سیاستدانوں کا انڈسٹری شیئر

October 05, 2022

بزنس یا کاروباری میدان میں بیک وقت دو مقابلے چل رہے ہوتے ہیں۔ایک تو ہر کمپنی چاہتی ہے کہ اپنی مارکیٹ میں اس کا مارکیٹ شیئر زیادہ سے زیادہ ہو۔یعنی ایک جنریٹر بنانے والی کمپنی چاہے گی کہ صرف اسی کمپنی کے جنریٹر خریدےجائیں۔ دوسرا انڈسٹری کا شیئر ہوتا ہے جس میں انڈسٹری (مجموعی طور پر )چاہتی ہے کہ سب سے زیادہ اُسی انڈسٹری کی چیزیں خریدی جائیں اور کوئی دوسری انڈسٹری اُس کا مقابلہ نہ کر سکے۔ جیسا کہ جنریٹر انڈسٹری کبھی یہ نہیں چاہے گی کہ آپ یو پی ایس لیں یا آپ سولرسسٹم خریدیں کیونکہ اگر کسی انڈسٹری کا سائز کم ہو گا تو اس انڈسٹری میں موجود ہر کمپنی کا مارکیٹ شیئر بھی کم ہو جائے گا۔ اسی لیے ایک ہی انڈسٹری میں کام کرنے والے بڑے سےبڑے حریف بھی اپنی انڈسٹری کی بقا اور فروغ کے لیے نہ صرف مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں بلکہ اُن کا خلوص بھی دیدنی ہوتا ہے۔ انڈسٹری فروغ پائے گی تو ہی سب کا کام چلے گا جب انڈسٹری ہی بیٹھ گئی تو مارکیٹ شیئر میں اضافہ کیونکر ممکن ہو گا۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ مارکیٹ شیئر کے لیے آپس میں مقابلہ ضرور کریں لیکن انڈسٹری کی بقا اور فروغ کے لیے مل کر کام کریں۔

ملکی سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بیشتر سیاستدانوں نے اسے ایک کاروبار بنا لیا ہےلیکن سیاست میں کاروباری زبان کا استعمال کبھی کبھی بہت معیوب لگتا ہے۔ اب یہ بات بھی اُن کے انڈسٹری شیئر کے خلاف ہے۔ انڈسٹری شیئر سے یہاں مراد طاقت اور اختیارات ہیں، سیاست سے پیسہ بنانا نہیں۔ اس کو سویلین بالادستی کے زمرے میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں کم ہی مواقع آئے ہیں جب کسی وزیراعظم کو صحیح معنوں میں یہ منصب سنبھالنے کا موقع ملا ہو۔ پاکستان کے کسی وزیراعظم نے اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی اور پچھلے دو ادوار کے علاوہ کسی پارلیمنٹ نے بھی اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی۔ جب بھی کوئی جمہوری حکومت قائم ہوتی ہے تو چند ماہ بعد ہی اُسے اپنی ساری توجہ حکومت چلانے کے بجائے حکومت بچانے کی طرف مبذول پڑ جاتی ہے۔

اس میں سب سے زیادہ قصور خود سیاستدانوں کا ہے، انہوں نے اپنے مارکیٹ شیئر بڑھانے کے لیے کبھی انڈسٹری کے شیئر بڑھانے کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی۔2008ء میں مشرف حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستانی سیاست نے ایک نئی اُمید کے ساتھ نئے سفر کا آغاز کیا۔ 2008ء میں جب ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہو گئی اور کچھ ہی عرصہ بعد جب آصف زرداری صاحب نے میثاقِ جمہوریت کے باوجود پرانے ججز کو بحال نہ کیا ، تو کسی تیسری قوت کو فعال ہونا پڑا۔ اس سے کیا سیاستدانوں کا انڈسٹری شیئر بڑھا یا کم ہوا؟

یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے جوکچھ 2013ء اور بالخصوص رواں سال عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد تحریک انصاف کی طرف سے کیا گیا، کیا اُس سے سب سے زیادہ نقصان انڈسٹری شیئر کو ہوا ہے؟ جب بھی کوئی سیاستدان کسی تیسری قوت سے ہاتھ ملاتا ہے اور حکومت وقت کو عدم استحکام کا شکار کرکے اپنے لیے راہ ہموار کرتا ہے تو اُس کا سب سے زیادہ نقصان ملکی سیاست، سیاستدانوں اور جمہوریت کو ہوتا ہے۔ جیسا کہ عمران خان یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ ایم پی ایز اور ایم این ایز کو فون کرکرکے ان کی اسمبلی میں حاضری یقینی بنانے اور انہیں اپنے حق میں ووٹ ڈالنے پر آمادہ کیا جاتا تھا اور آزاد اراکین کو ساتھ ملانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاتا تھا ، اس سب سے سیاسی نظام کمزور ہوتا ہے مضبوط نہیں۔ پھر جب ملکی تاریخ میں پہلی بار کوئی وزیراعظم تحریک عدم اعتماد کے آئینی طریقہ کار کے بعد اقتدار سے الگ ہوا تو تحریک انصاف کی قیادت نے مقتدر حلقوں پر مداخلت کا الزام لگا کر اُنہیں دبائو میں لانے کی کوشش کی تاکہ پھر سے اقتدار میں آ سکے۔

تاہم، انڈسٹری شیئر گرنے کی یہ واحد وجہ نہیں ہے کہ سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف تیسری قوت کے پاس جاتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو حقیقی معنوں میں مضبوط نہیں کرتے اور ضروری قانون سازی سے ملک کے دیرینہ مسائل حل کروانا تو دور کی بات اپنے مسائل بھی حل نہیں کروا پاتے۔ پارلیمنٹ میں اٹھارہویں ترمیم کی طرز کی اچھی قانون سازی بھی ہو چکی ہے لیکن دورِ آمریت میں بنائے گئے نیب قوانین کو متفقہ طور پر تبدیل کرنے کے حوالے سے طویل عرصہ تک کبھی کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ سیاستدان جب اپنے مسائل حل نہیں کر پاتے تو وہ کوئی ایسا اقدام کر بیٹھتے ہیں جس سے اُن کی طاقت اور اختیار یعنی انڈسٹری شیئر میں واضح کمی واقع ہوجاتی ہے۔ سیاسی رسہ کشی میں سیاستدانوں نے خود کو بار بار نظامِ عدل کے سامنے کھڑا کر کے بھی اپنے انڈسٹری شیئر کم کیے ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان ماضی کے فیصلوں کی روشنی میں کسی بھی معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے بینچ بھی بنا سکتے ہیں اور فیصلہ بھی سنا سکتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف اعلیٰ عدلیہ کے ایک فیصلے کی روشنی میں ہی وزیراعظم کی ایگزیکٹو اتھارٹی کو کابینہ سے مشروط کر دیا گیا ہے اور یہ صرف ایک مثال ہے۔

اب آڈیو لیکس کی ہی مثال لے لیں۔ سیاستدان حتیٰ کہ میڈیا بھی ان آڈیو لیکس کو اچھال اچھال کر اپنی اپنی سائیڈ کے لیے پوائنٹ سکور کر رہا ہے لیکن یہ سوال کوئی نہیں اُٹھا رہا کہ وزیراعظم کی خفیہ آڈیو ریکارڈنگ کا اختیار تو کسی کو حاصل نہیں ہونا چاہیےتو یہ ریکارڈنگ موجود ہی کیوں ہے؟

سیاستدانوں نے اپنا انڈسٹری شیئر آپس کی لڑائیوں کے ساتھ ساتھ مفادِ عامہ کے کاموں میں تفریق پر بھی کھویا ہے۔ یہ بیانیہ عام ہے کہ یہ سارے کرپٹ ہیں اور جو کرپٹ نہیں ہیں وہ نااہل ہیں۔ تفریق اور نفرت کی سیاست کرکے انہوں نے اپنا مقام کھویا ہے۔ یہ معاملات اگریونہی چلتے رہے تو مارکیٹ شیئر کھونا تو بعد کی بات ہے، نہ صرف انڈسٹری شیئر کھو سکتے ہیں بلکہ اس انڈسٹری کا بھٹہ ہی بیٹھ سکتا ہے۔ جب بالکل ہی دیوار کے ساتھ لگ گئے تو ہم نے دیکھا کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے کچھ سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوئیں لیکن پی ڈی ایم کے حکومت میں آنے کے بعد اتحادی جماعتوں کے مسائل سامنے آنا شروع ہو گئے ۔ دوسری طرف اب بھی عمران خان پی ڈی ایم کے ساتھ اور پی ڈی ایم عمران خان کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ ملک کا سوچنا تو دور کی بات، یہ تو اپنا بھی نہیں سوچ رہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)