عقائدِ اسلام کی انفرادیت و اہمیت اور انسانی زندگی پر اُس کے اثرات

November 25, 2022

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

اسلامی عقائد وہ بنیادی اصول ہیں جن پر انسانی زندگی کی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے۔ موجودہ زمانے میں نئے علوم اور نئی نئی ایجادات نے عقل ، دلیل ، تجربہ اور مشاہدہ کی نئی دنیا میں قوموں کو نظریے اور عقیدے کی بنیادپر مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے اور وہ اپنے عقائد و نظریات کے لئے ایک دوسرے سے لڑنے مرنے پر تیار ہیں۔ وقت کی ضرورت اور حالات کے تقاضوں نے ثابت کر دیا کہ عقیدے کی پختگی ہی انسانی زندگی کی کامیابی و ترقی کا ذریعہ ہے۔ انسانی زندگی کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو تو عقائد سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا پہلو اعمال سے۔پہلے انسان کے دل و دماغ میں آرزوئیں، امیدیں ، احساسات ، خیالات اور ارادے پیدا ہوتے ہیں۔ پھر انسان اپنے ان ہی ارادوں کے مطابق کام کرنے لگتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی زبانِ اقدس میں پہلی چیز کا نام ’’نیت ‘‘ ہے اور دوسری چیز کا نام ’’عمل ‘‘ ہے۔

نیت وہ خیالی ، ارادی یا اعتقادی تصویر ہے جس کا نقشہ صرف دماغ کے پر دے پر کھنچتا ہے۔ عمل اس تصویر کا وہ صحیح عکس ہے جو بیرونی دنیا میں تغیر و انقلاب کے ہنگامے پیدا کرتا ہے۔ سرورِ کونین ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’اعمال کی بنیاد نیتوں پر ہے۔‘‘ لہٰذا تربیتِ انسانی کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان کی نیت اور ارادے کو درست کیا جائے ۔نیت اور ارادے کو درست کرنے کے لئے رسول اللہﷺ نے جو بنیادی اصول مقرر فرمائے ، انہیں اسلامی عقائد کا نام دیا گیا ۔ اگر ان اصولوں کو انسانی دل و دماغ کا مقصد بنا لیا جائے تو انسانی دماغ میں کوئی غلط اور کھوٹی نیت نشوونما نہیں پا سکتی ۔ گویا کہ یہ اصول پہرے دار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جہاں بھی دماغ میں کوئی خرابی بُرا ارادہ یا کھوٹی نیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ پہرے دار اسے پکڑ کر وہیں دبا دیتے ہیں۔

عقیدے کی تعریف یہی ہے کہ ’’عقیدے سے مراد انسان کے وہ پختہ ، غیر متزلزل اور غیر مشکوک اصولی خیالات ہیں جو انسان کے تمام افعال، اعمال اور حرکات کا محور بنتے ہیں‘‘۔ انسان کے تمام افعال، اعمال اورحرکات کا محور اس کے خیالات ہیں ، یہی انسان کو بناتے اور بگاڑتے ہیں۔ یہ عام خیالات درحقیقت چند پختہ غیر متزلزل اور غیر مشکوک اصولی خیالات پر مبنی ہوتے ہیں، انہی اصولی خیالات کو ’’عقائد ‘‘ کہا جاتا ہے اور انسان کا یہی پختہ اور غیر متزلزل یقین ایمان کہلاتا ہے ۔اب سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی دنیا میں انسان خون، رنگ، نسل، وطن، زبان اور مادی فوائد کی بنیاد پر برادری اور گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے سے بُری طرح دست و گریباں تھا۔

انسان کو اس پستی سے رہائی دلانے کے لئے خالق کائنات نے اسلام کے نام سے ایک نظام حیات انسانوں کے لئے مقرر فرمایا اور اس نظام حیات کی بنیاد پر خاتم النبیین ﷺ نے ایک ایسی تحریک برپا کی جس سے انسانی برادری کے لئے ایک نہایت مستحکم بنیاد قائم ہوگئی ، جس سے عالمگیر انسانی اخوت، نظری و فکری وحدت اور بندہ و خدا کے تعلق کو ایک عالمگیر برداری کی بنیاد قرار دیا گیا۔ اس نئے تصور کے تحت سر زمین حجاز میں ایک ملت وجود میں آئی جو ملت اسلامیہ کے نام سے پہچانی گئی، اور جن اصولوں پر یہ اخوت قائم ہوئی اُن کا نام ’’اسلامی عقائد‘‘ رکھا گیا۔ ان اصولوں پر مختلف اجزاء اکٹھے ہوئے، اس کی مثال دنیا میں نہ پہلے کبھی تھی اور نہ اب مل سکتی ہے۔ حبشہ کے بلال ـؓ ، روم کے صہیبؓ، فارس کے سلمانؓ، عرب کے ابو بکرؓ ،خون، رنگ ، نسل ، زبان، اور وطن کی حد بندیوں کو توڑ کر اس نئی ملت کے رکن بنے ،جس کی رکنیت کی بنیاد صرف وحدتِ الہٰ اوراللہ اور اس کے رسول ﷺ پرایمان تھی ۔

اس کے برعکس خود مکہ کے قریش جو اس وحدتِ الہٰ اور وحدت ایمان میں شامل نہیں ہوئے، قریب ترین رشتے دار ہونے کے باوجود غیر قوم کے افراد سمجھے گئے اور اس نئی برادری کے مدِّ مخالف قرار پائے ۔ جس کی مثال ہم بدر کے معرکہ حق و باطل میں دیکھتے ہیں کہ باب بیٹا، بھائی بھائی، ماموں بھانجا، ایک دوسرے کے مد مقابل اور حریف قرار پائے۔ یہ ایک ایسا عجیب و غریب نظارہ تھا، جیسے دیکھ کر دنیا حیران تھی ، یہ اسلامی عقائد ہی کا کرشمہ تھا۔

اسلام کے بنیادی عقائد (اولین فرائض ) یعنی توحید، رسالت، ملائکہ، آسمانی کتب، قیامت و حشرنشر وغیرہ پر ایمان لانے کے متعلق مکۂ معظمہ کے قیام کے زمانۂ نبوی میں اکثر آیات نازل ہوئیں۔ شرک و بت پرستی کی برائی و مذمت ، اللہ وحدہ لاشریک کی عظمت و جلالت کا اظہار ، قیامت کا ہولناک منظر ، جنت و دوزخ کا پُر اثر بیان۔ رسالت کے خواص اور اس کی ضرورت کے دلائل یہ تمام امور ان آیات میں بیان ہوئے ، عقائد کا مسلسل بیان سورۂ بقرہ اور سورۂ النساء میں ہے اور یہ سورتیں مدینے میں نازل ہوئیں۔ مکی سورتوں میں زیادہ تر زور توحید ، قیامت کے دن اور رسول اللہ ﷺ کی صداقت پر صرف ہوا ہے، لیکن مدینے میں اسلام کے تمام عقائد اور اصول اولین کی مجموعی تعلیم شروع ہوجاتی ہے۔

اسلامی عقائد کی حیرت انگیز اثر پذیری کا راز اسلامی عقائد کی بنیادی بات عقیدۂ توحید میں مضمر ہے۔ یعنی اس بات پر ایمان کہ کائنات کو پیدا کرنے والا زندگی کا سر چشمہ اور تمام قوتوں کا مالک اور حاکم اعلیٰ صرف ایک اللہ ہے۔ ایک مالک، صاحب اختیار اور خالق، اللہ پر ایمان لانے سے وحدتِ بنی آدم (ایک برادری) کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ یعنی یہ عقیدہ کہ جب زندگی کا سرچشمہ ایک ہے تو زندگی کے اظہار کی صورتوں کو بھی اپنی اصل اور بنیاد کے اعتبار سے برابر ہونا ضروری ہے، اسی سے مساوات انسانی اور احترام آدمیت کی بنیاد پڑتی ہے اور اسی پر دنیا کی امن و سلامتی کا دار و مدار ہے۔

قرآن کریم نے جو خالص توحیدِ الہٰی کا نظریہ پیش کیا ہے اور جس عجیب انداز سے اسے بیان اور فطری دلائل سے اسے ثابت کیا ہے ، دنیا کی الہامی کتب میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ چند آیات کا ترجمہ ملاحظہ ہو،توحید کا بیان سورۂ بقرہ میں اس انداز سے ہوا کہ اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ (سورۃ البقرہ:163)سورۃ النساء میں اللہ کی یکتائی کو ان الفاظ سے بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تو اکیلا معبود ہے۔ وہ اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کی اولاد ہو، جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اسی کا ہے اور اللہ کافی اور کارساز ہے ۔ (سورۃالنساء 171)

انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور پادریوں کو اپنا رب بنا لیا ہے اور مسیح ابنِ مریم کوبھی۔ حالانکہ انہیں یہی حکم دیا گیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا ۔اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ ان لوگوں کے شرک سے پاک ہے۔ (سورۂ توبہ : 31)

سورۂ ابراہیم میں قرآن کو اللہ کی وحدانیت کی علامت طور پر پیش کیا گیا: یہ قرآن لوگوں کے لئے اعلان ہے، تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کو ڈرایا جائے ، تاکہ وہ جان لیں کہ وہی اکیلا معبود ہے اوریہ کہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (سورۂ ابراہیم :52) اس طرح کی متعدد آیات میں عقیدۂ توحید کو دلائل کائنات کے ساتھ متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ وحدانیت کی تلقین کے ساتھ شرک کا ابطال کیا گیا ہے۔

توحید کے بعد دوسرا اہم ترین عقیدہ ’’رسالت ‘‘ ہے۔ انسانی رہنمائی و ہدایت کے لئے اور امت کے وجود کو قائم رکھنے کے لئے رسالت پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ یعنی یہ بھی تسلیم کیا جائے کہ خالقِ کائنات اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لئے حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تک جتنے بھی نبی و رسول آئے، وہ سب سچے اور برحق تھے۔ ہمیں اللہ کے احکام ، اس کی مرضی اور اس کی پسندو نا پسند کا علم، حکم الہٰی کے ذریعے حاصل ہوا۔

رسولوں کی صداقت پر ایمان نہ ہو تو احکام الہٰی کی صداقت بھی مشکوک اور مشتبہ ہو جاتی ہے اور انسان کے سامنے نیکی اور معصومیت کا نمونہ اور کردار و عمل کا کوئی آئیڈل موجود نہیں رہتا جو انسانوں کے عمل کا محرک بن سکے۔ سلسلۂ رسالت کے آخری نبی محمد رسول اللہ ﷺ ہیں ۔تمام نبی آسمانِ نبوت کے ستارے ہیں ۔ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی آیا، نہ آئے گا۔ کیونکہ آپ کو خاتم النبیین بنا کر بھیجا گیا ہے۔ آپ ﷺ کی تعلیماتِ قرآن اور آپ ﷺ کی زندگی کا نمونۂ عمل اسوۂ حسنہ ہمیشہ ہمیشہ انسانیت کے لئے روشنی کے مینار ہیں، جن سے بنی نوع آدم سفرِ حیات میں رہنمائی حاصل کر سکتی ہے۔

عقیدۂ رسالت ہی کے ساتھ ملائکہ اور آسمانی کتابوں پر ایمان کا بھی تعلق ہے اور وہ توحید و رسالت پر ایمان لانےکا لازمی جز و ہیں، کیوں کہ اللہ کی ذات اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سے انسانیت کو روشناس کرانے اور ان کی ہدایت و رہنمائی میں بنی نوع انسان کو چلانے اور قانون ہدایت کو پہنچانے اور اس کی حفاظت کے لئے جن ذرائع کی ضرورت تھی، وہ یہی ہیں، لہٰذا ان پر ایمان لانا لازمی ہے۔

فرشتوں پر ایمان کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے درمیان قاصد اور سفیر ہیں۔ مادیت و روحانیت کے درمیان واسطہ ہیں۔ آسمانی کتابوں پر ایمان کہ ہدایت ربانی جو ہمیں رسولوں کے ذریعے حاصل ہوئی ہے، اسے انسانوں تک، دور دراز کے ملکوں اور قوموں تک پہنچانے کے لئے وہ تحریروں کی شکل میں یعنی کتابوں میں یا لفظ و آواز سے مرتب ہو کر ہمارے سینوں میں محفوظ ہیں۔ ان پر ایمان کے بغیر ہمارے پاس ہدایت ربانی معلوم کرنے کا کوئی اور ذریعہ نہیں رہ جاتا اور نیکی و بدی کا کوئی معیار باقی نہیں رہتا ،ان تمام آسمانی کتابوں اور صحیفوں میں صرف قرآن حکیم ہی اب باقی رہ گیا ہے، کیوںکہ یہی اللہ آخری ابدی پیغام ہے۔ اس کی حفاظت کا انتظام بھی اللہ نے خود اپنے ذمہ لیا ہے۔ فرمایا گیا:’’ہم نے اس قرآ ن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ (سورۃ الحجر:9)

آخرت پر ایمان کہ زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہے جو دائمی اور ابدی ہے۔ مرنے کے بعد ایک دن تمام انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے اور پھر ہر انسان سے اس کی دنیا کی زندگی تمام اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ اچھے اور نیک اعمال پر اجر ملے گا اور برے اعمال پر سزا دی جائے گی۔ آخرت پر ایمان کہ انسان کو دنیا میں شُترِبے مہار نہیں بننے دیتا۔

اگر یہ نہ ہو تو انسانیت سراپا درندگی بن جائے ،یہی وہ عقیدہ ہے جو انسان کو خلوت و جلوت میں اس کی ذمہ داری محسوس کراتا ہے۔ اسے خیر پر ابھارتا اور شر سے باز رکھتا ہے۔ اس طرح خیر و شر کی یہ بنیاد ہی احساس جواب دہی ہے۔ انسان اور جانور میں بنیادی فرق بھی یہی ہے کہ انسان اللہ کے سامنے جواب دہ ہے اور جانور کسی کو بھی جواب دہ نہیں، جو انسان خود کو اللہ کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتا ،درحقیقت وہ جانور ہے، بلکہ اس سے بھی بدتر۔ ’’یہ جانور ہیں، بلکہ اس سے بھی برتر‘‘۔ (سورۃالاعراف 179)

اسلام کے نزدیک عقیدۂ آخرت اس قدر اہم ہے کہ قرآن حکیم نے بیشتر مقامات پر اس کا ذکر ایمان باللہ کے ساتھ کیا ہے۔ اسلام کے اخلاقی اور اجتماعی نظام کی پوری عمارت ہی اس سنگِ بنیاد پر کھڑی ہے ۔ احتساب او رجزاو سزا کے بغیر دنیا کا کوئی بھی کام ایسا نہیں جو دیانت داری سے کیا جاسکے ۔ سارے اخلاق کا انحصار چاہے وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی ، جزا و سزا کے تصور پر ہے۔ اسلام اس کی اہمیت کو ایک لمحہ کے لئے بھی فراموش نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اس عقیدے کو مختلف پیرایہ بیان میں بار بار دھراتا ہے۔ کوئی شخص اس وقت تک مسلمان ہو ہی نہیں سکتا ،جب تک کہ اسے آخرت پر ایمان کا مل نہ ہو۔ دل میں شک و شبہ رکھ کر خواہ وہ خود کو کتنا ہی سچا مسلمان ثابت کرے، اس کا اسلام قبول نہیں، زندگی کے بعد موت پر بھی ایسا ہی یقین ہونا چاہیے، جیسا کہ موجودہ زندگی پر ہے۔

توحید و رسالت ، آسمانی کتابوں ، فرشتوں ، رسولوں اور قیامت پر ایمان لانے کے متعلق قرآن میں واضح ہدایت موجود ہیں ۔ فرمایا گیا:’’نیکی یہ نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق و مغرب کی طرف کر لو ، بلکہ نیکی تویہ ہے کہ تم ایمان لاؤ اللہ پر، اور یوم آخرت پر اور فرشتوں اور کتابوں اور نبیوں پر (سورۃ البقرہ:177)فرمایا: ایمان لائے رسول اس پرجو ان پر نازل کیا گیا ،اس کے رب کی طرف سے اور سب مومن بھی ایمان لائے اللہ پر اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر کہ فرق نہیں کرتے اس کے رسولوں میں اور انہوں نے کہا کہ ہم نے سنا اور مان لیا اور ہم تیری ہی بخشش مانگتے ہیں۔ اے پروردگار ،ہمیں تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ (سورۃالبقرہ285)

سورۂ نساء میں حکم دیا گیا :’’اے ایمان والو! ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولﷺ پر اور اس کتاب پر جو اس نے نازل کی اپنے رسول پر اور ان کتابوں پر جو نازل کی، اس سے پہلے اور جو کوئی انکار کرے اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں ، رسولوں اور روز قیامت کا تو وہ گمراہِ ہے اور راہ حق سے بہت دورہے (سورۃ النساء 136)

آج کی مادی اور سائنس ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود انسانیت حیوانی زندگی بسر کر رہی ہے اور پستی کے گڑھے میں گری ہوئی ہے تو اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ زندگی کا مقصد غلط سمجھ لیا گیا ہے۔ دین اور دنیا کے الگ الگ دائرے بنا کر زندگی کی وحدت اور ترقی کے توازن کو ختم کر دیا گیا ہے۔ سیرت النبی نظروں سے اوجھل ہوگئی ہے۔ دین و دنیا کی مکمل علمی، ذہنی، روحانی اور انتظامی خوبیوں اور حلال و حرام کی روزی کی صفات کا اثر اور خواہش نظر نہیں آتی ۔ اخلاقی و ذہنی لحاظ سے انسان ناقص اور اعمال کے اعتبار سے پستی کا شکار ہیں۔ صرف مادیت اور کھانے پینے لباس اور اشیائے تعیش کو مقصدِ حیات بنا لیا گیا ہے۔

ایسا نظریہ ونظام حیات صرف اسلامی الہامی وعقائد پر مبنی اسلامی نظام حیات ہے، جس سے اچھا اور ہمہ گیر اور کوئی نظریہ حیات نہیں ۔ کیونکہ ذوق سلیم نے اسے پسند کیا ہے اور فطرت کی سلامت روی اسی کا تقاضا کرتی ہے ۔ ’’جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور نظام حیات (دین) کو تلاش کرے گا، وہ اس سے ہر گز ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا۔

اس دور کی بے یقین اور شک و شبہات کی فضا میں زندگی کی نئی دعوت اور دنیا پیغام وہی ہے جو اسلامی عقائد کی شکل میں ڈیڑھ ہزار سال قبل محسنِ انسانیت ﷺ کی وساطت سے انسانیت کو ملا تھا۔ یہ ایک بڑا طاقتور ، واضح اور روشن پیغام ہے جس سے زیادہ منصفانہ اور مبارک پیغام اس پورے عرصے میں دنیا نے کسی زبان سے نہیں سنا، یہ بعینہ وہی پیغام ہے جسے سن کر مسلمان مدینہ طیبہ سے نکلے اور تمام دنیا میں پھیل گئے اور دنیا پر حکمرانی کی۔