کیا واقعی سب کچھ پاکستان کے لئے؟؟؟؟

October 04, 2022

ہمارے "سارے بڑے" جو کچھ بھی کرتے ہیں، چاہے منفی ہو یا مثبت، دعوئ یہی کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ملک کے لئے کیا۔ جن لوگوں نے یہ دعوئ نہیں کیا وہ تو واقعی بہت کچھ کر گئے تھے۔ جنہیں قوم آج بھی عزت کی نظر سے دیکھتی ہے اور اپنا محسن سمجھتی ہے۔ لیکن پچاس کی دہائی کے دور سے جو کچھ بھی ہوا اور ہوتا چلا آرہا ہے اس میں اخلاص دور دور تک موجود نہیں بلکہ ذاتی مفادات بڑے نمایاں ہیں۔ لیکن یہ ذاتی مفادات کی جنگ جس خوبصورتی سے ملک اور عوام پر احسان کرکے لڑی جاتی ہے کہ لوگ بھی اس خوبصورت جال میں پھنس جاتے ہیں اور ان "بڑوں" کو کچھ عرصے تک اپنا خیر خواہ اور نجات دہندہ سمجھتے رہتے ہیں۔ لیکن جب ان "بڑوں" کا مقصد پورا ہوجاتا ہے اور وہ " غائب" ہوجاتے ہیں تو پھر یہ معصوم لوگ اپنا سر پیٹتے ہیں۔ لیکن جلد ہی کسی دوسرے "بڑے" کے گرویدہ ہوکر اس کا راگ الاپتے ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اب تک یہ اندازہ نہیں ہوسکا کہ ہر دفعہ "ہر بڑے" سے دھوکہ کھانے کے باوجود یہ لوگ پھر بھی کسی "بڑے" ہی کی تلاش میں رہتے ہیں؟ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ ان کے دماغ کو ایسے تیار کیا گیا ہے کہ بغیر کسی "بڑے" کے ان کا گزارہ نہیں، یہ اتنے کمزور اور کم عقل لوگ ہیں کہ خود کچھ نہیں کرسکتے، یہ محتاج ہیں "بڑوں" کے۔ اسی لئے آئے دن نت نئے "بڑے" مارکیٹ میں آتے ہیں اور لوگوں کا ہجوم ان کے پیچھے چل پڑتا ہے کہ بس یہی ہے جس کا انتظار ہے یہی ہماری نئیا پار لگائے گا۔ لیکن افسوس ان چھیاسٹھ سالوں ( کیوں کہ ابتدائی چند سال اچھے لوگ تھے) میں کچھ بھی نہ بدلا بلکہ اور برا ہوتا ہی چلا گیا۔ لیکن سب نے دعوئ یہی کیا کہ جو کچھ بھی کیا "پاکستان" کے لئے کیا۔ ایک اور لطف کی بات یہ ہے کہ جو بھی "بڑا" آیا، ملک کی خدمت کے لئے آیا لیکن خاندانی جاگیر بنا کر گیا، کیوں کہ اس کے بعد اس کی نسل سے مسلسل "بڑے" بنتے ہی چلے جاتے ہیں۔ "خاندانی اینٹرپرائز اور خاندانی اینکروچمنٹ"۔ لیکن درحقیقت ان "بڑوں" نے دیا کیا؟ نسلی تعصب، عصبی تعصب، لسانی تعصب، سماجی و معاشی تخصیص، جہالت، مفلسی، علاج معالجے کی شدت سے کمی، تباہ شدہ انفراسٹرکچر، پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی، سیکیورٹی ندارد جو کہ قانوناً ریاست کی ذمہ داری ہے "اسی فیصد " ان "بڑوں " کی حفاظت کے لئے ہے۔ کیا یہی پاکستان کی خدمت ہے؟دوسری طرف ان میں سے کسی کی بھی حالت درگوں نہیں سب ماشاءاللہ سے باہر جائیداد بھی رکھتے ہیں اور وقت پڑنے پہ ان کی پناہ گاہیں بھی باہر ہی کہ ممالک ہوتے ہیں۔ اصل میں "ان بڑوں" نے دوسرے ممالک کے "مندوبین" کے طور پر یہاں کام کیا پاکستان کے وسائل بڑی خوبصورتی سے ان ممالک میں منتقل کئے اپنا مستقبل محفوظ کیا اور ان ممالک کی معاشی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اسی لئے تو یہ جس تسلسل سے ان ممالک کا دورہ کرتے یا لمبی رہائش اختیار کرتے ہیں، کسی عام "گرین پاسپورٹ" رکھنے والے شخص کے لئے یہ ممکن ہے؟ ذرا سوچیں۔ جب کبھی "حقیقت پر مبنی" تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ کتنے ملکوں پاکستان کی بدولت ترقی کی۔ ایک لمبی فہرست ہوگی۔ یہ وہ سارے ممالک ہوں گے جن میں ہمارے "بڑے یا ان کی نسل" سکھ اور چین کی زندگی گزار رہی ہوتی ہے۔ اس پر بھی بس نہیں ہوتا ہے، پھر ان ممالک کا خوف ایسا ذہنوں میں ڈالا جاتا ہے کہ اگر وہ ناراض ہوگیا تو ہماری اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی، ملک کا دیوالیہ نکل جائے گا، پاکستان کی بقا(نعوذبااللہ) اسی ملک سے وابستہ ہے۔ اس کے بتائے ڈکٹیشن کے علاوہ کچھ نہیں کرنا۔ اور ہم بے وقوفوں کی طرح سر ہلاتے رہتے ہیں۔ان "بڑوں" کا ایک کمال یہ تھا کہ انہوں نے لوگوں میں اتنی دوریاں اور نفرتیں پیدا کیں کہ لوگ اس سے باہر ہی نہ نکل سکے کہ اجتماعی مفاد کی کوئی بات سوچتے۔ ایک معمولی سی مثال لیں پاکستانی ڈرامے ساٹھ کی دہائی سے ہی مشہور تھے۔ وہ صرف قومی زبان میں ہی بنتے تھے پھر جیسے جیسے ترقی ہوئی علاقائی زبانوں میں بھی ڈرامے بننے لگے۔ لیکن حال یہ کہ اردو کے ڈرامے میں سب اردو ہی بولیں گے یا انگریزی کی آمیزش کی اجازت تھی بالکل اسی طرح سندھی ڈرامے میں ہر کوئی سندھی ہی بولے گا یا انگریزی، الغرض پشتو ڈرامے ہوں، پنجابی یا بلوچی انگریزی کی شمولیت ممکن تھی لیکن قومی یا کسی علاقائی زبان کی نہیں۔ یہیں سے وہ تعصب کا بیج ڈلا جس سے نفرتیں جنم لیتی ہی چلیں گئی۔ جب کہ بہت آسانی سے اور زبانوں کو استعمال کیا جاسکتا تھا اور ان کا ترجمہ اسکرین پر لکھ کر آسکتا تھا۔ یوں کرنے سے زبانوں سے ہم آہنگی بڑھتی اور آپس کی محبت بھی۔ لیکن یہی تو نہیں چاہیے تھا، چاروں صوبے والے ایک دوسرے سے اجنبی رہیں، تب ہی تو ان کی کامیابی تھی، ان کی تہذیب میں کہیں میلاپ نہ ہوجائے، انہیں الگ الگ ہی رکھنا ہے۔ اپنے دل کی بات یہ کھل کر کہہ تو سکتے نہیں تھے تو کہتے تھے کہ: پاکستان مشکل دور سے گزر رہا ہے، فلاں علاقے میں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے، وہ پاکستان اور عوام کے دشمن ہیں، کوئی کبھی میر جعفر تو کبھی میر صادق قرار دیا جاتا، خراب زبان کا کھل کر استعمال کیا جاتا اور پس پردہ پکی یاری۔ اب اب سے گزارش ہے کہ اپنی آنکھیں کھولیں اور ان بڑوں سے جان چھڑائیں جنہوں نے پاکستان کے لئے کچھ نہیں صرف اپنے لئے سب کچھ کیا ہے۔

minhajur.rabjanggroup.com.pk