صوبہ سندھ کا چوتھا ڈویژن ’شہید بے نظیر آباد‘

November 21, 2022

شہید بے نظیر آباد ڈویژن صوبہ سندھ کا چوتھا ڈویژن ہے۔اس کا رقبہ 18,175 کلو میٹر ہے، اسے نوشہرو فیروز ضلع، سانگھڑ ضلع اور سکھر ڈویژن سے علیحدہ کرکے بنایا گیا ہے۔ ذیل میں ڈویژن کے تینوں اضلاع کے بارے میں ملاحظہ کریں۔

شہید بے نظیر آباد ضلع

یہ ضلع سابقہ نواب شاہ ضلع ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سندھ اسمبلی نے متفقہ قرارداد کے ذریعہ ستمبر2008ء میں اس کانام ’’شہید بے نظیر آباد‘‘ رکھ دیا۔ ضلع کا رقبہ 4,502کلو میٹر اورآبادی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق 16,12,847 ہے۔ ضلع میں یونین کونسلز کی تعداد 51ہے۔ انتظامی لحاظ سے ضلع چار تحصیلوں (تعلقوں) پر مشتمل ہے۔ 1۔سکرنڈ تحصیل2۔ شہید بے نظیر آباد تحصیل 3۔ قاضی احمد تحصیل 4۔ دوڑ تحصیل ضلع میں مسلم 95.82فیصد، ہندو3.86فیصد اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے 0.32ہیں۔ زبانوں میں سب سے زیادہ سندھی 82.70 فیصد، اُردو 6.86فیصد، پنجابی 5.61فیصد ، براہوی 1.05 فیصد، بلوچی 1.45 فیصد اور دیگر زبانیں 2.33فیصد بولی جاتی ہیں۔

تعلیمی لحاظ سے ضلع خاصا زرخیز ہے یہاں قائد عوام یونیورسٹی آف انجینئرنگ سائنس اور ٹیکنالوجی 1974ء میں قائم ہوئی۔ شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی 2012ء میں جبکہ پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز 1974ء میں بنی۔ پروونشل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیچرز ایجوکیشن، بلاول انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ ریسرچ، گورنمنٹ حبیب کالج آف ٹیکنالوجی قائداعظم لاء کالج، بختاور کیڈٹ کالج، نواب شاہ ہومیوپیتھک، میڈیکل کالج، ووکیشنل انسٹی ٹیوشن جیسے تعلیمی ادارے ہیں۔

ضلع نواب شاہ کی وجۂ تسمیہ یہ ہے کہ یہ ایک زمیندار سید نوا ب شاہ نے تقریباً سو سال پہلے آباد کیا تھا۔ انہیں کے نام پر یہ ’’نواب شاہ‘‘ کہلایا۔اس کو ضلعی حیثیت 1912ء میں انگریزوں کے دور میں ملی۔ ضلع کی جدید عمارتوں میں نواب شاہ اسپتال میڈیکل کالج، مہران یونیورسٹی کیمپس، کبیر مسجد اور اس کا مینار اہم ہیں۔ شہید بے نظیرآباد ضلع کے بازاروں میں چکرا بازار، موہنی بازار، لیاقت مارکیٹ، مارکیٹ روڈ پر کریانے، ہارڈویئر، زرعی آلات کی دکانیں نمایاں ہیں۔ ضلع میں کئی محلے بھی ہیں جن میں عظیم کالونی، غریب آباد ، پیلا کیمپ محلہ، مہاجر کالونی، مریم روڈ اور حسین روڈ محلے ہیں۔ ضلع میں مشہور لائبریریاں دارالمطالعہ و لائبریری چکرا بازار، پاکستان نیشنل سینٹر کی لائبریری مجلس احیائے اسلام کے دارالمطالعہ و لائبریری شامل ہیں۔

ضلع میں علمی اورادبی مراکز کی وجہ سے ادبی و ثقافتی سرگرمیاں عروج پر رہتی ہیں۔ ادباء و شعراء کی کئی تنظیمیں ہیں جن کی تقاریب منعقد ہوتی رہتی ہیں اہم تفریحی مقامات میں گورنمنٹ کالج سے متصل پارک، خواجہ گارڈن اور لطیف پارک مشہور ہیں۔ آثار قدیمہ میں نواب شاہ سے چھ کلو میٹر دُور میروں کا تعمیر کردہ قدیم قلعہ ’’دلیل دیرو ‘‘ ہے۔

صنعتی لحاظ سے ضلع خاصا ترقی کر رہا ہے یہاں نواب شاہ شوگر ملز، سکرنڈ شوگر ملز، کپاس کے کارخانے، زرعی آلات کے کارخانے، سوتی کپڑے، قالینوں اور سندھی ٹوپیوں کا کام بھی ہوتا ہے۔ کھیلوں میں ضلع میں کرکٹ، فٹ بال، والی بال اور ملاکھڑا ہوتا ہے۔ ریلوے گرائونڈ، اسٹیڈیم اور اسلامیہ ہائی اسکول کے گراؤنڈ مشہور ہیں۔ شہر میں جنرل پوسٹ آفس، ٹیلی فون ایکسچینج، شناختی کارڈ آفس، ڈی سی آفس، پریس کلب اور پاکستان نیشنل سینٹرز ہیں۔

ضلع کی مشہور شخصیات میں سید بدھل شاہ، حاکم علی زرداری سابق صدر آصف علی زرداری، غلام مصطفی جتوئی، امام بخش جتوئی، حاجی شاہنواز پیرزادہ ، غلام مجتبیٰ جتوئی، سید نذر شاہ، علی نواز انڑ، فریال تالپور، احمد علی خان جلبانی، جان محمد ڈاھری، رحمت اللہ بہن، قاضی فیض محمد، رئیس بروہی، غلام قادر چانڈیو، شہید غلام عباسی چانڈیو، اولیائے اکرام میں میاں نور محمد کلہوڑو، بلاول فقیر زرداری، مخدوم ابوالحسن ڈاھری، جہانیاں خاندان، پیر نظر محمد شاہ جیلانی، علمائے اکرام : قاضی عبدالرئوف عورائی، مولانا رضا محمد ڈاھری، ابراہیم لاکھو، عزیز اللہ بگھیو، مولانا محمد دائود کھوکھر، مولوی محمد اسماعیل میمن صحافی: محمد وارث بلوچ، محرم علی بھٹی، فدا حسین خان شامل ہیں۔

ضلع میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 7,75,627ہے جن میں مرد ووٹرز 4,24,499 اور خواتین ووٹرز 3,51,128 ہیں۔ قومی اسمبلی کی دو نشستیں NA-213اور NA-214ہیں صوبائی اسمبلی کی نشستیں چار PS-40تاPS-37 ہیں۔ نواب شاہ مردم خیز خطہ ہے اب (شہید بے نظیرآباد)

سانگھڑ ضلع

یہ شہید بے نظیر آباد ڈویژن کا دوسرا ضلع ہے۔ سانگھڑ تین سو سال پہلے آباد ہوا تھا۔ اس کے نام کی دو روایت ہیں ایک تو یہ کہ یہاں سنگھڑ قوم رہتی تھی اس نے اس علاقہ کو آباد کیا اس لئے اسے سانگھڑ کا نام ملا۔ دوسری روایت کے مطابق یہ سنگھڑ مائی کے نام سے منسوب ہے۔ جو آگے چل کر سانگھڑ کے نام میں تبدیل ہوا۔ سانگھڑ کو 1953ء میں ضلعی حیثیت ملی۔ ضلع کا رقبہ 10,720کلو میٹر اور آبادی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق 20,57,057 نفوس پر مشتمل ہے۔یونین کونسلز کی تعداد 70 ہے۔

انتظامی اعتبار سے ضلع سانگھڑ چھ تحصیلوں پرمشتمل ہے۔1۔ جام نواز علی تحصیل 2۔ سانگھڑ تحصیل3۔ کھپرو تحصیل 4۔ ٹنڈو آدم تحصیل5۔ شہداد پور تحصیل 6۔سنجھورو تحصیل ۔صنعتی لحاظ سے ضلع ترقی پذیر ہے یہاں مختلف کارخانےاور ایک صنعتی اسٹیٹ بھی ہے۔ قالین بافی، کپاس اور بنولے کے کارخانے، آٹے کی ملز اور ماچس تیارکرنے کا کارخانہ اور سانگھڑ شوگر ملز بھی ہے۔ ضلع میں معدنیات کے ذخائر ہیں۔ سنجھورو اور بو بی کے مقام پر تیل و گیس کے ذخائر موجود ہیں۔

زرعی لحاظ سے دیکھا جائے تو سانگھڑ میں گندم، جوار، مکئی، باجرہ اور چاول اہم فصلیں ہیں جبکہ بیگن، شلجم، کدو، پیاز، گوبھی، گاجر، مولی اہم سبزیاں ہیں۔ ضلع میں جو اقوام آباد ہیں ان میں مری قبیلہ، کھوسہ، میمن اور چنا شامل ہیں۔ تعلقہ کھپرو ریگستان ہے ضلع کا باقی علاقہ پکا ہے۔ یہاں جنگلات بھی ہیں جہاں نیم، کیکر، باہن اور شیشم کے درخت ہیں۔ آثارِ قدیمہ / اہم مقامات میں سوہنی مہینوال کا مقبرہ، میر شہداد جوبتو، آدم جان مری کا مقبرہ، دلور کے کھنڈرات، ماڑی سبڑ، رتو کوٹ، سموں چڑی چوبھڑو، متابرسٹی کندو، احدسی جوبھڑو، مقبرۂ یگان، مقبرہ میر شہداد خان تالپور، کوٹ بجسر وغیرہ اہم آثارِ قدیمہ ہیں۔

ضلع کی اہم نہروں میں نارانہر، روہڑی نہر، جمڑائو، مٹھرائو ضلع میں آبپاشی کا ذریعہ ہیں۔ سانگھڑ کی عمارات میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر، ڈی سی آفس، شفاخانہ حیوانات، نادرا کا دفتر اور اہم طبی ادارے ہیں طلبہ و طالبات کے لئے علیحدہ کالجز اور اسکولز قائم ہیں۔ اساتذہ کی تربیت کے لئے ٹیچرز ٹریننگ اسکول بھی ہے۔ ضلع میں مسلمان 77.80فیصد، ہندو 21.79فیصد اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے 0.41فیصد ہیں۔

بولی جانے والی زبانوں میں سب سے زیادہ سندھی77.92فیصد اُردو 8.95 فیصد، پنجابی 6.25فیصد، بلوچی 1.43فیصد، سرائیکی 1.22 فیصد، براہوی 1.19فیصد اور دیگر زبانیں جو بولی جاتی ہیں وہ 3.04فیصد ہیں۔ تاریخی لحاظ سے ضلع سانگھڑ حروں کا مرکز رہا ہے۔ یہاں سے حر تحریک شروع ہوئی تھی اور پیر صبغت اللہ راشدی کو پھانسی دی گئی تھی۔ حروں کی اس تحریک کوتیز تر بنانے والے منگریو اور مہر آج بھی پیر جوگوٹ میں رہتے ہیں۔ ضلع کی 72فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے جبکہ 18فیصد شہروں میں ہے۔

ضلع سانگھڑ شعروادب کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے اردو کے نامور شاعر اکبر معصوم، ارشد علی عرشی (مزاحیہ شاعر) ہیں۔ سیاحتی مقامات میں بقاء جمیل، نارا جھیل، چوٹیاری ڈیم مشہور ہیں۔ سانگھڑ تاریخی شہر ہے، جسےملاحوں نے آباد کیا تھا اسی لئے آج بھی یہاں ملاحوں کی آبادی زیادہ ہے۔

ضلع سانگھڑ کی اہم سیاسی شخصیات میں سابق وزیراعلیٰ سندھ جام صادق علی، جام معشوق علی، جام کرم علی، جام عاشق علی، جام انور علی، شاہنواز جونیجو، سابق وزیراعظم پاکستان محمد خان جونیجو، روشن دین جونیجو، رئیس عطا محمد خان مری، شازیہ مری، قاضی فیض محمد راجڑ، قاضی شمس الدین راجڑ، قاضی عبدالقدوس راجڑ، حاجی خدا بخش راجڑ، غلام دستگیر راجڑ، عبدالسلام تہھیم، سید محمد بچل شاہ، شاہد خان تہھیم، نیاز محمد خان وسان شامل ہیں۔

ضلع سانگھڑ میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 9,51,325ہے، جس میں مرد ووٹرز 5,21,238اور خواتین ووٹرز 4,30,087 ہیں۔ ضلع میں قومی اسمبلی کی تین نشستیں NA-217، NA-16، NA-215 ہیں۔ صوبائی اسمبلی کی چھ نشستیں PS-46 تاPS-41ہیں۔ 2018ء کے الیکشن میں NA-215سے نوید ڈیبو سے NA-216، شازیہ جنت مری اور NA-217سے روشن الدین جونیجو کامیاب ہوئے تھے۔ سانگھڑ کا فون کوڈ 0235 اور پوسٹل کوڈ 68100ہے۔

ضلع سانگھڑ سیاسی، معاشی،تعلیمی شعبوں میں ترقی کی جانب گامزن ہے اس کی معیشت بہتری کی طرف جا رہی ہے اور جلد ہی یہ ضلع صوبہ سندھ میں ترقی کی نئی راہیں کھول دے گا اور ایک مثالی ضلع بن کرابھرے گا۔

نوشہرو فیروز ضلع

یہ شہید بے نظیر آباد ڈویژن کا تیسرا ضلع ہے۔ اس کے نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ کلہوڑہ عہد کے ایک خلیفہ فیروز ویراڑ نے اس شہر کی بنیاد رکھی تھی۔ اُنہی کے نام کی نسبت سے یہ مشہور ہوا۔رقبہ 2945کلو میٹر اور آبادی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق 16,12,373ہے۔ 51 یونین کونسلز ہیں۔ محل و وقوع کے اعتبار سےاس کے شمال میں ضلع خیرپور، جنوب میں ضلع بے نظیر بھٹو آباد، مشرق میں بے نظیر آباد اور خیرپور اضلاع کی سرحدیں ملتی ہیں۔

انتظامی لحاظ سے نوشہرو فیروز پانچ تحصیلوں (تعلقوں) پر مشتمل ہے۔ 1۔ تحصیل نوشہرو فیروز 2۔ تحصیل کنڈیارو 3۔ تحصیل مورو4۔ تحصیل بھریا5۔ تحصیل محراب پور، یہاں کا موسم مئی، جون، جولائی میں گرم ترین اور دسمبر، جنوری، فروری میں سرد ترین ہے گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ ٔ حرارات 44اور43 سینٹی گریڈ اور سردیوں میں 5.3 رہتا ہے۔ سالانہ اوسط بارش 139ملی میٹر ہوتی ہے۔

زرعی لحاظ سے زرخیز ضلع ہے، زیادہ گنے کی کاشت ہوتی ہے اس کے علاوہ کپاس، گندم، چاول، مسور ،جب کہ پھلوں میں سب سے زیادہ آم کاشت ہوتا ہے، کیلا اور امردو کی کاشت بھی ہوتی ہے۔ علاقہ سطح سمندر سے 50میٹر بلندہے۔ ضلع میں 50کلو میٹر تک دریائے سندھ بہتا ہے۔ سیلابی بچائو کیلئے کئی بند بنائے گئے ہیں جنگلات کی خاصی تعداد ہے ،جن میں مٹھیانی، بھورئی، بھونر، کمال ڈیرو اور دیالی ہیں روہڑی اور نصرت کینال ضلع کے اہم آبی ذرائع ہیں۔چاول ملز، فلور ملز، کاٹن ملز اور ٹیکسٹائل ملز ہیں۔

نوشہرو فیروز کو ضلعی حیثیت 1989ء میں ملی۔ ضلع میں ایک سیشن کورٹ ، تین ایڈیشنل سیشن کورٹ، چار سول کورٹس اور دو جوڈیشل عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ نوشہرو فیروز آزادی کی تحریک میں ہمیشہ پیش پیش رہا چاہے وہ تحریک پاکستان ہو، ریشمی رومال تحریک ہو، تحریک خلافت ہو یا سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کی تحریک ہو اس ضلع کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس شہر میں گاندھی جی، پنڈت نہرو، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی بھی تشریف لائے تھے۔

ضلع میں ادبی سرگرمیوں میں پریس کلب ، سندھی ادبی سنگت شاک، بچل مہر جیسے ادارے نمایاں ہیں۔ سب سے زیادہ سندھی زبان 89.45فیصد، اُردو 4.68فیصد، پنجابی 3.34 فیصد اور دیگر زبانیں 2.53فیصد بولی جاتی ہیں۔ ضلع میں مسلمان 98.30فیصد، ہندو 1.64فیصد اور دیگرمذاہب والے 0.06فیصد ہیں۔ مشہور شخصیات میں حاجی خان لاریک، مسلم لیڈر تھے۔ سابق وزیراعظم پاکستان اور سابق وزیراعلیٰ سندھ غلام مصطفی جتوئی کا (مورو) سے تعلق تھا۔

ادبی شخصیات میں علی ساحل، ایاز جوکھیو، غلام محمد وامق اور شرافت علی ناز اہم ہیں سیاسی شخصیات میں غلام مصطفی خان جتوئی، غلام مرتضی خان جتوئی، غلام مجتبیٰ خان جتوئی، عاشق حسین جتوئی، غلام رسول خان جتوئی، طارق خان جتوئی، عارف مصطفی جتوئی، آصف جتوئی، مسرور احمد خان جتوئی، ڈاکٹر عبدالغفار خان جتوئی اور فرہاد زمان جتوئی اہم سیاسی شخصیات ہیں۔

ضلع میں جو اقوام آباد ہیں ان میں سولنگی، میمن، خاص خیلی، اُجن چنر، پھل، جتوئی، زرداری، جلبانی، کھیرا، چانڈیہ، لاشاری، تالپور، گولو، ارائیں، جٹ اور سیال ہیں۔

ضلع نوشہرو فیروز میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 7,56,833ہے جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 4,18,392اور خواتین ووٹرز کی تعداد 3,38,441ہے۔ ضلع میں قومی اسمبلی کی دو نشستیں NA-212، NA-211ہیں NA-211سے 2018ء کے الیکشن میں سید ابرار علی شاہ اور NA-212سے ذوالفقارعلی بہن جیتے تھے۔ ضلع میں صوبائی اسمبلی کی چار نشستیں ہیں PS-36 تا PS-33ضلع کا ٹیلی فون کوڈ 07053اور پوسٹل کوڈ ہے۔

اگر حکومت سندھ توجہ دے تو یہ ضلع دوسرے اضلاع کی طرح معاشی، تعلیمی سیاسی میدان میں ترقی کی راہ پرگامزن ہو سکتا ہے یقینایہ ایک ترقی یافتہ ضلع بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔