لاہور کے علامہ اقبال ایئر پورٹ پر حسب معمول مسافر زیادہ اور سہولیات کم تھیں ۔غیر ملکی فضائی کمپنی کے نئے جہاز پر دبئی کی جانب پرواز کے دوران گوادر کے ساحلی شہر کے اوپر سے گزرے تو اس کے محل وقوع سے اندازہ ہوا کہ یہ شہر نہ صرف گہرے پانی کی بندرگاہ بلکہ بین الاقوامی ایئر ٹریفک کیلئے بہترین ٹرانزٹ ایئر پورٹ بھی بن سکتا ہے۔ گوادر سے گھنٹے کی دوری پر دبئی کا انٹرنیشنل ایئر پورٹ واقع ہے جہاں سے مقامی ایئر لائن کے سینکڑوں جہاز دنیا بھر کے ملکوں کیلئے اڑان بھرتے ہیں۔ دبئی کے وسیع و عریض اور جدید ایئر پورٹ کے ٹرانزیٹ لاؤنج میں ہر رنگ و نسل اور قومیت کے لوگ اپنی اپنی منزل پر پہنچنے کیلئے فلائٹوں کے انتظار میں بیٹھے تھے۔

دبئی سے نیویارک کا تیرہ گھنٹے کا طویل سفر کشادہ اور آرام دہ جہاز میں مسافروں نے زیادہ سوتے ہوئے کیا۔ اس فلائٹ میں بڑی تعداد میں بھارتی باشندے خصوصاً نوجوان لڑکے لڑکیاں امریکہ جا رہے تھے۔ بھارت سے اس سال۸۰ ہزار طالب علم اسٹوڈنٹ ویزے پر امریکہ پہنچے ہیںجنکی اکثریت اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد امریکہ میں مستقل سکونت اختیار کر لیتی ہے جبکہ پاکستان سے بہت معمولی تعداد میں طالب علم امریکہ پہنچ پاتے ہیں۔ امریکی حکومت ہر سال ساٹھ ہزار سے زائد ملازمتی H-1ویزے جاری کرتی ہے جس میں سے تقریباً ستر فیصد کوٹہ بھارتی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد استعمال میں لے آتے ہیں۔ بھارت سے آنے والوں کی اکثریت کمپیوٹر انجینئرنگ، آئی ٹی اور میڈیکل فیلڈ سے وابستہ ہوتی ہے۔ بھارت میں کمپیوٹر اور آئی ٹی کی تعلیم و تربیت دینے والے کالج اور یونیورسٹیوں کا معیار بہت اچھا ہے، یہی وجہ ہے کہ حال اور مستقبل کی اس اہم ترین فیلڈ میں بھارتی دنیا بھر میں اپنی اجارہ داری قائم کر چکے ہیں۔ امریکہ کی چند بڑی کمپنیوں گوگل، مائیکروسافٹ ، ایڈوبی، فیڈ ایکس، اور ڈپلوئٹ کے سربراہ بھارتی امریکن ہیں۔

پاکستان کے اکثر تعلیمی اداروں میں تعلیم کا معیار، خصوصاً آئی ٹی کے شعبے میں انتہائی پست ہے اور نوجوان طالب علم بھی اپنی توجہ اور ٹائم پڑھائی و ٹریننگ پر کم اور دوسرے کاموں پر زیادہ صرف کرتے ہیں۔ پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں کمی اور محنت نہ کرنے کی وجہ سے ہماری سافٹ ویئر ایکسپورٹ محض چند سو ملین ڈالر ہے جبکہ بھارت کی اس شعبے میں سالانہ ایکسپورٹ تقریباً دو سو بلین ڈالر ہے۔ پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم کا معیار نسبتاً بہتر ہے جسکی وجہ سے بیرون ملک خصوصاً برطانیہ اور امریکہ میں پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ امریکہ میں مقیم پاکستانی ڈاکٹر اپنی تنظیم اپنا اور دوسرے پلیٹ فارمز سے نہ صرف پاکستان اور امریکہ میں اپنی کمیونٹی کیلئے دل کھول کر چندہ دیتے ہیں بلکہ اپنے آبائی ملک کیلئے لابنگ کے فرائض بھی سرانجام دیتے ہیں۔

امریکہ میں مستقل رہائش پذیر پاکستانیوں کی اکثریت اسی اور نوے کی دہائی میں امریکی حکومت کی لبرل امیگریشن پالیسیوں کی بدولت اس ملک میں سیٹل ہوئی، محنت اور جانفشانی سے کام کرکے انھوں نے اس معاشرے میں اپنا مقام بنایا مگر بدقسمتی سے وہ ایک مضبوط کمیونٹی بننے کی بجائے پاکستان کی سیاست اور آپس کی لڑائیوں میں الجھ گئے ادھر پاکستان کے سیاستدانوں نے بھی اوورسیز پاکستانیوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا مگر اب خوش آئند بات یہ ہے کہ بیرون ملک پیدا ہونے والی نئی نسل جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے بلا امتیاز اچھی نوکریوں پر فائز ہے انکو اپنے آبائی وطن کی مٹی، روایات اور مذہبی اقدار کا پاس تو ہے مگر سیاسی محاذ آرائی کا حصہ بننے کو وہ تیار نہیں ہیں۔

پاکستان میں سیاسی اور ذاتی مفاد کیلئے مذہب کارڈ، قومیت کارڈ، اور غلامی کا طوق جیسے نعرے بلند کرنے والوں کو احساس نہیں ہے کہ دنیا کس قدر تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور ہم جھوٹی اناؤں اور جعلی تفاخر سے سر بلند کیے دنیا کو تسخیر کرنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ دنیا ایک گلوبل ویلیج میں تبدیل ہو چکی ہے ہمیں بدلتے ہوئے حالات میں اپنے رویے اور حرکات پر نظرثانی کرنا ہوگی اور سب کو ساتھ لیکر ایک مہذب، روادار اور برداشت کا مادہ رکھنے والے معاشرے کو تشکیل دینا ہوگا اور یہ کام کوئی زیادہ مشکل نہیں ۔(صاحبِ مضمون سابق وزیراطلاعات پنجاب ہیں)