قوم کو چکر مت دیا کریں

December 06, 2022

یہ طےہے کہ فلم اچھی ہو یا بری، آپ تا عمر لگاتار نہیں دیکھ سکتے۔ اچھی بری فلم پابندی سے برسہا برس دیکھتے ہوئے آپ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ کسی وجہ سے اگر آپ دماغی توازن کھونے سے بال بال بچ جاتے ہیں، تو پھر آپ یقیناً نفسیاتی امراض کا شکار ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کے سب سے سینئر ماہر نفسیات، جواس وقت نوے برس کے ہیں، نے برسوں پہلے اپنے ایک لیکچر میں کہا تھا کہ مجموعی طور پر پینتالیس فی صد پاکستانی دماغی امراض میں مبتلا ہیں۔ اس انکشاف کو کئی دہائیاں گزر گئی ہیں۔ فقیر کے اندازے کے مطابق،ذہنی امراض میں مبتلا پاکستانیوں کی تعداد اب پینتالیس فی صد سے بڑھ کر ساٹھ فی صد سے تجاویز کرگئی ہوگی۔ شاید اس سے بھی زیادہ۔زندگی میں کچھ لگاتار ہونے، کرنے،دیکھنے اور گزرنے کے بعد اچھے خاصے، دیکھے بھالے لوگ دماغی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وجوہات ایک سے زیادہ ہیں، بلکہ بے شمار ہیں، کہ پاکستان میں روز اول سے ،سانحے ،مصیبتیں المناک واقعے، دلخراش حادثے بڑی باقاعدگی اور یکسانیت سے رونما ہوتے ہیں اور قوم کو جھنجھوڑ ڈالتے ہیں۔ اس قوم کو بڑی پابندی سے اتنی مرتبہ اور اس قدر جھنجھوڑا گیا ہے کہ اب کوئی حادثہ، کوئی واقعہ، کوئی سانحہ پاکستانیوں کو جھنجھوڑ نہیں سکتا۔ ہم مکمل طور پر تماش بین بن چکے ہیں۔ وحشی ہجوم تہمت لگاکر کسی بے یارومددگار کو بے رحمی سے پیٹ رہے ہوتے ہیں۔ ہم تماشائی بن کر سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں، اور مظلوم شخص کی آہ وبکا سے لطف اٹھارہے ہوتے ہیں۔ وحشی جنونی بے یارومددگار کو پتھروں، لاٹھیوں، لوہے کے سریوں،گھونسوں،لاتوں سے مارتے مارتے مارڈالتے ہیں۔ ہم عجیب سی خوشی محسوس کرتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوجاتے ہیں۔ یہ ہم ہیں۔ مانا کہ ملک میں چھوٹی بڑی عدالتیں ہیں۔ مگر ہم اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ واجب القتل ہونے کے فتوے جاری کرتے ہیں۔ موردالزام شخص کو خود سزا دیتے ہیں۔ اسے چوراہوں پر سنگسار کردیتے ہیں۔ہماری تاریخ سیاسی اور غیر سیاسی سانحوں سے بھری ہوئی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں اس قدر سیاسی سانحے دیکھے ہیں اور لگاتار دیکھے ہیں کہ اکثر اوقات پتہ نہیں چلتا کہ سیاسی سانحوں کا ذکر کہاں سے شروع کریں اور کہاں ختم کریں۔سیاسی سانحوں کی ابتدا میں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ناقابل فراموش سانحے سے کی تھی۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ سربراہ مملکت کی گاڑی راستے میں خراب ہوجائے؟ چلئے مان لیتے ہیں کہ گاڑی کسی منصوبے کے تحت نہیں، بلکہ سچ مچ خراب ہو گئی تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سربراہ مملکت کی گاڑی کے آگے اور پیچھے پروٹوکول کی گاڑیاں کیوں نہیں تھیں؟ خراب ہونے کی صورت میں کیوں دوسری ایمبولینس کا فوراً بندوبست نہیں کیا گیا تھا؟ ۔ سیاسی سانحوں کی ابتدا روزاول سے ہوچکی تھی جب قائد اعظم کی ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والی پہلی تقریر کو دوسرےروز ایڈٹ کرنے کے بعد اخباروں میں شائع کیا گیاتھا۔ آج تک کوئی نہیں جانتا کہ یہ گھنائونی حرکت کس نے کی تھی۔ قائد اعظم کبھی اپنے کام میں مداخلت گوارا یا نظر انداز نہیں کرتے تھے۔ ان کے اطراف نہ جانے کیسا ماحول تھا کہ وہ اتنی بڑی بدتمیزی چپ چاپ برداشت کرگئے۔آپ جانتے ہیں کہ قائد اعظم نے میٹرک کراچی کے کس اسکول سے پاس کیا تھا؟ آپ فوراً کہیں گے، قائد اعظم نے بمبئی یعنی بامبے یونیورسٹی سے میٹرک کرنے کے لئے امتحان سندھ مدرسۃ الاسلام سے دیا تھا۔ یہ جواب آپ پورے یقین سے اس لئے دیں گے کہ قائد اعظم کو کچھ اور پیش کرنے والوں نے نسل در نسل یہ بات درسی کتابوں میں آپ کو پڑھائی ہے، سنائی ہے اور سکھائی ہے۔ آپ کا جواب قطعی غلط ہے۔ قائد اعظم نے بمبئی یونیورسٹی سے میٹرک کرنے کے لئے تعلیم کراچی کے قدیم اسکول، کرسچن مشنری اسکول یعنیCMSسے حاصل کی تھی اور میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے لئےکرسچن مشنری اسکول سے امتحان دیا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ گم کرنے والوں نے یہ معلومات کرسچن مشنری اسکول کے ریکارڈ سے غائب کردی ہوں گی۔ تصدیق کرنے کے لئے آپ اپناانسائیکلو پیڈیا اور وکی پیڈیا دیکھ سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے دور میں آپ کچھ نہیں چھپا سکتے۔سیاسی سانحوں سے ہٹ کرمیں آپ کو کرسچن مشنری اسکول کے حوالے سے چونکا دینے والی معلومات دیتا ہوں۔انتخاب عالم کانام یاد ہے آپ کو؟ انیس سوساٹھ کی دہائی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے نامور کھلاڑی تھے۔ دائیں ہاتھ سے گگلی بالنگ کرتے تھے۔ ہارڈ ہٹنگ یعنی چوکے اور چھکے لگانے والے بیٹس مین تھے۔ پاکستان ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے۔ پاکستان ٹیم کے چیف سلیکٹر بنے۔ انتخاب عالم کرسچن مشنری اسکول کے طالب علم تھے جب ان کو آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ میچ کھیلنے کے لئے چناگیاتھا۔ مشکل سے پندرہ یا سولہ برس کے تھے۔ٹیسٹ میچ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں کھیلا گیا تھا۔ اب آپ حیرت انگیز بات سنیں۔ انتخاب عالم کو بالنگ کرنے کے لئے گیند دی گئی۔ سامنے آسٹریلیا کے جم کر کھیلنے والے اوپنر میکڈونلڈ تھے، جو کسی سے آئوٹ نہیں ہورہے تھے۔ میکڈونلڈ بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرتے تھے۔ انتخاب عالم نے ٹیسٹ کرکٹ میں اپنے پہلے اوور کی پہلی گیند پھینکی۔میکڈونلڈ نے کھیلنے کی بجائے آف اسٹمپ سے بہت دور گرنے والی گیند کو چھوڑ دیا۔ گیند گھوم کرTurnہوکر میکڈونلڈ کے اسٹمپس پر لگی۔ میکڈونلڈکلین بولڈ ہوگئے۔ اس طرح انتخاب عالم دنیائے کرکٹ کے گنتی کے دوچار بالرز کی فہرست میں شامل ہوگئے جنہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں اپنے پہلے اوور میں وکٹ لی تھی۔ مگر انتخاب عالم نے بغیر رن دئیے پہلے اوور کی پہلی گیند پر وکٹ لی تھی اور وہ دنیا کے اس وقت کم عمر کھلاڑی تھے۔ یہ دونوں عالم گیر ریکارڈ ہیں اور قائم ودائم ہیں۔