کمان کی تبدیلی

November 26, 2022

جی ایچ کیو کی کمان میں تبدیلی کا وقت آن پہنچا۔مضمون کی اشاعت تک قیادت کا چنائو ہوچکا ہوگا، اور قوم کو بالآخر اس جنرل کا نام معلوم ہوگیا ہو گا جو اگلے تین برس کےلے فوج کی قیادت کرنے جارہے ہیں ۔ لیکن فی الحال جس طرح یہ تمام عمل سرانجام پایا ہے ، اوراس نے جن تنازعات کو جنم دیا ہے، ان کی وجہ سے ملک کی دفاع اور سیکورٹی کے حوالے سے اہم ترین تعیناتی رواں اور ہموار معاملہ نہیں رہی۔

بنیادی طور پر یہ حکومت کی انتہائی نااہلی اورتعیناتی سے منسلک تیز و تند کشمکش تھی جس کی وجہ سے آخری دم تک ابہام کی دھند چھائی رہی ۔ ایسی حساس تعیناتی کا ماحول ہر قسم کے سیاسی گرد و غبار سے پاک رہنا چاہئے کیوں کہ یہ منصب تمام ادارے اور ملک کے عوام کے اعتماد کا مظہر ہوتاہے ۔ ادارے کے افسر اور جوان اپنے چیف کے حکم پراپنی جانیں نچھاور کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں، ملک کے عوام بھی فوج کو اپنے ملک کے محافظوں کے طور پر دیکھتے ہیں ۔اس لئےاس کا چنائو ہر قسم کے تنازع سے پاک ہونا چاہئے ۔ لیکن موجودہ حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ اس کی بجائے، اس عمل نے انتہائی ابہام، افراتفری، تنائو اور کشمکش کا ماحول غیر معمولی حد تک گہرا کردیا۔ اس کی وجہ سے ادارے کے وقار کو ناقابلِ بیان حد تک زک پہنچی ہے۔

اس دوران ماحول مختلف قسم کی افواہوں سے لبریز تھا۔ ان افواہوں نے چنائو کے عمل پر شکوک و شبہات کے سائے گہرے کردیئے۔ خیال کیا جارہا تھا کہ کسی پسندیدہ کو ترجیح دینے کی ناپسندیدہ کوشش ہورہی ہے ۔ حتیٰ کہ فوج کی طرف سے اس سمری کی وصولی یا دوسری صورت میں جس میں وزیر اعظم کو کسی شخص کو منتخب کرنے کے ممکنہ انتخاب کا خاکہ پیش کیا گیا تھا، حکومت کے مختلف وزراکے متضاد بیانات نے صورت حال کو متنازع بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ فوج کوبالآخر ایک بیان جاری کرنا پڑا کہ سمری وزیر اعظم کے دفتر کو بھیجی گئی تھی اور وہاں موصول بھی ہوگئی ہے۔ اس نے تقرری کے معاملے سے نمٹنے میں انتہائی ناپختگی اور بے حسی کا مظاہرہ کیا جسے اگر کہیں زیادہ پیشہ ورانہ انداز میں ہینڈل کیا جاتا تو بہتر تھا۔ ادارے کو لوگوں کا غیر متنازعہ احترام حاصل کرنے کے لئے اپنی غیر سیاسی حیثیت کو قائم کرنا ہو گا جو ایک ایسے ملک میں ضروری ہے جو مسلسل مختلف نوعیت کے چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے جن سے اس کے وجود کو خطرہ لاحق ہے ۔ ان چیلنجوں کا تدارک اولین ترجیح ہونی چاہئے۔

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ اس بیماری کی ایک طویل تاریخ ہے جسے فوری طور پر جڑ سے اکھاڑ نا مشکل ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ایک قابل بھروسہ عمل کا تسلسل قائم کرنا ہو گا جو اس بات کو یقینی بنائے کہ سیاسی میدان میں جو کچھ بھی ہورہا ہو، فوج اس طرف نہ دیکھے ۔ اس سے سیاستدانوں کے کندھوں پر یہ بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ فوجی ہائی کمان کو شامل کئے بغیر اپنے اختلافات کو خود ہی حل کرنا سیکھیں ۔ ماضی میں معمول کی بات رہی ہے کہ تقریباً تمام سابق سربراہان کسی نہ کسی صورت دلدل میں خود ہی پائوں رکھتے رہے ہیں بلکہ زیادہ تر تو مارشل لا کو اپنے اقتدار تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھتے رہے ہیں۔

حتمی تجزیے کیا جائے تو اس تنائو نے ملک کو کئی حوالوں سے پیچھے دھکیل دیا ہے ۔ سب سے اہم یہ کہ ریاستی اداروں کو تقویت دینے والی نوخیز تحریک کو ابتدامیں ناکام بنا دیا گیا، حالاںکہ اس کا مقصد اداروں کو ان کا آئینی کردار ادا کرنے کے قابل بنانا تھا تاکہ ملک ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ ایسا نہ ہونے کی وجہ سے ادارے ، چاہے سویلین ہوں یا فوجی، آئین کی پاسداری کی بجائے صاحبانِ اقتدار کی اطاعت کرنے لگے۔ وہ اس نظام میں خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے تھے جو فوج کی کمان کرنے والے کی خیر سگالی پر بہت زیادہ منحصر تھا۔ انحصار کا یہ واہمہ افراد اور اداروں پر یکساں بوجھ بن گیا۔ اس نے ان کے اعتماد اور کارکردگی ، دونوں کو متاثر کیا۔

سویلین بالادستی کا پیمانہ بغیر کسی ابہام کے طے ہوجانا چاہئے۔ بلاشبہ سویلین بندوبست کی مدد کے لئے کئی اہم شعبوں میں فوج کا کلیدی کردار ہے، لیکن اسے کسی ایک فریق یا دوسرے فریق کی حمایت کے لئے اکسانے یا مدعو کئے جانے کی ترغیب کا مقابلہ کرنا بھی سیکھنا چاہئے۔ فوج کی غیرجانبداری کا عنصر طے شدہ ہو۔ سیاست دانوں کو اپنی لڑائیاں آئین میں درج اصولوں کے مطابق لڑنا سیکھنا چاہئے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ ہر شخص، خواہ اس کے جو بھی مالی اور حکومتی اختیارات ہوں، اپنی فعالیت کے حوالے سے قانون کے سامنے جواب دہ ہو۔ تمام شہری انصاف اور قانون کی نظر میں برابر ہوں، جیسا کہ قائد نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے فلور پر 11 اگست کی تقریر میں اس پر زور دیا تھا۔ عدلیہ کے لئے بھی گہری نیند سے بیدار ہونے کا وقت آگیا ہے۔

یہ ایک طویل فہرست ہے۔ لیکن اگر پاکستان کو اپنی آزادی کے راستے پر آگے بڑھنا ہے تو یہ ضروری ہے کہ معاشی اور تزویراتی مفادات کے مطابق پالیسیاں تشکیل دی جائیں۔ حکومتیں قائم کرنا یا ختم کرنا فوج کا کام نہیں۔ اسے سیاسی میدان سے دور رہنا چاہئے تاکہ یہ ریاست کو محفوظ بنانے کے لئے اپنا بنیادی کردار ادا کرنے کے لئے تیار رہے۔

آئیے جی ایچ کیو میں نئے کمانڈر کا پرتپاک استقبال کرتے ہیں اور ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ ایک ایساراستہ اختیار کریں جو فوج کے ادارے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور اس کے عوام کے لئے بھی فائدہ مند ہو۔ انھیں اب اس حمام گرد باد سے رہائی درکار ہے جس میں وہ عشروں سے اسیر ہیں۔