اقبالؒ کی شاعری نے مسلمانوں کو نیا عزم اور حوصلہ دیا

November 09, 2022

ڈاکٹر محمد خان اشرف

علامہ اقبال پاکستانی قوم کے لیے ایک روشن ستارہ ہیں۔ وہ نہ صرف نشانِراہ اور عزمِسفر دینے والے تھے بلکہ آزادی کے سفر میںبانگِدرا بھی تھے اور اب انھیںنشان و مقامِ منزل دکھانے والا بھی تصور کیا جاتا ہے ۔ مفکرِپاکستان نے سب سے پہلے علیحدہ وطن اور جداگانہ قومیت کا راستہ دکھایااور برصغیر میںبسنے والے مسلمانوںکو آزادی اور آزاد وطن حاصل کرنے کا پیغام دیا، اپنی شاعری سے ان کے عزم و حوصلہ کو بلند کیا جس کے نتیجے میںبرصغیر کے مسلمانوںنے قائد اعظم کی قیادت میںپاکستان کے خواب کو ایک حقیقی تعبیر عطا کی اور علیحدہ وطن حاصل کیا ۔ گو اقبال اپنے خواب کی حقیقی شکل نہ دیکھ سکے کہ ان کی وفات ۱۹۳۸ء میںہو گئی تھی لیکن ان کی شاعری سب کے لیے حوصلے اور عزم کا سہارا رہی۔

آزاد پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے ۷۵ سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ہم آج بھی اقبا ل کے پیغام میںاپنے لیے راہنمائی کی سمت تلاش کرتے ہیں۔ اس عرصہ میںبہت سا پانی پلوںسے گزرچکاہے ،دنیا ایک نئے دور میںداخل ہو چکی ہے ۔ لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم دیکھیںآج کی دنیا اقبال کے عہد سے کس طرحاور کتنی مختلف ہے۔

انسانی وجود کے سفر کے جس مقام پر ہم آج کھڑے ہیںاور جس سمت ہم اور تمام دنیا جا رہی ہے اس میںاقبال کے پیغام اور فلسفے کی کیا اہمیت اور معنویت ہے ، اس سلسلے میںمجموعی طور پر علمی ، تہذیبی اور فکری تناظر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہےاور اس تناظر اور جہت نمائی میںبدلتے ہوئے انسانی فکری اور تہذیبی عوامل کو سامنے رکھ کر اپنے مقام اور سمت کا تعین ہمیںاقبال کی بہتر تفہیم میںمدد دے گا۔ اقبال نے خود کہا تھا :

کھول کر آنکھیںمرے آئنۂگفتار میں

آنیوالے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ پھر

آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوںکے پاس

سامنے تقدیر کے رسوائی تدبیر دیکھ (خضرِراہ)

اقبال کا عہد ہندوستان میںمسلمانوںکی غلامی اور زوال کا عہد تھا ۔ اقبال انیسویںصدی کے اختتامی عشروںسے بیسویںصدی کے ابتدائی ادوار میں(1876-1938)زندہ رہے ۔ یہ عہد مسلمانوںکی ابتلا اور مصیبت کا عہد تھا ۔ ہندوستان میںمغلیہ سلطنت ۱۸۵۷ء میںختم ہو چکی تھی اور تاجِبرطانیہ کی حکومت مسلط تھی ، وہ معاشی ، سیاسی ، معاشرتی اور تعلیمی ، ہرلحاظ سے پس ماندہ اور زوال پذیر تھے لیکن یہ صرف ہندوستان ہی میںنہ تھا ۔ دنیا بھر میںمسلمان پس ماندہ اور زوال کا شکار تھے اور ترکی کی حکومت کو بھی یورپ کے مردِبیمار کے نام سے یاد کیا جا رہاتھا۔

لیکن دوسری طرف یورپ اور مغربی ممالک تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کے ایک نئے عروج کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ علم او رہنر میںان کی ترقی نے ان کو سامراجی توسیع کے ایک نئے عروج کی طرف گامزن کر دیا تھا ۔ اس عہد میںمغرب سائنس او رٹیکنالوجی میںنئی فتوحات حاصل کر رہا تھا ۔ ذرائع رسل و حمل میںریل، دخانی جہاز، ہوائی جہاز او ردوسرے ذرائع نے سفر کو آسان بنا دیا تھا اور دنیا کی حدود سکڑنے لگی تھیں۔

ادویات میںنئی دریافتوںنے پرانی لاعلاج بیماریوںاور وبائوںپر قابو پانے کی امید پیدا کر دی تھی۔ زراعت او رصنعت کی ترقی نے فارغ البالی اور بہتری کی امیدیںپیدا کر دی تھیں۔ غرضمجموعی طور پر انسان علم و ہنر میںنئی دنیائوںکی طرف گامزن تھا ۔ اس لیے انسانی فکر کی تاریخمیںاس کو جدید یت کا عہد کہا گیا ، گو مسلمان ہر جگہ پس ماندہ اور زوال آمادہ تھا۔

اقبال نے اس دور کا گہرا تجزیہ کیا ، اس نے مسلمانوںکو دوبارہ عروج اور ہنرمندی کا درس دیا ، اس نے ’’خودی ‘‘ او ر’’فقر‘‘کا نعرہ لگایا اور کہا:

مسلماںکو مسلماںکر دیا طوفانِمغرب نے

تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی

عطا مومن کو پھر درگاہِحق سے عطا ہونیوالا ہے

شکوہِترکمانی ، ذہنِہندی ، نطقِاعرابی

اور جب سلطنتِعثمانیہ یعنی ترکی کو شکست سے دوچا ر ہونا پڑا تو اس نے کہا:

اگر عثمانیوںپر کوہِغم ٹوٹا تو کیا غم ہے

کہ خونِصد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

جہاںبانی سے ہے دشوار تر کام جہاںبینی

جگر خوںہو تو چشمِدل میںہوتی ہے نظر پیدا

ہزاروںسال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے

بڑی مشکل سےہوتا ہے چمن میںدیدہ ور پیدا

اور اس موقع پر انھوںنے مسلمانوںکو یہ پیغام دیا!

خدائے لم یزل کا دستِقدرت تو زباںتو ہے

یقیںپیدا کر اے غافل کہ مغلوبِگماںتو ہے

پرے ہےچرخِ نیلی فام سے منزل مسلماںکی

ستارے جس کی گردِراہ ہوںوہ کارواںتو ہے

اقبال کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی اور بیسیوںصدی کے نصف تک ہندوستان میں مسلمانوںنے اپنی آزاد سلطنت حاصل کر لی اور اس طرحیکے بعد دیگرے تمام مسلمان ممالک نے مغربی استعمار سے آزادی حاصل کر لی اور زندگی اور ترقی کی دوڑ میںان کے مغرب کے شانہ بہ شانہ آگے بڑھنے کی امید پیدا ہو گئی اور ساتھ یہ بھی کہ جس ملتِاسلامیہ کا خواب اقبال نے دیکھا تھا ، وہ بھی وجود میںآسکے گی۔

لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا ، اس سلسلے میںتمام تر کاوشیںمنزل سے دور رہیں، صرف اسلامی ممالک کی تنظیم کی ایک ڈھیلی ڈھالی صورت وجود میںآئی جو کوئی خاص طاقت اور اثر نہیںرکھتی ۔ اس کے ساتھ ہی دنیا پر واضحہو گیا کہ ’’جدیدیت ‘‘کے دور میںفطرت پر انسان کے غلبے کے جو خواب دیکھے گئے تھے ان کی تعبیر نہایت تلخنکلی ۔ انسان نے علم اور ہنر ، سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت فطرت کو تسخیر کرنا شروع کیا تھا لیکن جلد ہی انسان پر واضحہو گیا کہ اس کی ایک حد ہے اور یہ کہ انسان خود بھی اس فطرت کا حصہ ہے۔

فطرت کی تسخیر ، ماحول پر غلبہ پانا دراصل اپنے ماحول ، دنیا میںمسکن کو برباد کرنے کے مترادف ہے ۔ اور اگر ماحول اور مسکن برباد ہو جاتا ہے تو انسان کا اپنا مستقبل اور وجود خطرے میںہو گا۔ لہٰذا جلد ہی پیش بیںانسانوںنے اس سے خبردار کرنا شروع کر دیا۔ ادھر ماحول نے اپنی بربادی کا اثر دکھانا شروع کر دیا ، پاکستان میںموجود سیلاب اسی ماحولیاتی عدم توازن کا نتیجہ ہے اور اگریہ سلسلہ جاری رہا تو دنیا میںدیگر ممالک کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اقبال نے اپنی شاعری میںمغرب کی تہذیب کے زوال کی پیشین گوئی ضرور کی تھی انھوںنے کہا تھا

دیارِمغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاںنہیںہے

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِکم عیار ہو گا

تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کریگی

جو شاخِنازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا

یہ پیشین گوئی اخلاقی او رتہذیبی بنیاد پر تھی لیکن اسے سائنس اور ٹیکنالوجی تک بھی پھیلایا جا سکتا ہے۔

دانشورانہ اور فکری تاریخمیںانیسویں صدی کے نصف آخر کو پسِجدیدیت کا نام دیا گیا ہے ۔ جدیدیت دراصل میکانکی ترقی کا عہد تھا ۔ پسِجدیدیت میںالیکٹرانکس نے عروج حاصل کیا ، کمپیوٹر ، ٹیلی ویژن کی ایجاد ، آئی ۔ٹی کی ترقی اور نینو ٹیکنالوجی نے انسانی رسائی کی حدود کو لامتناہی کر دیا۔ انسان دوسرے ستاروںکی تسخیر کی طرف چل دیا۔ لیکن اس میںمغرب اور روس و چین کا حصہ زیادہ ہے، اسلامی دنیا کا اس میںحصہ بہت کم ہے، دراصل اس ٹیکنالوجی کے انقلاب نے دوسری بہت سی حدود کو بھی معدوم کر دیا ہے۔ جغرافیائی اور نظریاتی بنیادیںمنہدم ہوتی جا رہی ہیں، عالمگیریت ایک سیلاب کی طرح اخلاقی ، علاقائی ، تہذیبی ، تمدنی ، لسانی حدود و قیود کو بتدریج کمزور کرتی جا رہی ہے ، انسان اب دنیا بھر میںبطور انسان کے وجود اختیار کرتا جا رہاہے ، اس کے بغیر ماحولیاتی اور ٹیکنالوجی کے انقلاب کو اثرات کا مقابلہ نہ ہو سکے۔

اکیسویںصدی اس سے ایک قدم آگے بڑھ چکی ہے ، اس عہد میںکتاب اور لکھی ہوئی چیز کا کلچر ختم ہوتا جا رہاہے اور آئی ۔ٹی اور الیکٹرونک میڈیا نے ایک حاوی مقام حاصل کر لیا ہے ۔ اب تحریر کے بجائے تصویر کا غلبہ ہے ۔ کتاب اور تحریر کا عہد اس بات کا تقاضا کرتا تھا کہ سچائی اور سچ و صداقت ایک حقیقت ہے جو انسانی عمل کی بنیاد بنتی ہے اور انسانی تہذیب و تمدن ، آئین و قانون کی شرطِاول ہے لیکن اب نئی ٹیکنالوجی نے اس بنیاد کو ہلا دیاہے۔ اب سچ اور صداقت کو فوٹو شاپ، ورکشاپ اور ملٹی میڈیا میںوضع کیا جارہاہے۔ سوشل میڈیا نے اس کی بنیاد ہلا دی ہے۔ اکیسویںصدی کے اس عہد کو انسانی فکر کی تاریخمیںپوسٹ ٹرتھ (Post Truth)یعنی پسِ صداقت کا عہد کہا گیا ہے ، جب من گھڑت بیانیے بنائے جاتے ہیںاور ان کو پھیلایا جاتا ہے اور ان کا اثر اس قدر ہے کہ سچائی کی بنیادیںہل چکی ہیں۔ اقبال نے شاید اس عہد کا خواب نہ دیکھا تھا لیکن اس کے پیروکار اب اسی میںمبتلا ہیں۔

انیسویںصدی کا آخر اور بیسویں صدی کا نصف اول میکانکس کا دور تھا، اس عہد میں انسان کو یقین ہو چلا تھا کہ وہ فطرت کو تسخیر کر کے اور عناصر پر غلبہ حاصل کر کے ایک نئی دنیا پیدا کر سکے گا ۔ انسان نے ہمیشہ یوٹوپیا کے خواب دیکھے ہیں، جہاںہر طرف امن و امان ہو گا ، ہر چیز کی فراوانی ہو گی اور کوئی انسان دوسرے انسان اور کوئی قوم دوسری قوموں کا استحصال نہ کر سکے گی۔ یہی نقطۂ نظر لیگ آف نیشنز اور پھر اقوامِ متحدہ کے قیام میں مضمر تھا اور ان کا چارٹر اس کا اظہار تھا۔ اشتراکیت کا تصور اور فروغ بھی اسی خواہش کے باعث تھا ، اسی دور میں غلام اقوام ، سامراجی نظام سے آزاد ہو کر خود مختاری حاصل کرنے لگیں ۔ غرض جدیدیت نے انسانیت کو ایک نئے عہد اور نصب العین سے روشناس کرایا لیکن پھر ان تضادات نے ظاہر ہونا شروع کر دیا جس کے اندیشے کا اقبال نے اس طرح اظہار کیا تھا کہ :

تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی

پہلی جنگِعظیم اور پھر دوسری جنگِعظیم نے جدیدیت کے اس خواب کو چکنا چور کر دیا ۔ انسان کے ضمیر کا فاشسٹ رجحان اس کے جمہوریت کے خواب پر غالب آگیا اور یوںپس جدیدیت کا عہد شروع ہوا۔

اسی عرصے میںذرائع علم و ابلاغ نے بھی ترقی کی ۔ علم ہمیشہ ہی سے انسان کے شعور و عرفان کا ذریعہ رہا ہے اور اس کا بنیادی ذریعہ کتاب اور تحریر تھا ۔ انسانوںکی کتب اور تحریر ہی علم ، عرفان اور صداقت کا ذریعہ تھیں۔ بیسویںصدی کے دوسرے دور میںعلوم و فنون کے لیے دوسرے ذرائع کا استعمال شروع کر دیا۔ بیسویں صدی کا دوسرا حصہ جسے پس جدیدیت کا نام دیا گیا ، میکانکی سے بڑھ کر الیکٹرانکس کا دور بن گیا ۔ ایٹم کی شکست، ٹی۔ وی، کمپیوٹر ، موبائل ، نینو ٹیکنالوجی اورآئی۔ ٹی نے اطلاع عامہ اور ابلاغِ عامہ کے نئے ذرائع ہر انسان کی دسترس میں کر دیے۔

اکیسویں صدی اس سے بھی کئی قدم آگے بڑھ چکی ہے ۔ اس عہد میںکتاب کا کلچر ختم ہو رہاہے اور آئی ۔ ٹی اور الیکٹرانک میڈیا نے ایک حاوی مقام حاصل کر لیاہے ۔ اب تحریر کے بجائے تصویر کا غلبہ ہے۔ تحری کا عہد اور کتاب کا کلچر اس بات کا تقاضا کرتا ہے تھا کہ سچ او رصداقت ایک حقیقت ہے جو انسانی عمل کی بنیاد بنتی ہے اور انسانی تہذیب ، آئین اور قانون کی شرطِ اول ہے لیکن ایسے محسوس ہوتاہے کہ اب ٹیکنالوجی نے اس بنیاد کو ہلا دیاہے اور اب صداقت او رسچائی کو فوٹو شاپ، ملٹی میڈیا اور ورکشاپ میںوضع کیا جا رہاہے ، اسی وجہ سے اب اکیسویںصدی کو Post Truth یعنی ’’پسِ صداقت‘‘ یا ’’مابعد صداقت‘‘ کہا جا رہاہے ، اقبال نے سو سال پہلے کہہ دیا تھا:

ابھی تک آدمی صیدِزبونِ شہریاری ہے

قیامت ہے کہ انساں ، نوعِ انساںکا شکاری ہے

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی

یہ صناعی مگر جھوٹے نگوںکی ریزہ کاری ہے

وہ حکمت ناز تھا جس پرخردمندانِ مغرب کو

ہوس کے پنجۂخونیں میں تیغِ کارزاری ہے

اقبال کا یہ پیغام آج سے سو برس پہلے درست تھا اور آج کے عہد میںجب کہ ہر شے بدل چکی ہے ، وہ اب بھی درست معلوم ہوتاہے ۔جدیدیت کےآغاز میں انسان برتر مادی قوت کا شکار تھا اور جسمانی طور پر غلام تھا ۔ اب پسِ صداقت عہد میں وہ ذہنی ، علمی اور ابلاغیاتی طور پر انسان کا ہدف ہے۔ اب وہ من گھڑت بیانیوںاور خود ساختہ معلومات اور کہانیوں کاایسا شکار ہے کہ حقیقت اور سچائی کی بنیادیںمتزلزل معلوم ہوتی ہیں۔ اور اس کا علاج صرف سچائی اور صداقت ہے جو اقبال کے اس شعر میںمضمر ہے :

سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

سو سال بعد بھی ان بدلے حالات میں اقبال کا یہ پیغام درست ہے اور اس پر عمل ہی میں نجات ہے ۔

(میجر(ر) ڈاکٹر محمد خان اشرف لاہور گیریزن یونیورسٹی میںپروفیسر شعبہ اردو ہیں)