کس کی جفائیں یاد رہیں گی

December 02, 2022

میرے ریٹائرڈ چھوٹے بھائی!

جس خدا نے مجھے لوح و قلم عنایت کئے، اس کو گواہ بنا کر میں اپنے چھٹ پن میں لاہور میں لگنے والے مارشل لا سے بات شروع کروں گی اور آپ کے منہ سے فوج کے اعترافِ گناہ کو سننے کے بعد ناقابل معافی غلطیوں، دیدہ ودانستہ فروگزاشتوں اور تاریخی ہزیمتوں کو یاد کرتے ہوئے پہلے یہ تو بتا دوں کہ میں نے آپ کو بھائی کیوں لکھا؟ 29؍نومبر سے پہلے کے جرنیل سے رہائی پا جانے والے شخص کو چھوٹا بھائی اس لئے لکھ رہی ہوں کہ فلموں کے ہیرو کی طرح آپ 70؍سالہ فوجی آمریت میں اپنی وہ تصویر کیوں بھول گئے جب آپ عمران کے ساتھ بیٹھ کر اپنے ایک سال اور رہ جانے کے لئے قانون میں ترمیم کروا رہے تھے۔ ممکن ہے میں غلط کہہ رہی ہوں مگر ترمیم تو ہوئی تھی نا!

اب سچ سچ بتائیں کہ اسکندر مرزا سے ایوب خان کے الٹ پھیر میں اس وقت کے سرکاری افسروں کی خوشامدوں نے بنیادی جمہوریت کے نام سے رام لیلہ، سچائی، ایوب خان کو فیلڈ مارشل بنانے، تاحیات صدر رہنے کی پٹی پڑھانے والوں نے جس طرح آگے بڑھ کر یحییٰ خان کو بھی جان بوجھ کر صدر اس لئے قبول کیا کہ جام جم چلتا رہے، محفل سجی رہے۔ ادھر مارچ 1971ء سے مشرقی پاکستان میں کشت و خوں کرتے اور کچی عمر کی لڑکیوں کو بے آبرو کرتے ہوئے کہتے رہے کہ ہم تو ان کی ’’نسلیں بدل دیں گے۔‘‘

میرے چھوٹے بھائی! آپ نے شاید ٹھیک کہا کہ بنگلہ دیش بننے کی اصل وجہ فوجی شکست نہیں، سیاسی شکست تھی۔ چلیں آپ کی بات مان بھی لوں تو یہ بتائیں ہتھیار ڈالتے ہوئے جنرل نیازی کی منحوس تصویر آج بھی بنگلہ دیش کے لبریشن میوزیم میں لگی ہوئی ہے۔ 50؍برس سے ہر نسل اس تصویر کو دیکھ کر جوان ہوئی ہے۔ میں خود گواہ ہوں کہ میں اکتوبر 1971ء میں ڈھاکا میں تھی۔ مجھے جنرل شیر علی خان نے البدر اور الشمس کی بہادری پر پمفلٹ لکھنے کو بھیجا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے عہد کیا تھا کہ میں یہ پمفلٹ نہیں لکھوں گی البتہ جو فوجی زیادتیوں کی کہانیاں دنیا بھر کے اخباروں میں شائع ہورہی ہیں، ان کی چشم دید گواہ بنوں گی۔ یہ ساری باتیں میں اپنی کتاب میں لکھ چکی ہوں جو 1993ء میں شائع ہوئی تھی۔

اچھا چھوڑیئے اس تکلیف دہ کہانی کو یہ بتایئے 1965ء اور 1971ء میں دو جنگیں آپ نے ہندوستان کے ساتھ لڑیں، اس میں فتح و شکست کا معاملہ تو رہنےدیں کہ یہ جنگ کس نے شروع کی تھی، سچ یہ ہے کہ ہمارے بہت سے فوجی مارے گئے تھے۔ ہمارے ہوابازوں نے انڈیا کو ڈھیر کردیا تھا۔ ہر دو جنگوں کے انجام پر ہم نے بھی معاہدہ کیا تھا۔ میں اس بات کو تو چھیڑوں گی نہیں کہ ہم نے کیسے کشمیر کا علاقہ آزاد کروایا تھا۔ اس کے بعد مشرف کے دور میں پھر کوئی فوجی ہیر پھیر ایسا کیا کہ وہ کارگل کی جنگ قرار پایا۔ کارگل کےایڈونچر کے باعث اس وقت کے بے چارے وزیراعظم کو معافی تلافی کیلئے امریکہ جانا پڑا۔

جہاں تک سیاسی غلطیوں کا حوالہ آپ نے دیا، اس پر بھی کچھ نمک پاشی اور سمع خراشی ہوجائے۔ 1953ء ہی میں شدت پسندی کو دبا دیا جاتا تو پھر بھٹو صاحب، کوثر نیازی کی مذہبیت کو اپناتے ہوئے، اپنے آپ ہی دہرا کر حبیب جالب اور ایاز امیر کی شامیں نہ برباد کرتے۔ مذہبیت نے جنون کا درجہ ضیا الحق کے زمانے میں حاصل کیا۔

سیاسی غلطیاں بھی تو فوجی حکمرانوں نے کروائی تھیں۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب میاں شریف نے جنرل جیلانی سے اپنے ایک بیٹے کیلئے سیاست نما حصہ مانگا تھا۔ انہوں نے بھی اپنا معاوضہ لے کر، ایک نوجوان لڑکے کو وزیر خزانہ بنایا۔ گویا چوہے پکڑنے کے لئے بلی رکھوالی بلکہ بٹھادی گئی۔ اونٹ نے تو خیمے میں سر چھپانے کی جگہ مانگی تھی، پھر سارا خیمہ ہی اس کا ہوگیا۔

فوج میں مالی بے ضابطگیوں کے بارے میں، میری بیٹی ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے صرف ایک چھوٹی سی کتاب اس طرح بنائی کہ اس نے سول سروس میں آکر جو کچھ تین برسوں میں فائلوں میں لکھا دیکھا، اس کو کتاب کی شکل دیدی۔ اول تو اس کتاب کی کہیں تقریب نہیں ہونے دی گئی بلکہ اسے ختم کرنے کی ذمہ داری ایجنسیوں کو سونپی گئی بالکل جیسے نوجوان بلوچی شاعر تبسم کو پہلے لاپتا کیا گیا پھر اسے مروا دیا گیا۔

ڈاکٹر عائشہ نے عورت ہوتے ہوئے بہادری کا مظاہرہ کیا اور ملک نہیں چھوڑا مگر اسے اس قدر تنگ کیا گیا کہ اسے بالآخر ہجرت کرتے ہی بنی۔ وہ کئی برسوں سے لندن میں پڑھا رہی ہے۔ ایجنسیوں کی ہلا شیری بھٹو صاحب کے زمانے میں شروع ہوئی۔ پھر تو اللہ دے اور بندہ لے۔ اب یہ حصار اس حد تک بڑھا دیا گیا ہے کہ گریڈ22 کے افسران بھی ایجنسیوں کی چھان پھٹک کے بعد لگائے جائیں گے۔

میں اگریہ کہوں کہ فوج کو سیاست سیاست کھیلنے کی جو عادت 70؍سال سے پڑی ہوئی ہے، بقول ذوق؎ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ میرے اندر ہی نہیں، پوری قوم کے اندر یہ وسوسے ہیں کہ آپ نے سیاست دان نما لوگوں کی حرکتیں دیکھی ہیں۔

پاکستان میں سیلاب میں فوج نے بڑی ہمت کی اور سیاستدانوں میں کسی نے لانگ مارچ تو کسی نے چارٹر جہاز کے ذریعے خاندان کے 27؍بندوں کو یورپ دکھایا ہے۔ اب مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات۔ کل کلاں پھر سپاہی قصائیوں کی دکانوں پر جالیاں لگوانے نہ نکل کھڑے ہوں۔ خدا خیر کرے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)