عالمی سطح پر بلند شرحِ مہنگائی کے خواتین پر زیادہ اثرات

November 14, 2022

دنیا بھر میں صارفین کو شدید اور انتہائی نوعیت کی مہنگائی کا سامنا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے عالمی معیشت پر اپنے حالیہ جائزہ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2022ء میں عالمی سطح پر مہنگائی کی اوسط شرح 8.8فی صد رہے گی۔ آئی ایم ایف نے اس کی وجوہات کورونا وَبائی مرض کے باعث رسد کے بین الاقوامی نظام میں رکاوٹ اور یوکرین- روس تنازعہ بتایا ہے۔ مہنگائی کی اس قدر بلند شرح نے اشیا اور خدمات کی قیمتوں کو آسمان تک پہنچا دیا ہے۔ ایسے میں یہ ضروری ہوگیا ہے کہ زندگی گزارنے کی لاگت کو کم کیا جائے تاکہ لوگوں کی جیبوں پر بوجھ کچھ کم ہوسکے۔

رپورٹ کے مطابق، عالمی سطح پر بے قابو مہنگائی ہر شخص کو متاثر کرتی ہے، تاہم خواتین اور لڑکیاں غیرمتناسب طور پر کہیں زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران خواتین کی جانب سے بکثرت استعمال کی جانے والی مصنوعات کی قیمتوں میں نسبتاً زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر، گزشتہ سال برطانیہ میں خواتین کے جوتوں کی قیمتوں میں 75فی صد اضافہ ہوا جب کہ اس کے برعکس مَردوں کے جوتوں کی قیمتیں صرف 14فی صد بڑھیں۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ، مہنگائی کا بحران پیدا ہونے سے پہلے ہی خواتین، مَردوں کے مقابلے میں کم دولت مند تھیں۔

مہنگائی کا بحران صنفی بنیاد پر تنخواہوں میں فرق ختم کرنے کی کوششوں پر بھی پانی پھیرنے کا باعث بن رہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق، 2022ء میں مَردوں کے مقابلے میں خواتین کے لیے تنخواہوں میں مہنگائی کی شرح سے زائد اضافہ حاصل کرنا زیادہ مشکل ہے۔ اسی طرح، پیشگوئی کی گئی ہے کہ مہنگائی کی بلند شرح کے باعث خواتین اور مَردوں کی تنخواہوں میں پایا جانے والا فرق مزید بڑھ جائے گا۔ ایسے میں سول سوسائٹی کے اداروں کو حکومتوں پر خواتین کو زیادہ معاونت فراہم کرنے کے لیے زور ڈالنا چاہیے۔ وہ یہ کام تین طریقوں سے انجام دے سکتے ہیں:

1- سماجی سطح پر آگاہی پیدا کرنا

لوگوں کو زمینی حقائق کے بارے میں بہتر طور پر آگاہی دی جانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ خواتین کی معاونت کے لیے ضروری وسائل اکٹھے کرنے کے لیے کام کرسکیں۔ سول سوسائٹی کے اداروں کو مہنگائی کی بلند تر ہوتی شرح کے خواتین پر اثرات کے حوالے سے ایک مربوط مہم چلانی چاہیے۔ اس کے لیے سول سوسائٹی کے دونوں طرح کے اداروں یعنی ریسرچ انسٹی ٹیوشنز اور ایڈووکیسی گروپس کے مابین مربوط اشتراک ضروری ہے۔

تحقیق پر مرکوز سول سوسائٹی گروپس، جیسے کہ تھنک ٹینک، اہم مسائل سے متعلق اعدادوشمار پر مبنی تجزیوں کی بنیاد پر عوام اور پالیسی سازوں کو زندگی گزارنے کی لاگت کے اس سنگین بحران کے دوران صنفی مساوات پر تجاویز پیش کرسکتے ہیں۔ وکالت پر مرکوز تنظیمیں خواتین کی مساوات اور انھیں بااختیار بنانے کے بارے میں معتبر تحقیقی اداروں کے اشتراک میں فعال کردار ادا کرسکتی ہیں۔

2-بچوں کی دیکھ بھال کے معیاری نظام کا فروغ

بچوں کی دیکھ بھال کے ذمہ دار لوگ مہنگائی کی بلند شرح سے اور بھی زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ معاشی بدحالی کے دوران، ان میں سے سنگل پیرینٹ کا غربت میں جانے کا زیادہ امکان ہے، جیسا کہ کووِڈ-19وبائی امراض کے دوران دیکھا گیا ہے۔ شمالی امریکا، یورپ اور ایشیا کے ممالک میں، خواتین کی اکثریت سنگل پیرینٹ پر مشتمل ہے۔ امریکا میں 80فیصد سنگل پیرینٹ خواتین ہیں۔

بچوں کی دیکھ بھال کی کم خرچ خدمات خاندانوں کو غربت سے نکال سکتی ہیں اور ایسی مائیں معیشت میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں۔ اکیلی ماؤں کے لیے بچوں کی دیکھ بھال خاص طور پر اہم ہے، کیونکہ اس طرح ان کے بچوں کو تربیت کے لیے وقت اور جگہ فراہم ہوجاتی ہے، اور ماؤ ں کو افرادی قوت میں داخل ہونے کے لیے مطلوبہ وقت مل جاتا ہے۔

سماجی بہبود کے اقدامات کے ذریعے مہنگائی کے اثرات پر قابو پانے کے لیے سول سوسائٹی کے ماہرین کو بچوں کی دیکھ بھال کا نظام قائم کرنے یا اس میں اصلاحات لانے کے لیے یہ معاملہ حکومتوں کے سامنے اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ وکالت کرنے والی تنظیموں کو اس پر سادہ بصری نمائندگی (ویژوئل پریزنٹیشن) کے ذریعے اعدادوشمار کا خلاصہ پیش کرنا چاہیے۔ انہیں صنفی بنیاد پر معاشی عدم مساوات کے نمونوں اور رجحانات اور افراط زر کے اثرات کے بارے میں عوامی بیداری میں اضافہ کرنا چاہیے۔

عالمی جنوب میں خواتین کو معاونت کی ضرورت

غیر منافع بخش اور غیرسرکاری بین الاقوامی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ عالمی جنوب میں حکومتوں کے ساتھ مل کر خواتین پر مہنگائی کے بحران کے اثرات پر توجہ مرکوز کریں۔ بین الاقوامی تنظیمیں اعدادوشمار اکٹھے کرنے میں مدد کر سکتی ہیں جن کی بنیاد پر مقامی حکومتیں باخبر سماجی اور ترقیاتی پالیسی سازی کرسکتی ہیں۔ ایک بار پالیسی سازی ہو جانے کے بعد، غیر منافع بخش تنظیمیں مقامی سطح پر ان کے نفاذ میں بھی سہولت فراہم کرسکتی ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ضرورت مندوں کو مناسب مدد مل رہی ہے۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والی خواتین کے حقوق کی کارکن ملالہ یوسفزئی نے 2018ء کے ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس میں کہا تھاکہ، ’’مرد بننے کے لیے، آپ کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ تمام خواتین اور آپ کے آس پاس موجود تمام افراد برابر ہیں‘‘۔ عالمی سطح پر مہنگائی اور زندگی گزارنے کی لاگت کے بحران کے پیش نظر، مَردوں اور عورتوں، ہم سب کو، اس کے خواتین پر پڑنے والے غیر متناسب اثرات کا جائزہ لینا اور اس کے اثرات کو زائل کرنے کے مشوروں پر عمل کرنا چاہیے۔