قومی مفاہمت ضروری

January 31, 2023

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کوئی ایسا قیدی نہیں جس نے کئی محاذوں پر جمہور اور جمہوریت کے لئے اتنی لمبی قید کاٹی ہوجتنی آصف علی زرداری نے کاٹی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کوئی ایک ایسا رہنما نہیں جس نے جمہور اور جمہوریت کیلئےایسے ایسے دشمنوں کو بھی معاف کردیا جو کبھی اس کے خون کے پیاسے تھے، 90ءکی دہائی میں جہاں شہید بینظیربھٹو کو قتل کرنیکی سازشیں ہوتی رہیں وہیں سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کو بھی قتل کرنے اور سیاست سے باہر کرنے کے کئی حربے استعمال ہوتے رہے۔نواز شریف کو بحیثیت وزیر اعظم پاکستان یہ قوی یقین تھا کہ زرداری کے ہوتے ہوئے نہ وہ پی پی پی کی سیاست کو ختم کرسکتے ہیں نہ شہید بینظیربھٹو کا پاکستان میں کردار محدود کر سکتے ہیں۔

لہٰذا 90 ءکی دہائی میں بار بار یہ کوشش ہوتی رہی کہ کسی طرح آصف زرداری کو توڑا جائے یا انہیں ایسے الزامات میں پھنسا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئےایسی قید میں ڈال دیا جائے جہاں سے نکلنا ممکن نہ ہو لیکن آصف علی زرداری ہمت، جرأت، بہادری اور دلیری کا دوسرا نام ثابت ہوئے، جب وہ مسندِ اقتدار پر فروکش ہوئے تو انکے پاس یہ موقع تھا کہ وہ اپنے سیاسی دشمنوں کیساتھ وہی کریں جو ان لوگوں نے انکے ساتھ کیا لیکن آصف زرداری نے مفاہمت کا نعرہ لگایا، اپنے بدترین دشمنوں کو بھی اقتدار میں حصہ دیا، گجرات کے چوہدری ہوں یا جاتی امراکے شریف، آصف زرداری نے سب کو گلے لگا کر سیاست میں ایک نئےتصور اور نئی روایت کو جنم دیا تاکہ سیاست میں ذاتی دشمنیوں کا خاتمہ ہو اور سیاسی اختلاف کسی کی جان لینے یا جھوٹے مقدمات بنا کر اپنے مخالفین کو پابند سلاسل کرنے کیلئےاستعمال نہ ہو۔ انہوں نے ہرممکن کوشش کی کہ کسی طرح تمام سیاسی جماعتوں کو یہ باور کروایا جائے کہ ہمارے سیاسی اختلافات سے سب سے زیادہ نقصان اگر ہوا ہے تو وہ پاکستان کو ہوا ہے ،جہاں سیاسی گھرانوں کے ذاتی مفادات پاکستان کے مفاد کے آڑے آئے، جہاں سیاسی جماعتوں کی آپس کی رنجش کا فائدہ تیسری قوت نے اٹھایا اور جس کے بعد جمہوریت کئی کئی سال کیلئے پٹری سے اتر گئی لیکن 2009 ءکے بعد جب یہ سوچ پروان چڑھ رہی تھی کہ پی پی پی اور نواز شریف کو ختم کر کے ایک ایسی جماعت کو پروان چڑھایا جائے جو ان دونوں جماعتوں کا متبادل ہو اور دونوں جماعتوں کا کردار محدود کردے، ایسے وقت میں عمران خان پر سرمایہ کاری شروع ہوئی تو آصف علی زرداری کو میمو گیٹ اسکینڈل میں پھنسا کر یہ کام شروع کیا گیا لیکن بدقسمتی دیکھیں کہ اس وقت عمران خان کے بجائے نواز شریف کو آصف علی زرداری کیخلاف استعمال کیا گیا،وہ کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ گئے، آصف زرداری کا اس سازش میں کوئی بال بھی بیکا نہ کرسکا مگر کچھ سال بعد نواز شریف ایسی ہی سازش کا شکار ہوگئے اور انہیں سپریم کورٹ کے ذریعے نااہل کروادیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ انہیں کیا پڑی تھی کہ انہوں نے اپنے سیاسی مخالف عمران خان کو اقتدار سے نکال کر ایک اور مخالف کو اقتدار میں لا بٹھایا ؟ آخر آصف علی زرداری چاہتے کیا ہیں ؟ انہوں نے ایسا کیوں کیا ؟ جناب سادہ سا جواب یہ ہے کہ وہ اس ملک میں صرف جمہوریت چاہتے ہیں کیوں کہ انہوں نے اس جمہوریت کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ پاکستان کو بچانا ہے تو جمہوریت کو مضبوط کرنا ہوگا، جب جمہوریت یہاں مضبوط ہوگی تو نہ پاکستان کو عدم استحکام کا خطرہ ہو گااور نہ کسی اندرونی یا بیرونی دشمن کا۔

جمہوریت صرف انتقام نہیں بلکہ پاکستان کو ترقی کی راہ پرڈالنے کا سب سے بہترین ہتھیار ہے اور انہوں نے عمران خان کو پہلی تقریر میں بھی یہی سمجھایا تھا کہ آئیں مل کر پاکستان کی معیشت اور جمہوریت کو مضبوط کرتے ہیں، یہ بات سمجھنے میں نواز شریف کو 10 سال لگے اور لگتا ہے کہ عمران خان کو بھی 10 سال ہی لگیں گے لیکن پاکستان اب اس کا متحمل نہیں ہوسکتا، اس ملک کو اگر ہمیں ترقی کی راہ پر لے کر جانا ہے تو وہ ہی کرنا ہوگا جو زرداری صاحب چاہتے ہیں یعنی میثاق معیشت۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اگر کوئی شخص ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکتا ہے تو وہ آصف زرداری ہے،جو اپنے بدترین دشمن عمران خان کو بھی پاکستان کیلئےمعاف کرکے ایک ساتھ بٹھا سکتا ہے مگر یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب عمران خان انا پرستی سے باز آجائیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ عمران خان کا مشن پاکستان کی معیشت کوتباہ کرنا ہے۔ دوسری طرف آصف علی زرداری کا بھی ایک مشن ہے اور وہ مشن قومی مفاہمت ہے جس میں عمران خان سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، دیکھنا یہ ہوگا کہ ہمارے فیصلہ ساز ادارے کب اس رکاوٹ کو سیدھا راستہ دکھاتے ہیں۔