سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ: کیا تاریخ بدلے گی ؟

January 14, 2023

سہیل وڑائچ

ماجد نظامی

حافظ شیراز قریشی، وجیہہ اسلم

حنا خان، عبد اللہ لیاقت

صوبہ سندھکے بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد 15جنوری کو دوسرے مرحلے کے تحت کراچی، حیدرآباد اور ٹھٹھہ ڈویژن کے 16اضلاع میں الیکشن منعقد ہونے جارہے ہیں۔ کراچی بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں سات اضلاع سے10 ہزار امیدوار میدان میں اتر رہے ہیں۔ کراچی ڈویژن کے سات اضلاع کے 25 ٹاؤنزکی 246 یونین کونسلز کے984 وارڈز پر ایک دلچسپ انتخابی دنگل ہونے جارہا ہے۔

الیکشن سے محض پانچ دن قبل عدالت عالیہ کی جانب سے الیکشن کروانے کا حکم جاری کیا گیا جبکہ سیاسی جماعتیں اس غیر متوقع حکم اور الیکشن کیلئے تیار نہ تھیں۔ اب تمام بڑی سیاسی جماعتیں الیکشن میں اترنے کیلئے تیار ہیں جبکہ الطاف حسین نے عوام کو اس بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کو کہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے سے قبل متحدہ قومی موومنٹ اور پاک سرزمین پارٹی کے مل کر سندھ کے مسائل حل کرنے پر اتفاق سے تحریک انصاف کو نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔

سندھ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے پہلے 24جولائی ,28اگست اور پھر 23اکتوبر 2022کو پولنگ کا اعلان کیا گیا تھا تاہم سیلاب اور سیکیورٹی کی صورت حال کے باعث انتخابی عمل ملتوی کیا جاتارہا۔ کراچی کے اعدادوشمار کے مطابق ووٹرز کی تعداد 84لاکھ 5ہزار 475ہے جبکہ 4990 پولنگ اسٹیشن تشکیل دئیے گئے ہیں۔ کراچی ڈویژن کے 7اضلاع کو 25ٹاؤنز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ضلع کراچی وسطی پانچ ٹاؤن اور 45 یونین کمیٹیوں کے ساتھ سب سے بڑا ضلع شمار کیا گیا ہے۔ ضلع شرقی 5ٹاؤن اور 43 یونین کمیٹیوں کے ساتھ دوسرا بڑا ضلع ہے۔

ضلع کورنگی میں 4ٹاؤن اور37یونین کمیٹیاں ،ضلع غربی 3ٹاؤن اور 33 یونین کمیٹیاں،ضلع کیماڑی میں 3ٹاؤن او32 یونین کمیٹیاں، ضلع ملیر میں 3ٹاؤن، 30یونین کمیٹیاں جبکہ ضلع جنوبی میں 2ٹاؤن، 26یونین کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ انتخابی میدان میں اترنے والوں میں ضلع ملیر میں 1040، ضلع کورنگی میں 1450، ضلع شرقی میں 1579، ضلع جنوبی میں 876، ضلع غربی میں 1144، ضلع وسطی میں 1781اور ضلع کیماڑی میں 1258 امیدوار شامل ہیں۔

ضلع حیدرآباد کے نو ٹاؤنز کی 160یوسیز کیلئے کل10 لاکھ 79 ہزار 293 رجسٹرڈ ووٹرز اپنا حق رائے رہی استعمال کریں گے۔ یہاں2706 امیدوار انتخابی دنگل کا حصہ بن رہے ہیں جبکہ الیکشن کے لیے 754پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے ہیں۔ ان بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان، تحریک انصاف، پاک سر زمین پارٹی، جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں سمیت آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد بھی حصہ لے رہی ہے۔

علاوہ ازیں ضلع بدین میں پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام ف، تحریک انصاف، مرزا گروپ کے امیدواران سمیت آزاد امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کےجاری کردہ اعداد شمار کے مطابق68 یونین کونسلز، دو میونسپل کمیٹیز اور دس ٹاؤن کمیٹیز پر مرد اور خواتین کے رجسٹر ڈ ووٹرز کی تعداد نو لاکھ 36ہزار51ہے جبکہ سب ہی نشستوں پر 1908امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔

جماعت اسلامی نے پولنگ اسٹیشن کے با ہر فوج تعینات کرنے کی درخواست کی تھی جس کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے فوج اور رینجرز کی تعیناتی سے معذرت کی گئی ہے۔

پہلے مرحلے میں میونسپل کارپوریشنز اور ڈسٹرکٹ کونسلز کی پارٹی پوزیشن

پہلے مرحلے میں کیا ہوا؟

بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے سے قبل تمام سیاسی جماعتوں نے حلقہ بندی، ووٹرز لسٹ اورپولنگ سکیم پر اعتراضات کئے تھے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی، سندھ یونائیٹڈ پارٹی، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، جمعیت علماء اسلام نے پیپلزپارٹی پر سرکاری مشینری کے استعمال اور امیدواروں کو ہراساں کرنے کے الزامات بھی عائد کئے تھے تاہم پھر بھی چند ایک واقعات کے علاوہ الیکشن پرامن رہے۔ پہلے مرحلے میں سندھ کے چار ڈویژن ) میر پورخاص، سکھر، شہید بینظیرآباد اور لاڑکانہ( کے 14اضلاع میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے جس میں پیپلزپارٹی اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی۔5331 نشستوں کیلئے 21ہزار 298امیدوار میدان میں اترے جبکہ 946بلدیاتی امیدواروں نے بلامقابلہ میدان مار لیا۔

پہلے مرحلے میںووٹرز کی تعداد ایک کروڑ 14لاکھ 92ہزار 680 تھی۔ اعداد وشمارکے مطابق 887یونین کونسلز اور یونین کمیٹیوںکے چیئرمین اور وائس چیئرمین کی مشترکہ 887 نشستوں میں سے 135نشستوں پر امیدوار بلامقابلہ کامیاب قرار دے دئیے گئے۔ انتخابی نتائج کے مطابق مجموعی طور پر پیپلزپارٹی پہلے نمبر پر، آزاد امیدوار دوسرے، جمعیت علماء اسلام تیسرے اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس چوتھے جبکہ تحریک انصاف پانچویںنمبر پر رہی۔ 14اضلاع کی ضلع کونسلز اور چاروںمیونسپل کارپوریشنز سکھر، لاڑکانہ، شہید بینظیر آباد اور میر پورخاص میں پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کی۔

لاڑکانہ میں سہیل انور سیال کے چھوٹے بھائی شاہ رخ خان سیال چیئرمین منتخب ہوگئے جبکہ سکھر میں خورشید شاہ کے فرزند زیرک شاہ کامیاب قرار پائے۔ پیپلز پارٹی نے جہاں بڑی کامیابی حاصل کی وہیںکچھ بلدیاتی اداروں میں اپ سیٹ بھی دیکھنے میں آئے۔ پیپلز پارٹی کیلئے بڑا اپ سیٹ ضلع لاڑکانہ کے دوسرے بڑے شہر باڈہ ٹائون کمیٹی اور ڈوکری ٹائون کمیٹی میں ہوا جہاں پیپلزپارٹی کو جی ڈی اے ،انڑ گروپ اور جے یو آئی اتحاد سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح رہنما پیپلز پارٹی منظور وسان کے آبائی علاقے کوٹ ڈیجی ٹائون کمیٹی میںجی ڈی اے نے پیپلزپارٹی کو شکست دی۔

میئر شپ کی کرسی پر کون براجمان ہوگا؟

کراچی کی میئر شپ کیلئے اصل معرکہ 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کے بعد جوڑ توڑ کے دور کا آغاز ہوگا کہ میئر کراچی پیپلزپارٹی کا ہوگا یا متحدہ قومی موومنٹ کا۔ یہ بات واضح ہے کہ موجودہ حالات میں کوئی بھی ایک جماعت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اکیلے میئرکی کرسی اپنے نام کرلے۔ یہی وجہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنمائوں مرکز میںاپنے اتحادیوں یعنی پی ڈی ایم اور بالخصوص پیپلزپارٹی پر زور دے رہی ہے کہ یہ یقین دہائی کرائی جائے کہ کراچی کی میئر شپ متحدہ کو ہی دی جائے گی۔

دوسری جانب پیپلزپارٹی اس یقین دہانی دینے سے قاصر ہے کیونکہ جوڑ توڑ کی سیاست میں پیپلزپارٹی ایکسپرٹ ہے اور وہ چاہتی ہے کہ میئر کراچی جیالا ہو۔ متحدہ قومی موومنٹ کایہ بھی خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کو یہ ایڈوانٹیج بھی حاصل ہے کہ ان کے پاس صوبائی حکومت بھی ہے۔ ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کی خواہش رہی ہے کہ کراچی کی میئر شپ اس کے حصے میںآجائے۔ بار بار انتخابات ملتوی ہونے میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے متحدہ کا جو ساتھ دیا ہے اس کے پیچھے بھی یہی مفاد کافرما رہا ہے۔جماعت اسلامی بھی چاہتی ہے کہ اس کا نمائندہ میئرشپ کی دوڑ میں شامل ہو اور کامیابی بھی حاصل کرے۔

دوسری جانب حیدرآباد کی میئر شپ کی نشست کیلئے متحدہ قومی موومنٹ کی پوزیشن مستحکم نظر آرہی ہے۔ ماضی میںحیدرآباد اور کراچی میں ایم کیو ایم نہ صرف اکثریتی جماعت بنی بلکہ میئرشپ کیلئے انہی کا نامزد امیدوار ہی فاتح رہا۔ تاہم ڈویژن کے دیگر اضلاع کے ماضی کو دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی سیاسی طور پر حاوی رہی ہے۔ یہ بھی اندازہ لگایاجارہاہے کہ سیلاب اور حالیہ بارشوں کے بعد نتائج ماضی کے برعکس بھی آسکتے ہیں۔

کراچی بلدیاتی انتخابات کا سب سے اہم مقابلہ نارتھ ناظم آباد کی یونین کونسل 8 میں متوقع ہے۔ جہاں جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن ،ایم کیوایم پاکستان کے اکبر مسعود پی ٹی آئی کے ابوبکر صدیق اور پیپلز پارٹی کے صاحبزادہ خان کے درمیان سخت مقابلہ کی توقع کی جارہی ہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن اس سے قبل بھی میئر کا انتخاب لڑ چکے ہیں اور یہ حلقہ جماعت اسلامی کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔

صدر ٹاؤن کی یوسی 11 میں پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان کانٹے دار مقابلے کا امکان ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق اس یونین کونسل میں پیپلز پارٹی کے سید نجمی عالم میئر یا ڈپٹی میئر کے انتخاب کیلئے میدان میں اتر رہے ہیں۔ ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے پارلیمانی پارٹی لیڈر اور صوبائی وزیر خرم شیر زمان سے ہورہا ہے۔ اسی طرح سولجر بازار یونین کونسل 2میں تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی انتخاب لڑ رہے ہیں۔

کراچی کے علاقے لیاری سے پی پی پی نے ملک فیاض کو نامزد کیا ہے، انہیں ٹائون کونسل چیئرمین کیلئے مضبوط امیدوار تصور کیا جا رہا ہے۔ ان کے مقابلے میں جمعیت علمائے اسلام ف اور تحریک انصاف نےاپنے اپنے امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق یہ خیال کیا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی شکور شاد پیپلز پارٹی کی حمایت کرسکتے ہیں۔

نیا انتخابی نظام کیا ہے؟

لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ہر ووٹرکو دو بیلٹ پیپر دئیے جائیں گے اور وہ دو ووٹ کاسٹ کرےگا۔ ایک بیلٹ پیپر میںچیئرمین اور وائس چیئر مین مشترکہ ووٹ جبکہ دوسرے بیلٹ پیپر پر انہیںایک وارڈ ممبر کو ووٹ کاسٹ کرنا ہو گا۔ 246 یونین کمیٹیوں کے چیئرمین، وائس چیئرمین،25 ٹاؤن کمیٹیوں کے 25ٹاؤ ن چیئرمین اور وائس چیئرمین جبکہ کراچی کی سطح پر مئیراور ڈپٹی مئیر ہوگا۔ 246 یونین کونسلز کے چیئرمین بلدیہ عظمیٰ کراچی جبکہ یونین کمیٹیوں کے وائس چیئرمین اپنے اپنے ٹاؤن کی کونسل کے رکن ہوں گے۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی کیلئے کونسل ممبر میںایک فیصد خواجہ سرا یعنی 2، ایک فیصد خصوصی افراد یعنی 2رکن، 33فیصد خواتین یعنی 81خواتین، پانچ فیصد نوجوان یعنی 12 اراکین ،اور پانچ فیصد مزدور یا کسان یعنی 12مخصوص نشستوں کا چیئرمین یعنی منتخب ممبر انتخاب کرے گا۔ اور یہ تمام افراد مئیر اور ڈپٹی مئیر کے انتخابات میںبھی حصہ لیںگے۔ دوسری جانب یونین کمیٹیوں کے وائس چیئرمین اپنے اپنے ٹاؤن کے کونسل کے رکن ہوںگے۔

ہر ٹاؤن کی یونین کمیٹیوںکی تعداد علیحدہ علیحدہ ہے مگر اوسط شرح ویسے ہی ہے جیسے باقی بلدیاتی اداروں کی ہے۔ اس طرح ٹاؤن کونسلز اور اراکین کی تعداد بھی مختلف ہو گی مگر مخصوص نشستوں کی تعداد میں کوئی کمی پیشی نہیں ہوگی۔ پھر ٹاؤن کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کو منتخب کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ جنرل نشستوں کی تعداد مقررہ (fixed) ہو گی یعنی یونین کونسل / یونین کمیٹی میں چیئرمین اور وائس چیئرمین کے علاوہ چارجنرل نشستیں ہوں گی ۔کسی بھی سطح کی باڈی میں کوئی ٹیکنوکریٹ ممبر شامل نہیں کیا گیا۔ میونسپل کمیٹی، ٹاؤن کمیٹی ، یونین کمیٹی اور یونین کونسل کے نیچے وارڈز ہیں۔